فلاح پا گیا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا

0
0

 

خان عرشیہ شکیل
نالا سوپارہ ویسٹ

ماہ رمضان تزکیہ نفس کے لیے بہترین مہینہ ہے اس ماہ میں انسان اللہ کی عبادات و ریاضت میں دیگر مہینوں سے زیادہ مشغول ہوتا ہے فرض نماز کے علاوہ نوافل دعائیں صدقہ و خیرات بھوکوں کو کھانا کھلانا وغیرہ نیکیوں کے کام کرتا ہے اور جب وہ نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے تو یقینا برائیوں سے بچ جاتا ہے یہی تقوی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اگر انسان نیکی کے کام کو شعوری طور پر کرے تو وہ شر کے فطری غلبے کو دور کرکے اپنے آپ کو گناہوں کی آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔
تذکیہ نفس کیا ہے؟
تزکیہ نفس در اصل نفس کو پاک صاف کرنا اور اس کی نشوونما کرنا اور اسے پروان چڑھانا ہے۔ کفر وہ شرک کو چھوڑ کر ایمان لانا ۔برے اخلاق کو چھوڑ کر اچھے اخلاق اختیار کرنا برے اعمال کو چھوڑ کر اچھے اعمال کرنا تزکیہ نفس کہلاتا ہے ۔
اللہ تعالی نے انسان کے اندر دو خصلتیں رکھی ہے ایک کا تعلق مادہ سے ہوتا ہے جو اسے دنیا کی طرف جھکاتا ہے اور برائیوں پر آمادہ کرتا ہے جسے ہم نفس امارہ کہتے ہیں ہیں دوسرے کا تعلق روح سے ہوتا ہے اور جو انسان کو خیر کی طرف لے جاتی ہے جسے ہم نفس مطمئنہ کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان ایک درمیانی رخ ہوتا ہے جو اسے برائیوں پر ملامت کرتا ہے جسے نفس لوامہ کہتے ہیں۔ قرآن نے ان تین قسموں کے نفس کا تذکرہ کیا ہے۔
نفس امارہ۔۔۔ انسان بے جا خواہشات کی غلامی کرتا ہے ہے اور دنیا حاصل کرنے کی دوڑ میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے ہے کہ آپنی آخرت کو بھول جاتا ہے اور اللہ کے نازل کردہ احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ مثلا جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو حلال و حرام کی تمیز کھو جاتا ہے۔ جب صاحب حیثیت ہوتا ہے تو متکبر بن جاتا ہے۔
اسی طرح ظلم حسد غصہ وغیرہ بری عادتوں کا شمار نفس امارہ میں ہوتا ہے ۔ اگر انسان اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور ان تمام برائیوں سے بچتا ہے ہے تو اور اپنے نفس کو اللہ کے آگے جھکا دیتا ہے اور نفس کو نفس مطمئنہ بناتا ہے ۔ جیسا کہ سورہ یوسف آیت نمبر 53میں ارشاد باری ہے۔
"بے شک نفس برائی پر اکساتا ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو۔” جب انسان کے دل میں خوف خدا پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے تواللہ تعالی اس کی مدد فرماتا ہے اور اپنی رحمت سے اسے برائیوں سے نکال کر نیکیوں کی طرف لاتا ہے۔
نفس لوامہ۔۔۔۔ نفس لوامہ یعنی ملامت کرنے والا نفس انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے اور اسے پشیمانی دلاتا ہے ہے اسے نفس لوامہ کہا جاتا ہے ۔ اگر انسان نفس کی آواز سنتا ہے اور اپنا تزکیہ کرتا ہےاور توبہ کرتا ہے ‘ گناہوں سے باز آجاتا ہے تو پھر اس کا نفس نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔ سورۃ النزعت میں ارشاد باری ہے”جو شخص قیامت کے روز اللہ کے روبرو کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو شہوات اور خواہشات سے باز رکھا بس اس شخص کا ٹھکانہ جنت ہے ۔
نفس کی تین قسمیں ہیں ہیں۔ لیکن نفس خود چار عناصر سے مل کر بنتا ہے فکر ‘خواہشات’ قلب’ روح’ اگر فکر کی غلطی ہو تو اگلے مراحل بھی غلط ہو سکتے ہیں۔ صحیح فکر یعنی ہمارے عقائد’نظریات صحیح ہو ۔ دل کی صفائی بہت ضروری ہے ۔ تقوی کی بنیاد کا اظہار دل کی کیفیت سے ہوتا ہے اچھے اعمال اچھے خیالات کے مرہون منت ہوتےہیں۔ اسی طرح برے خیالات دل میں ہو تو عمل بھی برا ہی ہوگا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا” سنو انسانی جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بھی بگڑ جاتا ہے.
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ۔” اے میرے رب مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ ہی اولاد بجز اس کے کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے حاضر ہوں۔ تزکیہ نفس کے ذرائع ۔
نماز۔۔۔ نماز اللہ کی یاد کا ذریعہ ہے جس سے انسان اللہ کا قرب حاصل کر تا ہے۔
” ان صلاتہ تنہی عن الفحشاء والمنکر ۔”
نماز برائی اور بے حیائی سے بچا تی ہے۔
روزہ۔۔۔” یا ایھا الذین آمنوا کتبا علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون” تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ کی صفت پیدا ہو
تلاوت قرآن۔۔۔قرآن سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔دنیا اور آخرت کی بھلائی کے طریقے بتاتا ہے۔اس طرح اذکار دعائیں توبہ استغفار وغیرہ نفس کو پاک و صاف رکھتے ہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا