۔فیض احمد فیضؔ
فون نمبر :7006314406
عصمت چغتائی کی ادبی زندگی کاآغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں ہوا ۔اس دور میں اردو ادب کی دنیا میں اہم اور نتیجہ خیز تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں ۔رومانیت کا دور رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا تھا اور معاشرے کا رحجان حقیقت نگاری کی جانب بڑھ رہا تھا ۔حقیقت نگاری جو ہمارے سماج کی عکاسی کرتا ہے ۔اسی دور میں ایک لازوال شخصیت کا دور شروع ہوا اور وہ تھی عصمت چغتائی۔اگر معاشرے کی بات کی جائے جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس معاشرے میںلڑکیوں کو الگ الگ نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔اسے پڑھنے کی پابندی اور معاشر ے میں گھلنے ملنے کی پابندی ہے۔وہ سماج میں سماجی زنجیروں سے بندھی ہوئی ہے ۔اس معاشرے میں لڑکیوں کو پڑھنا لکھنا منع تھااور اسی معاشرے کو اس کی حقیقت کو روبرو کروانے والی شخصیت کوئی اور نہیں بالکہ عصمت چغتائی تھی۔ اس معاشرے میں لڑکیوں کو چہار دیواری کے اندر رکھا جاتا تھا ۔ان دیواروں کو توڑنے والی شخصیت عصمت تھی اور انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ سماج کو اس حقیقت سے روبرو کروایا ۔جدید تعلیم اور مغرب کے اثر سے کچھ لوگوں میں زندگی سے نظر ملانے کی جرات پیدہ ہوئی ۔اس جرائت کا پہلا نمونہ عصمت چغتائی نے پیش کیا ۔پہلا اظہار انگارتے 1932کی شکل میں سامنے آیا اور یہ دس کہانیوں کا مجموعہ تھا جس میں ہندوستانی سماج کے کئی کرتیہ پہلوں کی حقیقی تصویر تھی ۔اس میں کچھ ایسے موضوعات بھی تھے جس پر قلم اٹھانا بھی غیر اخلاقی اور غیر ادبی تصور کیا جاتا تھا ۔ان میں موضوعات شامل تھے ۔ وہ دولت کی تقسیم ،غلط طریقہ سے جھوٹی مذہبی رواج،جنسی الجھنیں ان کہانیوں کے اہم موضوعات تھے۔خلیل الرحمن اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ جھوٹہ مذہبیت ریاسکاری ،تہذیب و شاستگی کا سوانگ ،وطن پرتی اور قوم پرستی کے ڈھونگ ان سب پر انگارتے کے مصنفین نے اپنے طنز کے تیر برسائے۔عصمت چغتائی کیلئے بس یہ ایک شروعات تھی۔یہ افسانے خام تھے لیکن ایک راہ ہموار کر گئے اور ان کی اس کوشش سے سماجی بند کا توڑا ۔ترقی پسند تحریک کے دور عروج میں حقیقت نگاری کو فروغ حاصل ہوا ۔اس سے پہلے بھی یہ ادب کا حصہ رہی ہے ۔نذیر احمد ،علاما راشد الخری ،پریم چند اور اولین خواتین ناول نگاروں کے یہاں حقیقت نگاری ملتی ہے۔عصمت کے ناولوں میں ضدی ،ٹیڑھے لکیر،معصومہ،سودالی، دل کی دنیا،عجیب آدمی، جنگلی کبوتر،باندھی۔تیہن اناڑی،ایک قطرہ خون جیسے ناولوں میں حقیقت نگاری کی مثال پیش کی۔عصمت کے افسانوں کا موضوع عام طور سے متواسط مسلم گھرانوں کی لڑکیوں کی جنسی زندگی ہے۔اس جنسی زندگی کی پیش کش میں عصمت نے اگر ایک طرف علم نفسیات سے فائدہ اٹھایا ہے تو دوسری طرف اس طبقے کی جنسی زندگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے۔عصمیت پر بار بار فہاشی اور عریانی کے الزامات بھی لگائے لیکن وہ اپنے افسانے کو فوٹو گرافی سے تعبیر کرتی ہیں۔ان کے افسانوںمیںمحنت کشوں کی حمائت نمایاں ہیں اور اس سلسلے میں ان کا افسانہ ’دو ہاتھ‘ اہمیت رکھتا ہے۔ادب کے ذریعے وہ زندگی کو سنوارنا چاہتی ہیں ۔عصمت کا اصل کارنامہ ’چوتھی کا جوڑا،بے کار اور دو ہاتھ جیسے افسانے ہیں جن میں انسانی رشتوں کے بیچ ممکنات اور نا ممکنات کی کش مکش سے پیدہ ہونے والے علمئے کو پیش کیا گیا ہے ۔عصمت کے اردو میں سات افسانوی مجموعوں ’کالیاں، چوٹیں]دو ہاتھ،دوزخ،شیطان،چھولی مولی، ایک بات ہیں اور ہندی میں ایک مجموعہ کنواری منظر عام پر آچکا ہے ۔عصمت نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کی اور سماج کو اس کی حقیقت سے روبرو کروایا اور انہوںنے ظاہری حقیقت کے نقاب کو نوچ کر اس کے اصل چہرے کو دیکھا ۔اس طڑھ ان کا رشتی حقیقت سے زیادہ فطرت سے استوار ہوا