مضبوط خاندان -سماج کی تعمیر میں عورت کا کردار

0
0

ڈاکٹر حُسینی کو ثرسلطانہ
ڈاکٹر رفیق ذکریا کالج فارویمن،شعبہء اردو،اور نگ آباد
: 7798266547

انسانی معاشرہ کی ابتدا خاندان کی تشکیل سے ہوتی ہے۔ اور خاندان مرد اور عورت کے باہمی تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ اسی بنیادی تعلق کے ذریعے انسانی زندگی کا کارواں آگے بڑھتا ہے۔ کنبے اور قبیلے بنتے ہیں اور معاشرہ ارتقائی مشکل اختیار کرتا ہے۔
ایک صحتمند سماج کی بنیاد صحتمند خاندان ہیں۔ خاندانی نظام مضبوط ہو۔ افر اد خاندان تعلیم یا فتہ ہوں۔ اسلامی شریعت اور عائلی قوانین کے جاننے والے اور اُن پر سختی سے عمل پیرا ہوں تو ایک مہذب تعلیم یافتہ سماج کا وجود ممکن ہے۔
مثالی خاندان اور سماج کی تعمیر میں لا لحاظ مرد وزن ہر فرد کا کردار اہمیت رکھتا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی ایک صحت مند سماج کی تشکیل کی ذمہّ داری عائد ہوتی ہے۔ مردوں ہی کی طرح عورت بھی سماج کی ایک با شعور ذمہّ دار شہری ہے۔ کسی قوم کی حالت کا اندازہ لگانا ہوتو وہاں کی خواتین کو دیکھنا چاہیے۔ جس قوم کی عورتیں تعلیم یافتہ باشعور اور مہذب ہوتی ہیں ۔ وہی قوم صحیح معنوں میں ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق ہوتی ہے۔
موجودہ دور میں خواتین سماج کے ہر شعبہ میںبڑی یکسا ں طور پر فعال اور سرگرم نظر آتی ہیں۔ تجارت، صنعت ، صحت، معیشت،ہر جگہ خواتین اپنا وجود منوانے کے لیے بر سر پیکار ہیں ۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد سماج میں اپنی موجودگی درج کرواچکی ہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ۔ حصول تعلیم اور حصول معاش سے لئے کر حصول نام ونمود وشہرت سبھی میں شامل ہیں۔ لیکن آج کا سماج عورت سے یہ تقا ضہ کررہا ہے کہ وہ صحتمند خاندان اور مضبوط معاشرے کی تعمیر میں اپنا خصوصی رول ادا کرے۔
سماج کی بگڑی ہوئی شکل، معاشرے میں نوجوان نسل کی اخلاقی گراوٹ ٹوٹتی شادیاں، بڑھتے طلاق و خلع کے اعداد وشمار پُکار پُکار کر کہہ رہے ہیں کہ مائیں اور بہنیں آئیں اور اپنی ذمہ دار یوں کو اپنے کا ندھوں پر لے لیں ۔ خواتین جن کے کاندھوں پر اولاد کی تربیت کی ذمہّ داری ہے، خاندان کے اہم فیصلے جن کی سوچ پر منحصر ہیں۔ وہ دیکھیں کہ ہمارا خاندانی نظام کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ یہ حقیقت کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔ بس ضرور ت اس بات کی ہے کہ پر فرد اپنی ذمہّ داری سمجھے اپنا عملی کردار نبھائے ۔پنڈت نہرونے ایک جگہ لکھا ہے۔
To awaken the people, it is the ‘WOMEN’ who must be awakened
once she is on the move the family moves the village moves the nation moves.
یعنی عوام کا شعور بیدار کرنے اور انھیں غفلت سے جگانے کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ سماج کی عورت کو جگایا جائے۔ ایک بار سماج کی عورت حرکت وعمل میں آجائے تو خاندان میں عمل وحرکت پیدا ہوگی۔ پھر سماج ،گائوں اور سارا ملک جاگ جائے گا۔
آج اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاری ہے کہ خواتین اپنے حاصل کردہ حقوق اور آزادی کو سماج کے لیے کار آمد بنا کر عملی میدان میں آئیں ۔ جو آزادی ہمارا مذہب اور ہمارا سماج ہمیں حصول علم اور حصول معاش کے لیے ہمیں دیتا ہے، ہم اُسے اپنے خاندان اور اپنے سماج کے لیے مفید و مؤثربنائیں اور نوجوان نسل کی اصلاح کا بیڑہ اُٹھائیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عورت بہ حیثیت ایک اکائی اپنے ہی حقوق کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے اور فرائض سے کوتا ہی برتی جارہی ہے۔ اولاد کی تربیت والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔
مردوں کے مقابلے میں خواتین کا زیادہ وقت اولاد کے ساتھ گذرتا ہے، خواتین کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت اسلامی طریقے پر کریں۔ اور اسے ایک اچھا انسان باشعور شہری بنائیں اخلاقی قدروں کو نوجوانوں میں بیدار کریں۔ جس سے ہمارا خاندانی نظام مضبوط ہوگا۔ اور یہ خاندانی نظام سماجی نظام کو پائیدار بنائے گا۔
عزیز خواتین آج ہم دینی ودنیوی ہر طرح کی تعلیم سے لیس ہیں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن فہمی عام ہوچکی ہے۔ پھر کیا وجہہ ہے کہ ہمارے خاندان بکھررہے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بے راہ روی عروج پر ہے ۔جرائم سماج میں بڑھتے جارہے ہیں۔ خود غرضی اور بے حسی جڑ پکڑ چکی ہے۔ میری ناقص رائے میں یہ ہمارے ماحول کا سب سے بڑا نقص خودہم میں پل رہا ہے اور وہ ہے ہمار ا ذاتی مفاد ہمارا selfishness
ہم اپنی تعلیم اپنی قابلیت اپنی سوجھ بوجھ اور اپنی صلا حیتوں کو خود پر ہی مرکوز کیے بیٹھے ہیں ہم تعلیم یافتہ ترقی یافتہ مہذب دیندار سب کچھ ہونا چاہتے ہیں مگر صرف اپنے لیے ہمارے سوچ کا محور ہماری ذات ،ہمارے مفاد ہماری اولاد اور ہمارا گھر ہے۔ ہمارا خاندان ، ہمار ا سماج ہمارا ادارہ، ہماری قوم ہر گز ہر گز نہیں ہے۔ اور یہی سب سے بڑا عیب ہے۔
آج ہماری قوم اخلاقی برائیوں کے جس دلدل میں دھنس چُکی ہے اُس کو اُبھارنا ہماری اولین دینی ومعاشرتی ذمہّ داری ہے۔ ہمـ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، کو بھُول کر کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ ہماری زندگیوں میں یہ جو مایوسی، احساس ناکامی اور فرار کا ماحول در آیا ہے یہ کبھی دُور نہیں ہوگا اگر ہم برائیوں سے روکنے والے اور اچھا ئیوں کی طرف بُلانے والے نہیں بنیںگے۔صراط مستقیم کی تربیت وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ حقیقت سے نظریں چُرا کر اور مصلحت پسندی کا لبادہ اوڑھ کر نام نہاد ترقی کا تصور ہی ہماری سب سے بڑی بھُول ہے۔ ہمارے خاندان ہماری پہچان ہیں۔ اُن کو ساتھ لیے بنا ہم وسماج میں کہیں اپنا مقام نہیں بناسکتے ۔
آج ہماری خواتین خاندانوں کو جوڑ کر رشتوں کو ملا کر رکھنے کے بجائے علیحدگی اور تنہائی کو پسند کررہی ہیں۔ حقوق اور فرائض کی جنگ میں لوگوں نے صرف حقوق کی حدیث رٹ لی ہے۔فرائض کا درس بھول گئے ہیں۔ ہر شخص کو دوسرے کے عیوب تو صاف نظر آجاتے ہیں پر اپنی ہی خبر نہیں۔ کہیں خواتین بے عملی اور بے دینی کا شکار ہو کر اپنی ہی بہنوں کی زندگی جہنم بنارہی ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ آئے دن شادیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ گھر کے جھگڑوں میں عدالتوں کے روازے کٹھکٹھائے جارہے ہیں۔ کم عُمر لڑکیاں جنھیں طلاق اور خلع کے نتائج سے واقفیت نہیں ماں باپ کی دہلیزپر بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوری ہیں اور اُن کے قوام اور ذمہّ دار اپنی انا کے بھینٹ معصوم زندگیوں کو چڑھارہے ہیں۔
معاملات کو سلیقہ سے سُلجھانے ، زندگیوں کو سنوارنے اور مصوم بچوں کو نفرت کے اس ماحول سے بچانے کے لیے خواتین کو مورچہ سنبھالنا ہوگا۔ ایک ماں ہی اپنے گھرکے مرد کو یہ سمجھا سکتی ہے کہ بیٹی کی شادی شدہ زندگی میں اُٹھنے والے طوفان کا علاج صبر اور برداشت ہے عدم بر داشت اور ٹکرائونہیں ۔ صاحب اولاد ہوجانے کے بعد خاص طور پر لڑکیوں اور لڑکوں کو اپنے خاندان کو مصلحت اور برباری سے چلاناہے بکھیرنا نہیں ہے۔
تشدد، ناگواری ، بے صبری کسی مسئلے کا حل نہیں ہم انسان ہیں دوسروں کو بھی انسان سمجھیں ۔ جہاں شادی شدہ جوڑے میں اختلاف پیدا ہونے لگے۔ دونوں خاندانوں کی خواتین کافرض ہے کہ وہ آگے آئیں اور گھرکے معاملے کو گھرہی میں سلجھا لیں، ان کی صحیح رہنمائی کئی خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچاسکتی ہے۔
ہمارے سماج میں پلنے والے کئی ناسور معاشی مسائل کی پید اور ہیں۔سرکاری ملازمتوں کا حصول ہر ایک کے لیے ممکن نہیں۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ ہر صورت میں حصول معاش کو اپنا ئیں۔ بیکار رہنے پر محنت کرنے کو ترجیح دیں ۔ تجارت کی طرف توجہ دیں۔ خواتین بھی گھر یلو مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختلف پیشے اپنا کر اپنے خاندان کی آمدنی میں اضافے کا سبب بنیں۔ محنت میں راحت ہے۔ کئی اخلاقی برائیاں جو معاشی مسائل کے سبب پیدا ہوتی ہیں اُن پر کسی حد تک قابوپایا جاسکتا ہے ۔ بشر طیکہ خاندان کا ہر فرد محنت کو تر صحیح دے۔ فراغت کو اپنا اصول نہ بنائے بے عملی کا شکار ہوکر نہ رہ جائے۔
سماج کے ایک طبقہ کایہ حال ہے کہ جہاں معاشی آسودگی ہے پیے کی ریل پیل ہے اور یہی نوجوان نسل کی بے راہ روی اور گمراہی میں معاون ومددگار ثابت ہورہی ہے ۔والدین صرف حصول معاش اور حصول دولت میں سرگرداں ہیں اور تربیت اولاد سے غفلت برت رہے ہیں ۔ وقت ہی نہیں ہے اُن کے پاس جو وہ اپنی اولاد کو دے سکیں۔ اس لیے خاندانوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین خصوصاً نوجوان لڑکے لڑکیوں کی Activities پر نظر رکھیں تا کہ بڑی تباہی سے پہلے اُن کو راہ راست پر لایا جاسکے۔
اکثر خاندانوں مین ساری محنت اور توجہ عصری تعلیم اور لڑکے لڑکیوں کوپروفیشنل بنانے پر دی جاری ہے ۔ ان جگہوں پر نوجوان نسل میں اخلاقی اقدار اور دینداری کا فقدان ہے۔ وہ اپنے ’’حدود‘‘ نہیں جانتے اور ’’حقوق‘‘ کا بیجا استعمال کرتے ہیں اور گمراہی کے راستے پر اس حدتک آگے نکل جاتے ہیں کہ واپسی ناممکن ہوجاتی ہے۔
آج کل نوجوان نسل شادی بیاہ کو بندھن اور آزادی کی راہ میں رُکاوٹ مان کر Live in Relationshipپر یقین رکھنے لگی ہے۔ مذہب کو صرف لیبل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے خود والدین یہ کہنے سے نہیں چوکتے کہ ہمارے بچے نماز روزں کے پابند ہیں۔ گویا اس کے بعد تمام اخلاقی برائیوں میں ملوث ہونے کی سندمل گئی ہو۔ یہ ایک ایسی خطر ناک صورتحال ہے جو سماج کو ایک خوفناک شکل دیتی ہے اور تیزی سے تباہی کی طرف لے جارہی ہے ۔ شادی بیاہ کے معاملے میں والدین اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ independent اولادوں کے آگے بے بس نظر آتے ہیں اور اپنے تمام اختیار ات مفلوج کربیٹھے ہیں۔ ایسے میں مائوں اور بہنوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی آزادی کو لگام لگائیں ۔ مفید اور مضرکے درمیان دین اور بے دینی کے درمیان حد مقرر کریں۔ دنیا بحر حال فنا ہونے والی ہے۔ یہ زندگی تو سب کچھ نہیں۔ کچھ آخرت کی فکر بھی نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈالی جائے ۔ جس کے لیے ابتداہی سے تربیت پر محنت کرنی ہوگی اور یہ عظیم ذمہّ داری مائیں جس احسن طریقے سے ادا کریں اُتنے ہی احسن نتائج جنم لیں گے۔
سماج کے تمام سلگتے مسائل کا حل اولاد کی بہترین تربیت نوجوان نسل کی صالحانہ رہنمائی میں پوشیدہ ہے اور اس کی ساری لگام خواتین کے ہاتھ ہے ۔ خواتین کے کاندھوں پر جو عظیم ذمہ داری ہے اُسے وقت رہتے سمجھ لیا جائے تو مضبوط خاندان اور مضبوط سماج کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے۔
آنکھیں ہوں تو ہر گام پہ مکتب ہے یہ دُنیا
سننے کا سلیقہ ہوتو پیغام بہت ہیں
(تسنیم ؔفاروقی)
اللہ تعالیٰ ہر ایک کو بصارت وبصیرت سے نوازے اور ہماری کاوشوں کو قبول فرمائے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا