پی۔ جی کالج راجوری میں عنبر چرخہ پرسْوت کاتنے کے سلسلے میں ورکشاپ کا انعقاد

0
0

کالج کے مہارت کورس کے طلبہ و طالبات نے تربیتی ورکشاپ میںلیا حصہ
لازوال ڈیسک

راجوری؍؍گورنمنٹ پی جی کالج راجوری نے محکمہ سائنس اور ٹکنالوجی حکومتِ ہندکے اشتراک سے عنبر چرخہ پر کتائی کے مظاہرہ کی نمائش کے ساتھ مہارتِ ترقی کی تربیت ورکشاپ کا انعقاد کیا، وہیںبھیڑ اور بکریاں پالنے والے افراد نے اس ٹریننگ میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔کالج کے مہارت کورس کے طلبہ و طالبات نے بھی اس ٹریننگ میں حصہ لیا اور آٹھ عنبر چرخہ پر بھیڑ کے اون سے سوت کاتنے کا ہنر سیکھا۔طلبا اور کسانوں کے علاوہ کالج کے اسٹاف بشمول ڈاکٹر انور شاہ، پروفیسر اسدللہ خان، ڈاکٹر بشیر احمد، پروفیسر عبدالکریم، ڈاکٹر تسیم احمد، پروفیسر اقبال رینا، پروفیسر آصف لون، ڈاکٹر سلیم وانی، ڈاکٹر نواز احمد اور ڈاکٹر گلشن رشید نے بھی شرکت کی۔واضح رہے عنبر چرخہ جموں وکشمیر میں اپنی نوعیت کا منفرد اور پہلا چرخہ ہے جو سوت کاتنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، پروجیکٹ تفتیش کار ڈاکٹر محمد طفیل نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عنبر چرخہ بھیڑ کی اون سے سوت کاتنے کاایک مفید آلہ ہے اور اس کا دھاگہ ہر قسم کے کپڑے تیار کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، موسمِ سرما میں سخت ٹھنڈ کی وجہ سے جموں و کشمیر کے علاقائی لوگوں اور سیکورٹی فورسز کی طرف سے گرم کپڑوں کا بہت زیادہ ڈیمانڈ رہتا ہے۔وہیں جموں و کشمیر اور دوسری جگہوں میں بھیڑ اور بکریاں پالنے والوں کی ایک بڑی تعداد پہلے سے ہی پرانے لکڑی والے چرخے کی مدد سے سوت کاتنے کے کاموں سے جڑی ہوئی ہے جو در حقیقت عنبر چرخہ کے مقابلے اچھی کوالٹی فراہم کرنے میں ناکام، کم مفید اور وقت طلب ہے جبکہ عنبر چرخہ سے کاتے گئے سوت کی شال خواہ وہ مرد حضرات کے لئے ہو یا پھر خواتین کے لئے، کمبل، مفلر اور دوسرے اونی کپڑے عمدہ اور مفید ہوتے ہیں۔ اس موقع پرکالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد رینا نے اس تفتیشی کام کو سراہا اور وضاحت کی کہ عنبر چرخہ پر سوت کاتنے کا یہ مہارت بھرا کام کیسے اس پیشے سے وابستہ علاقائی لوگوں کی زندگی بدلے گا اور اکیسویں صدی کے تعلیمی نظام میں معاون و مددگار ثابت ہوگا ۔انہوں نے اس مہارت کی تربیت کے پروگرام کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اخیر میں اس خوش آئند پہل کے لئے شعبہ جغرافیہ کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کیا۔واضح رہے کہ ڈاکٹر محمدطفیل قبل ازیں ریسرچ کے حوالے سے کئی ممالک کادورہ کرچکے ہیں اورموصوف کے کئی تحقیقی مقالے بین الاقوامی شہرت یافتہ رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا