استقبال رمضان اور اُس کے فیوض وبرکات

0
0

از: مفتی عبدالرزاق صاحب بنگلوری، مدیر وایڈیٹر صدائے حق اسلامک پورٹل

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے رمضان المبارک ایک بہترین مہینہ ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا خصوصی نزول ہوتا ہے، بندوں کو اپنا محبوب بنانے اور ان کی مغفرت کرنے کے لیے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی مبارک اعمال رکھے ہیں، اور ہرعمل کا ثواب بھی اپنی اصل سے دوگنا بڑھادیا گیا ہے؛ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رمضان کے مبارک مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے گا اس کا حال ایسا ہے جیساکہ رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کوئی فرض ادا کیا ہو، اور جو شخص اس ماہ مبارک میں کوئی فرض عبادت ادا کرے گا اس کا حال ایسا ہے جیساکہ غیررمضان میں ستر(۷۰) فرض ادا کیا ہو۔ (شعب الایمان:۳؍۳۰۵) اس مبارک مہینے کی قدر ومنزلت آج امتِ مسلمہ کے نزدیک بڑی بلندپایہ حیثیت رکھتی ہے، اور بعض وہ لوگ بھی ہیں جو ہلکے سے لچر عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑ دیتے ہیں؛ حالانکہ حدیث میں روزے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ یَتْرُکُ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ وَشَہْوَتَہٗ مِنْ أَجْلِيْ، اَلصِّیَامُ لِيْ وَأَنَا أُجْزِيْ بِہْٖ۔ (بخاری شریف:۱؍۲۵۴) ’’روزے دار کے منہ سے بھوک کی وجہ سے جو بُو آتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی بڑھ کر ہے؛ کیونکہ روزے دار صرف اللہ کی رضا کی خاطر کھانے پینے اور اپنی خواہش پوری کرنے سے اجتناب کرتا رہا، یہ سارے روزے اس نے میرے لیے رکھے ہیں اور میں خود اس کا بدلہ عطا کروںگا۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ آج لوگ معمولی بہانے سے روزہ جیسی عظیم الشان عبادت کو ترک کردیتے ہیں بطورِخاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن دونوں ایک ساتھ قرآن پڑھنے والے روزے دار کے لیے اللہ کے دربار میں شفاعت کریںگے اور اللہ تعالیٰ سے روزہ اس طرح فریاد کریگا کہ میںنے اس کو کھانے پینے اور شہوت پوری کرنے سے دن کے وقت میں روکے رکھا؛ لہٰذا میری شفاعت روزے دار کے حق میں قبول فرمائیے اور قرآنِ کریم کہے گا کہ میںنے راتوں کو اس کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا میری شفاعت قرآن خواں کے حق میں قبول فرمائیے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ روزہ اور قرآن دونوں کی شفاعت اپنے بندے کے حق میں قبول فرمائیںگے۔ (مسنداحمد:۲؍۱۷۴، رقم:۶۶۲۶) اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کبریائی کا کسی کو کیا اندازہ کہ اپنے بندوں کی مغفرت اور کفارۂ ذنوب کے متلاشی رمضان کا مقدس مہینہ عطا کیا اور یہ بابرکت مہینہ امتِ محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے، کہ پچھلی امتوں پر روزے فرض تھے؛ مگر کہیں ایسی مبارک گھڑیوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔
تراویح کی فضیلت
اس مقدس مہینہ میں تراویح کے ذریعے عبادت کا ذائقہ کچھ اور ہی محسوس ہوتا ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’فَمَنْ صَامَہٗ وَقَامَہٗ إِیْمَانًا وَإِحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ أُمُّہٗ‘‘۔ (ابنِ ماجہ: ص؍۹۴، رقم:۱۳۲۸) جوشخص ایمان کی حالت میں اللہ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس مہینے کا روزہ رکھے گا اور اس کی راتوں میں (تراویح کی نماز کے لیے) قیام اللیل کرے گا وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل کر پاک ہوجائے گا جس طرح وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت گناہوں سے پاک تھا، بالخصوص تراویح حفاظ کے لیے اللہ کی جانب سے بہت بڑاانعام اور احسان ہے، اگر تراویح کی نماز نہ ہوتی تو یہ کہنے میں کوئی بعید نہیں کہ چند گنے چنے حفاظ باقی رہ جاتے، جن کو قرآنِ کریم یاد ہوتا، بس اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے تراویح کو ایک الگ سنت قرار دیا ہے اور اس میں مکمل قرآن مجید پڑھنے کو الگ سنت قرار دیا ہے، تو جب دونوں کا وجود اس مبارک مہینے میں ہوتا ہے تو پھر حدیث کا جملہ ’’خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِہٖ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ أُمُّہٗ‘‘ کا مصداق ضرور ہوںگے۔
اعتکاف کی فضیلت
رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ ہے، یعنی تمام محلے میں سے کسی نہ کسی آدمی کا اعتکاف کرنا ضروری ہے، اگر کوئی بھی اعتکاف میں نہ بیٹھے تو تمام محلے والے گنہگار ہوںگے اور آخری عشرے کا اعتکاف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمربھر کیا ہے، اور اس کے بڑے فضائل بھی احادیثِ مبارکہ میں موجود ہیں، ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے: ’’مَنْ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِيْ رَمَضَانَ کَانَ لِحَجَّتَیْنِ وَعُمْرَتَیْنِ‘‘۔ (الترغیب والترہیب:۲؍۹۶) جوشخص رمضان المبارک کے مہینے میں آخری عشرہ کا اعتکاف کرے گا اس کو اللہ کی جانب سے دوحج اور دوعمرے کا ثواب ملے گا۔
ایک اور دوسری روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رضائے الٰہی اور مرضیٔ مولیٰ حاصل کرنے کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اس کے اور جہنم کے درمیان ایسی تین خندقیں حائل کردے گا کہ ان میں سے ہرایک خندق کا فاصلہ اتنا ہوگا جتنا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب:۲؍۹۶)
مگر افسوس ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا آخری عشرہ تو عید کی تیاری کے لیے بازاروں میں گزرتا ہے، اور عورتیں بے پردگی سے حیا کے تمام حدود کو پھلانگ کر بازاروں کی زینت بننے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتیں؛ حالانکہ رسولِ ربِّ کریم نے فرمایا کہ: ’’أَوَّلُ شَہْرُ رَمَضَانَ رَحْمَۃٌ وَأَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ‘‘۔ (جامع الاحادیث:۳؍۲۹۸) رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے اور اس کا درمیانی عشرہ مغفرت کا ذریعہ ہے اور اس کا آخری عشرہ جہنم سے خلاصی کا ذریعہ ہے۔ اب ہم خود فیصلہ کریں کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بے پردگی اور بے حیائی کا مظاہرہ ہماری مسلمان خواتین کرتی ہیں، ہم نے تو پہلے عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرلیا، اور دوسرے عشرہ میں مغفرت کروالی، پھر جب آخری عشرہ میں آگ سے خلاصی کا موقع ملا تو بے حیائی (وہی بے ڈھنگی رفتار جو پہلے تھی سو اب بھی ہے) کا شکار ہوگئے۔
لیلۃالقدر
شبِ قدر رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے، جو ماہِ مبارک کے آخری عشرے میں لاعلی التعیین کوئی رات ہے، جو بہت ہی خیروبرکت کی رات ہے، قرآن وحدیث کے اندر اس رات کی عبادت کو ہزارمہینے کی عبادت سے بھی بہتر اور افضل بتلایا گیا ہے، اور ایک ہزارمہینے تِراسی (۸۳) سال چار (۴)مہینے ہوتے ہیں، اگر کوئی خوش قسمت اس رات میں عبادت کرتا ہے تو اس کو تِراسی سال چارمہینے تک عبادت کرنے سے بھی زیادہ ثواب اور فضیلت حاصل ہوگی، لیلۃالقدر میں اگر کسی کو عبادت کی توفیق مل گئی تو انتہائی خوش نصیب آدمی ہوگا اور اس رات میں عبادت کی وجہ سے پچھلے تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ إِیْمَانًا وَإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ‘‘۔ (ترمذی شریف:۱؍۱۴۷) جوشخص ایمان کی حالت میں ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے لیلۃالقدر میں عبادت کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے تو اس کے ماقبل کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
حرفِ آخر
انسان اگراپنی مغفرت اللہ کے دربار میں کروانا چاہتا ہے تو اس کے لیے بہت سے مواقع اللہ نے دیے ہیں؛ مگر ہمیں خبر نہیں ہے، ہم دنیاوی مشاغل میں ایسے گھرے رہتے ہیں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کیا آرہا ہے اور کیا جارہا ہے؟ ہاں! اگر پتہ چل بھی جائے تو عبادت میں سستی اورکاہلی ایک لابدی امر بن جاتی ہے۔
اس لیے پورے فیوض وبرکات کے ساتھ رمضان کا مبارک مہینہ آنے والا ہے، اس میں ہمہ تن عبادت کرنے اور اللہ کو پوری طرح راضی کرنے کی کوشش کریں، برس کے گیارہ مہینہ تو ہم نے اللہ کو ناراض کیا؛ مگر ایک مہینہ ایسا گزاریں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ ہم سے ناراض نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح قدردانی کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)

 

mvm

 

 

 

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا