سید فیض علی شاہ
نظیرؔ اکبرآبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ اکبرآباد کے ایک شریف گھرانے میں نظیر اکبرآبادی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد سیّد محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے مصاحبین میں شمار کئے جاتے تھے۔ باضابطہ کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، کوئی ملازمت نہیں کی۔ باپ دادا کی دولت موجود تھی۔ البتہ محلہ کے بچوں کو پڑھا کر زندگی گذارتے تھے۔ کچھ روز کے لئے متھرا گئے تو وہاں کے مرہٹہ قلعہ دار نے انھیں اپنا استاد مقرر کیا۔ دوبارہ آگرہ آئے تو محمد علی خاں کے لڑکوں کو درس دینے لگے۔ اسی دوران کھتری سے ملاقات ہوئی۔ رائے کھتری سے ملاقات ہوئی۔ رائے کھتری نے اپنے بچوں کی تربیت میاں نظیر کے سپرد کر دی۔ آخری عمر میں نظیرؔ کا تعلق کاشی کے سربراہ راجہ بلوان سنگھ کی سرکار سے ہوگیا تھا۔ اپنے خاندان اور ماحول کی وجہ سے نظیر نے سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا تھا۔ فارسی اور عربی جانتے تھے۔ ہندی، پنجابی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ عوام میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ زبان کے عوامی لہجے سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ ایک قلندر مزاج آزاد منش انسان تھے۔ اس کا اندازہ ان کی شاعری سے بھی ہوتا ہے۔ نظیر کے والد سنی تھے لیکن وہ امامیہ مذہب کے قائل تھے۔ عبادتوں کی ادائیگی معمولی طور پر کرتے تھے۔ البتہ تعزیہ داری کے اہتمام پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ ادھیڑ عمر میں ظہورالنساء بیگم بنت عبدالرحمٰن چغتائی سے شادی کی۔ آخری عمر میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ نظیر کو اولادیں بھی ہوئیں۔ ۱۸۲۷ء میں فالج کے مرض میں مبتلا ہوئے ۹۸ سال کی عمر میں ۲۵؍ صفر ۱۲۴۶ھ بمطابق ۱۶؍ اگست ۱۸۳۰ء کو انتقال کیا۔ نماز جنازہ دو مرتبہ سنی اور امامیہ طریقے سے پڑھائی گئی۔ البتہ تجہیز و تکفین امامیہ طریقہ پر ہوئی۔ ان ہی کے مکان میں موجود نیم کے درخت کے نیچے دفن کئے گئے۔ نظیرؔ کے مزاج کی شوخی، بانکپن، کھیل کود اور میلے ٹھیلوں کے شوق اور تجربے کے اظہار کے لئے نظم ہی ان کو راس آئی۔ ان کا مشاہدہ دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے پیچ و خم کے متعلق بھی بہت گہرا تھا۔ نظم کی آزادی ان کی آزاد روش سے بڑی مطابقت رکھتی تھی۔ اس لئے وہ نظم نگاری کی طرف مائل ہوئے اور ہر چھوٹے بڑے موضوع پر نظمیں لکھیں۔
نظیر اکبرآبادی :عوامی مقبولیت کے پسندیدہ شاعر
اردو کے قدیم شاعروں میں نظیرؔ اکبرآبادی کو جو انفرادی مقام حاصل ہے وہ شاید ہی ان کے دور کے کسی دوسرے شاعر کو ملا ہو ۔ نظیرؔ اردو کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے عہد کی عام شاعرانہ روش سے ہٹ کر اپنا جداگانہ راستہ منتخب کیا اور اس میں بے طرح کام یاب و کامران بھی رہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں عوامی رنگ اور سماج کے دبے کچلے اور نچلے طبقہ کے لوگوں کی زندگی کے مسائل کو تلاش کرکے پیش کیا ۔ انھوں نے اپنے کلام میں سماجی ، اخلاقی، اصلاحی اور تہذیبی مضامین و موضوعات کا احاطہ کیا ۔ انھوں نے اپنی شاعری کا خاص موضوع عوا م اور عوامی زندگی کو بنایا ۔ ان کی شاعری میں ہندی و ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں حددرجہ نمایاں ہیں ۔ نظیرؔ کی شاعری میں ہندوستانیت کے اسی گہرے رچاو نے انھیں عوامی مقبولیت کا تاج پہنایا۔
بعض ناقدین کا خیا ل ہے کہ نظیرؔ جدید نظم کے بنیاد گزار ہیں۔ نظم نگاری میں نظیرؔ نے ممتاز مقام حاصل کیا ۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے یہاں غزلیں بھی موجود ہیں لیکن یہ غزلیں بھی موضوعاتی ہیں۔ غزل کے تمام اشعار میں نظیرؔ نے ایک ہی مضمون کو بیان کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں بھی نظم کا مزہ ملتا ہے۔ حالیؔ اور آزادؔ نے جس جدید نظم کی تحریک چلائی اس کی بنیادنظیرؔ نے بہت پہلے ہی رکھ دی تھی۔ اردو ادب کے اولین نقادوں نے نظیرؔ کی شاعری کو اہمیت نہیں دی۔ حتیٰ کہ شیفتہؔ جیسے صاحبِ نظر ادیب و شاعر نے نظیرؔ کی عوامی زبان اورلب و لہجے پر سوقیانہ پن کاا لزام لگاکر انھیں دنیاے شاعری سے شہر بدر کردیااور محمد حسین آزادؔ نے ان کا ذکر بھی نہیں کیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے ناقدین انھیں نظم نگاری کا امام تصور کرتے ہیں۔
نظیرؔ فطری شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعر ی میں فطری عناصر کی جلوہ ریزیاں ہیں ۔ روز مرہ مناظر قدرت ، عوامی زندگی ، سماج کے دبے کچلے لوگوں کے مسائل اور ان کا حل ، ہندوستانی موسم اور تہوار اور ہندوستانی معاشرے کے رسم و رواج کی گہری چھاپ ان کی شاعری میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہاں کے میلوں ، ٹھیلوں اور تہواروں کو اپنے مخصوص لب و لہجے اور طرزِ نگارش میں نظیرؔ نے جس خوش اسلوبی اور رنگارنگی سے پیش کیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔
دیوالی، ہولی، عید ، شبِ برات، بسنت ، راکھی، تیراکی، سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا عرس، وغیرہ تقریبات کا بیان بڑے پُرلطف اور دل چسپ انداز میں کیا ہے۔ برسات کا تذکرہ ، جاڑے کی بہاریں اور دوسرے موسموں کا ذکر بھی نظیرؔ نے دل کو موہ لینے والے پیرایے میں کیا ہے۔ ان کے یہاں تصویریت کے حُسن اور منظر کشی کے جمال کا رچاو بڑی گہرائی سے ملتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں مناظر قدرت کی جو امیجری ابھاری ہے اور پیکریت کا جو انداز اپنایا ہے وہ قابل دید ہے۔ شاعری سے انھوں نے مصوری کا جو کام لیا ہے عہد جدید کے شعرا اس کے پاسنگ برابر بھی نہیں ہوسکتے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری جدید شاعری کی خوبیوں سے ہم رشتہ ہوگئی ہے۔ نظیرؔ کی شاعری کا محور زندگی اور زندگی کے حادثات و واقعات ہیں۔ برسات کی بہاریں نظم میں انھوں نے اپنی قوتِ متخیلہ کو بروے کار لاتے ہوئے برسات میں ہونے والے ہر عمل اور منظر کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ گویا انھوں نے لفظوں سے برسات کے موسم کی ایک دل کش اور خوش نما تصویر اتاردی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے کھیتوں میں سبزہ اور ہریالی، پھول پتے، کانٹے ، بدلیاں ، پھوار ، تیتر ، بٹیر ، فاختہ ، قمریاں ، پپیہے ، بگلے وغیرہ کا ذکر شاعرانہ فن کاری سے کیا ہے۔ اس نظم کو فن کے لحاظ سے ایک شاہ کار نظم کا درجہ دیا گیا ہے۔ آپ آگرہ کا فخر اور غریب کی زبان ہیں
جناب ولی محمد نظیر اکبرآبادی صاحب کا خاندان حضرت میکش رحمۃ اللہ علیہ سے بھی تعلق رہا حضرت سید محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی صاحب کے جد امجد حضرت سید امجد علی شاہ اصغر اکبرآبادی رحمۃ اللہ علیہ ان کے ہم اثر تھے نشت و محافل میں شکرت بھی رہا کرتی تھی سید محمد محمود رضوی مخمور اکبرآبادی
نے اپنی کتاب نظیر نامہ میں لکھا ہے
‘ جناب محمد علی شاہ میکش اکبرآبادی ،غزل کہنے والوں میں ،آج سر آمدِ شعرائے روزگار ہیں وحدت الوجود ‘ کا مسلک ان کا خاص موضوع ہے ،جناب سید امجد علی شاہ اصغر رح تین در میانی روابط کے ساتھ جناب میکش کے جد اعلٰی ہیں اصغر :
جب حسنِ ازل پردہ امکان میں آیا
بے رنگ بہ ہر رنگ ہر ایک شان میں آیا
تضمین نظیر اکبرآبادی :
وہ رنگ کہیں لعل بد خشان میں
نیلم میں کہیں گوہر غلطان میں آیا
یاقوت میں الماس میں مرجان میں آیا
جب حسن ازل پردہ امکان میں آیا
بے رنگ بہر رنگ ہر ایک شان میں آیا
امکان ایک الٰہیاتی لفظ ہے اور یہاں اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے لغوی میں نہیں امکان بالکسر افعال کے وزن پر مصدر ہے اور اہلِ حکمت کی اصطلاح میں معینہ معنی ہی رکھتا ہے ،اس جہت سے اس کو اسم معرفہ یا علم کا درجہ حاصل ہے امتناع کے تصور میں عدم لازمی ہے مگر امکان میں عدم اور وجود دونوں ضروری نہیں ، بہر حال امکان علمی اصطلاح ہے اور اصطلاح کے کسی حرف میں تغیر لانا گویا اصطلاح شکنی ہے اور ارباب علم کے نزدیک معیوب۔ جناب اصغر صوفئی با صفا اور عالمِ اجل تھے ،یہ پہلو ان کے ذہن میں موجود تھا ، میاں نظیر نے بھی جو خود اس پہلو سے آگاہ تھے حضرت اصغر کے اسوہ حسنہ کا اتباع کیا ہے
(نظیر نامہ: صفحہ 477،478 )