رعنا ایوب (گلوبل رائٹر: واشنگٹن پوسٹ)
ترجمہ : ذیشان مصطفیٰ (جے این یو)
بدھ کے روز، پروپیگنڈا،سازشی نظریات، زیر تربیت پر تشدد ہجوم اورجعلی خبروں نے ایک بار پھر سیاسی تشدد کی آگ بھڑکا دی ہے۔ لیکن اس مرتبہ،میں ہندوستان کی سرزمین پر کوئی بنیادی ذرائع سے رپوٹنگ نہیں کر رہی تھی، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے برسوں سے پرتشدد ہجوم کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔بلکہ یہ ہجوم واشنگٹن کے ‘کیپیٹل’ میں طوفان برپا کر رہا تھا۔
جب میں نے ٹرمپ کے جھنڈا بردار اور’ سفیدمراعات یافتہ ‘ لوگوں کی عمارت میں فساد برپا کرنے والی تصاویردیکھی، تو میں اس حادثے کو ان مناظر سے الگ نہ کر سکی جو حالیہ برسوں میں، ہندوستان میں ہم نے بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ در اصل یہ اسی فرقہ وارانہ تشدد کی خطرناک قسطوں میں سے ایک قسط ہے۔ میرے دوست اکثر میرے بارے میں اس امر پر ناراضگی ظاہر کرتے ہیں کہ مجھے ان واقعات کو الگ تھلگ کرکے دیکھنے کے بجائے ملک کی تعزیری کاروائی کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ جب میں اقلیتوں پر ہونے والے حملوں اور ان کی تذلیل کے بارے میں بات کرتی ہوں تو لوگ مستقل میری صحافتی اسناد پرسوال اٹھاتے ہیں۔ مجھے کہانی سے خودکوالگ کرنے، اپنے آراء اور خیالات کا اظہارنہ کرنے اورہندوستان میں فاشزم اور اکثریت پسندی کے عروج کے بارے میں باتیں نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، کہ اس سے ملک کے عالمی موقف کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
نفرت انگیز جرائم،امتیازی سلوک،سنسرشپ اور سیاسی ظلم و تشدد کی دستاویز تیار کرنا دل و دماغ کو مؤثر اور ایک قسم کا دباؤ پیدا کرتاہے۔ لیکن واشنگٹن میں جو کچھ ہوا، اس کے مشاہدے کے بعد، ہم کیسے اس پر خاموش رہ سکتے ہیں؟
‘مابعد صداقت ‘ دنیا، پولرائزیشن میں اضافہ اورمشترکہ اصولوں کوختم کررہی ہے۔ وبائی امراض کے آغاز میں میرا خیال تھا کہ ہندوستانی باشندے، شاید اِس بار مذہبی اور سیاسی تقسیم کو ایک طرف رکھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جنھوں نے ہمارے ملک کوطویل عرصے سے تباہ کر رکھا ہے ا ور ایک مشترکہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوجائیں گے۔ لیکن حکومت، کووڈ 19پر قابو پانے کی ناکام عملی کاروائی کے دوران، ہماری شہری آزادیوں پر حملہ کرتی رہی ہے۔ ہندوستان کے بہترین کارکنوں اور طلبا رہنماؤں کو جیل بھیج دیا گیا، ہماری مشہور سیکولرازم کی بنیادی باتیں ایسی پالیسیوں کے ذریعہ مسمارکردی گئیں جن سے ہندوستانی مسلمانوں کو ذلیل اور رسوا کیا جارہا ہے۔ اور کسانوں کو اپنے وقار اور معاش کا تحفظ کرنے کے لیے سخت ترین سردیوں کے موسم میں بھی سڑکوں پر نکلنے پرمجبورکردیا گیا ہے۔
ہندو قوم پرست طاقتوں نے ایک ایسے وقت میں شہریوں کو تقسیم کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا ہے جب ہمیں سب سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ صحت مند رابطے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے دفاع میں امریکی صحافیوں، سیاست دانوں اور شہریوں کی چیخیں اتنی شدت سے گونج اٹھیں کہ پوری دنیا نیانھیں سنا۔
سال 2020 کے آخری ہفتہ میں، دائیں بازو کی ایک متشدد ہندوتنظیم ‘وشو ہندو پریشد’ سے وابستہ ہزاروں افراد کے ہجوم نے مدھیہ پردیش کے ‘دورانا’ گاؤں سے گزرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ اور پولیس افسران خاموش تماشائی بن کر کھڑے دیکھتے رہے۔ جب اس علاقے کے مسلمانوں نے آواز اٹھائی، تو واٹس ایپ پر پیغامات گردش کرنے لگے،جس میں ہندوؤں کو متحد ہوکر انتقامی کارروائی کرنے کو کہا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک پیغام میں ”اورنگ زیب کی اولادوں” سے مخاطب کرکے کہا گیا کہ وہ ہندو ریلی کو روکنے کے لیے انھیں سبق سکھائیں۔
ایک دن بعدہی، بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست مدھیہ پردیش میں تشدد پھیل گیا۔ ہندوؤں کا ایک ہجوم ایک مسجد کی چوٹی پر چڑھ گیا اور اس کے اوپر، اپنی برتری اور فتح و کامیابی کے نعرے لگاتے ہوئے بھگوا جھنڈا گاڑ دیا۔ اسی دن، دو دیگر مساجد پر بھی حملہ کیا گیا، اور مسلمانوں کے درجنوں رہائشی مکانات کو نذر آتش کردیا گیا،جس سے سینکڑوں مسلمان نقل مکانی پرمجبور ہوگئے، اور جن کے مکانات نذر آتش ہونے سے بچ گئے وہ خوف و دہشت کے سبب گھر چھوڑ کر جانے لگے۔
مسلمان شہریوں کی حفاظت کے بجائے پولیس اہل کاروں نے وہاں کے مسلم گھروں میں مارچ کیا اورسخت گیر ‘قومی سلامتی قانون’ کی پاسداری کے نام پر، اپنے دفاع میں ہندووں کے ہجوم پر پتھراؤ کرنے کے لیے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ مسلم نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے سوالوں پر میڈیا کو جواب دیتے ہوئے اُس ریاست کے وزیر داخلہ نے ہندوفسادیوں کوبے گناہ قرار دیا، اور اُلٹا مسلمانوں پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ خود ہی تباہی لاتے ہیں۔ وزیر، ناروتم مشرا نے سیدھے الفاظ میں کہا کہ ”جہاں سے پتھر آئے ہیں، وہاں سے انھیں ہٹانا پڑے گا۔”
31 دسمبر کو نئی دہلی میں، جب مودی کی پارٹی بی جے پی نے ایک متشدد قوم پرست، کپل گُجر کو پارٹی کی صفوں میں شامل کرنے کے لیے باضابطہ اس کا استقبال کیا، تو اس پیغام سے مسلمان دوبارہ اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ قرار دیے گئے۔ در اصل گُجر نے ہندوستان میں ‘امتیازی سلوک کے قانون’ کے خلاف، شاہین باغ احتجاج کے دوران مسلمانوں کے اجتماع میں گولیاں چلائی تھیں۔گُجر کی پارٹی میں شمولیت پر فوراً ردعمل ہوا اور بی جے پی نے اسے بعد میں پارٹی سے نکال دیا۔ یہاں تک کہ بی جے پی کو بھی یہ احساس ہوا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت میں بہت آگے جاچکی ہے۔لیکن گُجر کے اخراج سے پہلے ہی پارٹی کے رہنماؤں کے ذریعہ گُجر کے خیرمقدم اور اسے پھولوں کا مالا پہنانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔
جی،او،پی کی طرح، بی جے پی نے بھی سیاسی تحفظ کی خاطر بس ایک قدم پیچھے کرلیا۔ اور ٹرمپ کی طرح، مودی بھی ایک ایسے لیڈر ہیں جونفرت کی سیاست سے متعلق ناقابل فراموش ہیں، جس کی ابتدا انھوں نے پچھلی دو دہائیوں سے ہی کررکھی ہے اورہمیشہ تحفظ کے نام پراکثریت کو پسند کیا ہے۔جس سے اس گروپ کی بالادستی کے لیے، ملک کی سیکولرروایت کو بڑا خطرہ ہے۔
یکم جنوری کو، ایک مسلم نوجوان، اسٹینڈ اپ مزاح نگار، منور فاروقی کو، اندور شہر میں درمیان شو سے ہی گرفتار کرلیا گیا، جب ایک ہندو ہجوم نے اس پر ہندو دیویوں اور دیوتاؤں کا مذاق اڑانے کا الزام عائد کیاتھا۔ وہ حراست میں ہے، لیکن اس کے خلاف ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس نے کوئی جارحانہ مذاق اڑایا ہے۔ فاروقی کا ایک دوست جو اس شو میں شریک تھا اسے بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جب اسے پولیس لے جا رہی تھی اسی وقت ایک شخص نے اس پرپولیس کی موجودگی میں حملہ کر دیا۔ یہ تو چند مثالیں ہیں،لیکن مسلمانوں کو ہرروز بے ہودہ تشدد اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ تاہے۔ حکومتی وفادار، سرِراہ یا ملکی اداروں میں لوگوں کا استحصال کرتے اور ان کے حقوق پامال کرنے کی جرات کرتے ہیں۔
لیکن بہت سارے ہندوستانی، بشمول ملک کا اشرافیہ طبقہ، امریکیوں کا مذاق اڑائیں گے جنھوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا مگر وہ اپنے ہی ملک میں ایسی ہی فاشسٹ قوتوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس میں مداخلت کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ یعنی ان کی منافقت بھی خوب عروج پہ ہے۔
اسی لیے ہمیں ‘کیپیٹل ہیل’ کے محاصرے کو ہندوستان کے لیے ایک احتیاطی واقعے کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ کم از کم ٹرمپ تو 20 جنوری کو وائٹ ہاؤس سے باہر ہوجائیں گے، جب کہ ہمارا ملک ابھی بھی ایک سیاست باز کے سامنے اپنا مارچ جاری رکھے گا جو ہجوم کی طاقت کے ذریعہ تسلط قائم کرنے سے نہیں ڈرتا ہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
razazeeshan777@gmail.com
7309532957