جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے

0
0

تحریر ….مطیع الرحمن عزیز
حسد ورنجش ، بغض وعناد ، دشمنی اور فریب کاری بنی نوع انسانی کی تاریخ شروع ہونے کے ساتھ ہی دنیائے فانی میں وقوع پزیر ہوئی ہیں۔ اللہ کے نیک بندے اعلاءکلمة اللہ کے لئے ہمیشہ سرگرداں رہے ہیں۔ جب کہ غلط کار وبدکردار افراد اپنی حرام کاریوں اور دل کی سیاہ ونجس فطرت اور بد اعمالیوں کے سبب موحدین افراد سے اپنی دلی کدورت اور بغض وحسد کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جہاں اللہ کی توفیق سے نیک بندے حق کے راستے پر خود بھی گامزن رہتے ہیں اور عوام کی رہنمائی کیلئے کارہائے نمایاں بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ ان سب کو دیکھ کر ابلیس کی اولاد ملعونوں نے اپنے حواریوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے ہیں، کہ فلاں شخص کس طرح سے نیک نامی اور بھلائی کے کام میں آگے بڑھ کر شہرت وآفاق کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ لہذا تم اس کو کچل ڈالو تاکہ تمہارا نام لیا جائے اور اللہ کا نام لینے والے مغلوب ہو جائیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے برادران کے بغض وحسد کا قصہ سناتے ہوئے فرماتا ہے کہ ”ان سب نے حضرت یوسف علیہ السلام کو والد سے جدا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ ”یوسف علیہ السلام کو (یا تو جان سے) مار ڈالو یا اسے کسی ملک میں پھینک آﺅ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہو جاﺅ گے۔“ ان میں سے ایک نے کہا کہ ”یوسف علیہ السلام کو قتل تو نہ کرو، بلکہ کسی اندھے کنویں (کی تہہ) میں ڈال آﺅ تاکہ کوئی (آتا جاتا) قافلہ اسے نکال کر لے جائے، اگر تم کو کچھ کرنا ہی ہے، تو یوں کرو۔“ (سورہ ¿ یوسف9,10:)
بغض وعناد کے پجاریوں کو جب طرح طرح کی اذیت دینے کے بعد شیطانی وسوسوں نے سکون وقرار میسر نہ ہونے دیا تو یوسف علیہ السلام کو ناعاقبت اندیشوں نے ایک اور آزمائش میں ڈالنے کا کام کیا۔ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کو بیشتر وقت توحید پرستی سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔ دینی حمیت اور محبت سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔ کلمہ الی اللہ کی تبلیغ واشاعت اور عوام کی فلاح وبہبود کے کاموں سے روکنے کی ہر ممکن ترین کوشش عمل میں لایا گیا۔ اور جب عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے باطل سرکشوں کے رعب اور دبدبہ سے مرعوب ہونے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تم کو جو سمجھ میں آتا ہے کر ڈالو ،میرا اللہ کارساز اور مسبب الاسباب دیکھنے سننے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ”اب تو میرے لیے صبر ہی بہتر ہے۔ اور جو باتیں تم بنا رہے ہو، ان پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے“۔ لہذا خائن صفت متکبرین نے یہ نشانہ دیا کہ اگر تم ہماری باتیں تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہماری رہنمائی قبول نہیں کرتے تو تمہیں جیل میں ڈلوا کر سخت اذیتوں سے دور چار کیا جائے گا۔
مشیت ایزدی نے ہمیشہ ہر زمانے میں شر کے اندر خیر کا پہلو چھپا رکھا ہوتا ہے۔ جس طرح سے حضرت یوسف علیہ السلام کے جیل جانے کے بعد اللہ رب العالمین نے جیل میں بھری پڑی مظلومین اور اشرف المخلوقات کی داد رسی کے لئے انہیں نجات دہندہ بنایا اور حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل کے ساتھیوں اور قیدیوں کے درمیان تبلیغ وترویج اور اشاعت اسلام کا کام کیا اور کہا جیسا کہ قرآن مجید میں فرمان الہی ہے کہ یوسف علیہ السلام نے کہا ”اے میرے قید خانے کے ساتھیو ! کیا بہت سے متفرق رب بہتر ہیں ، یا وہ ایک اللہ جس کا اقتدار سب پر چھایا ہوا ہے؟اس کے سوا جس جس کی تم عبادت کرتے ہو، ان کی حقیقت چند ناموں سے زیادہ نہیں ہے جو تم نے اور تمہارے باپ داداﺅں نے رکھ لیے ہیں۔( سورة یوسف : 11-12 )
اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے ذریعہ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کو سنت یوسف علیہ السلام سے عملی طور پر روشناس کراتے ہوئے ان کو ایک ایسی دنیا کی بابت معلومات کرائی جس کی عام لوگوں کو خبر ہی کیا وہم وگمان تک نہیں ہے۔ جیل میں گزارے ہوئے ایام ڈاکٹر صاحبہ کے لئے ان کے محب انسانیت ہونے کے تئیں ہی تھا۔ ورنہ دیگر افراد جیل کی آہنی دیواروں سے ٹکرا کر اپنے اپنے عزائم وحوصلے کھو دیا کرتے ہیں۔ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کو اللہ رب العالمین نے نہ صرف جیل کے اسرار ورموز سے باور کرایا بلکہ اس موقع پر بھی کلمہ حق کی سربلندی کیلئے اور مفلوک الحال افراد کیلئے نجات دہندہ بنا کر بھیجا۔ جہاں سے انہوں نے 80 (اسی) سالہ خاتون کو بیٹی بن کر ایک سال سے نہ بدلے گئے بدبودار کپڑے تبدیل کرکے بالوں میں کنگھی کی بلکہ جب تک اس عمر رسیدہ ماں کا ساتھ رہا اقربا کی طرح اس کی پرواہ کرتی رہیں ۔ اس عمر رسیدہ خاتون کی نہ صرف کفالت کی بلکہ اس کی فائلیں طلب کرکے اس کو بازیاب کرانے کا پورا بندوبست کرکے اس کے گھر پہنچایا۔
جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے یہ خبر موصول ہوئی کہ عالمہ ڈاکٹر نوہیراشیخ کو بچوں کے جیل میں ڈلوا دیا گیا کیونکہ انہوں نے مفلس ونادار خواتین کے جیل اکاﺅنٹ میں تین تین ہزار روپئے ڈلوا کر ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی کوشش کی تھی۔ سرکش و بدمعاش جیل کی دیگر خواتین کو ڈاکٹر صاحبہ کی بیرک میں اذیت دینے اور بدکلامی کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔جو چند دنوں کے بعد سیدھی سادی اور احوال پرسی کی مالکہ بن کر سامنے آتی تھیں اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے کا جذبہ لے کر اپنی بیرکوں میں واپس جاتی تھیں۔ جیل کی ملازم خادماﺅں کو عالمہ ڈاکٹر نوہیرہ شیخ کے بازیاب ہونے کے وقت روتے اور سسکتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کے پیچھے راز دارانہ بات یہ تھی کہ دوران محبوسی ڈاکٹر صاحبہ کی نظر سے ایسا کوئی مخاصمہ اور معلاملہ نہیں گزرا جو قابل صلح اور امن وامان قائم کرنے والا نہ رہا ہو۔ کل ملا کر جیل کی دنیا سے متعارف ہونے کے اولین دنوں سے ہی عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ نے ان قیدیوں کو نکلنے میں پوری مدد فراہم کرائی جو خواتین نہ قانون داں کو جانتی تھیں اور نہ وکیلوں کی فیس ادا کرنے کی ان میں جرئت وہمت اور رقم میسر تھی۔
عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی رہائی کے دن تین ایسے افراد سے لوگوں کا سامنا ہوا جنہوں نے ان کے حوصلے اور جذبہ شاہین کے ثبوت کا برملہ اظہارہی نہیں کیابلکہ انہوں نے بتایا کہ قید میں محبوس زیر حراساں خواتین کوڈاکٹر صاحبہ نے پھر سے زندگی جینے کی ہمت دی ہے ۔اور فوت ہوچکے حوصلوں کو جگایا اور بتایا کہ دنیا ایک قید خانے کی طرح ہے جہاں ہم مسافر ہیں چند دن رکیں گے اور پھر اپنے حصے کی زندگی گزار کرکے آبدی زندگی کیلئے کوچ کر جائیں گے۔ اللہ جس حال میں رکھے اس کا شکریہ ادا کرو کیونکہ دنیا میں چلنے پھرنے والے کسی بھی جاندار کی حرکت مشیت الہی سے خالی نہیں ہے۔ ایک لمبی داستان ہے جو عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ پر گزری ہے۔ اور یہ طے ہے کہ اللہ رب العالمین کی مشیت میں رازداری سے کوئی عمل خالی نہیں ہوتا۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ ملک کے جن قید خانوں سے عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کا گزر ہوا وہاں انہوں نے نہ درس وتدریس قائم کی بلکہ کلمہ حق کی سربلندی کا کام کیا اور ہر ایک جیل میں دو دو تین تین اور چار چار وکلا صرف ان لوگوں کو بازیاب کرانے کے لئے منتخب کر دیا جو محض بے قصور ہیں یا اپنی سزا کاٹ چکے ہیں ۔لیکن ان کے پاس وکیلوں تک پہنچنے کا راستہ نہیں ہے اور وہ مجبور ہیں کہ ان اخراجات کو برداشت کیسے کئے جائیں گے۔ عالمہ ڈاکٹر نوہیر ا شیخ سزا کاٹ چکی یا مظلومین ومعصومین سیکڑوں خواتین کو اب تک بازیاب کرانے میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ فللہ اللہ الحمد ولشکر۔
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاںبندی

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا