عذاب

0
0

 

مصداق اعظمی

اس ریا کار کی انکھوں سے نہ دیکھو دنیا
اپنے ہر جھوٹ کی تاثیر کو ہر لمحہ جو
زہرِ سقراط کی توقیر میں گم کرتا ہے
اپنے چھلکائے ہوئے جام کی مے کو ہردم
جل وہ گنگا کا بتانے کا جتن کرتا ہے
اپنے ترشول پہ آویزاں سروں کو دیکھو
مسکراتے ہو? پھولوں کا نشاں کہتا ہے
جلتے بجھتے ہو? گلشن کے ہر اک منظر کو
فصلِ گل فصلِ بہاراں کا سماں کہتا ہے
دشت در دشت جنوں خیز مسافت کا چلن
اہلِ دل نے جو کیا عام جنوں والوں میں
چاہنے والوں کی راہوں میں بچھائے گئے پھول
روحِ پژمردہ پہ اک بارِ گراں ہے اسکی
گود میں بیٹھے ہوئے چند نجس لوگوں کے
وہ فقیروں کو بھی ناپاک سمجھ لیتا ہے
بھوک اور پیاس کے ماروں کی دہائی توبہ
اسکے نذدیک لطیفے کے سوا کچھ بھی نہیں
قتل وغارت کی کتھاؤں کے رچیتا سارے
اسکے کاغذ میں جلیں حرف سے لکھے ہوئے ہیں
تربیت یافتہ کمزور سپاہی اسکے
توپ سے ٹینک سے
بندوق سے تلواروں سے
مارنے روز نکل اتے ہیں مجبوروں کو
روپ راون کی طرح اسنے نہیں بدلا ہے
پھر بھی سیتا کا ہرن
کرتا ہے ہر روز یہاں
اب تو ویرانی کا وہ رقص ہے اسکے ہوتے
گھر کے اندر ہی چھپی ہیں ک? جنگل کی جڑیں
خوف و دہشت ہے
اجالوں میں اندھیروں والی
اسکے معصوم
اشاروں میں چھپے خنجر سے
امن کے دل میں
بچا قطرہ ٔ خوں بہتا ہے

********©*******

 

موضع جوماں
پوسٹ مجواں۔پھولپور
ضلع۔اعظمگڈھ یو پی

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا