بشیر اطہر
انسان غلطیوں کا پُتلا ہے اور اس کو جانے انجانے میں بار بار بہت ساری غلطیاں اور گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ انسان غلطیوں کی وجہ سے ہی سیکھتا ہے اور جن سے غلطیاں سرزد نہیں ہوتی ہیں وہ یا تو ملائکہ المقربین ہیں یا معصوم، کیونکہ معصوم سے غلطیاں سرزد نہیں ہوتی ہیں کبھی کبھار انسان اپنے آپ سے مست راہ چلتا ہے یا زیادہ اوپر دیکھتا ہوا راستے سے گزرتا ہے مگر اس کو اوپر دیکھنے یا مستی کے بارے میں اُس وقت پتہ چلتا ہے جب اس کو ایک چھوٹے سے پتھر سے ٹھوکر کھانی پڑتی ہے یا سڑک پر پھیلے معمولی کیچڑ سے پھسل جاتا ہے اور نیچے گر جاتا ہے تو اُس وقت اس کو احساس ہوتا ہے کہ میں نے غلطی کرکے سر اوپر رکھ کر چلنے کی کوشش کی یا مستی میں ایسا ہو اور بعد میں وہ کوشش کرتا ہے کہ کہیں اس کو دوبارہ ایسا ٹھوکر نہ کھانا پڑے جس سے وہ گرے۔یعنی وہ اعتراف کرتا ہے کہ مجھ سے یہ غلطی سرزد ہوئی اور آئندہ سے ایسی غلطی کرنے سے وہ حتی الامکان کوشش تو کرتا ہے مگر بھول اور دماغی مشغولیت کی وجہ سے اُس کو کبھی ایسی غلطیوں کی طرف دھیان نہیں جاتا ہے یا اس کو وہ غلطیاں خود میں نظر نہیں آتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا کوئی اچھا اور خاص بندہ اس کو بار بار تزکرہ دیتا رہتا ہے کہ آپ میں یہ خامیاں ہیں یا آپ سے یہ غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور وہ اس کو ان غلطیوں سےباز رکھنے کی کوشش کرتا ہے یہی بندہ واقعا بندہ مومن اور سچا مسلمان ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پیار کرتا ہے۔انسان کو سمجھانے میں ایک لمبی سی عمر درکار ہوتی ہے جس طرح سے اساتذہ مدرسے میں اپنے طالب علموں سے ہوئی غلطیوں سے واقف ہوکر بھی ان غلطیوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور بار بار سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ایسی غلطیاں دوبارہ نہ کرے مگر طالب علم اپنی نااہلی، ناسمجھی یا غلط فہمی کی وجہ سے ایسی غلطیاں بار بار دہراتے ہیں اور جب ان کی عقل بالغ ہوجاتی ہے اور ان میں شعور پیدا ہوتا ہے تو وہ خود بخود سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کا استاد اپنے لئے نہیں بلکہ انہی طالب علموں کی فلاح و بہبودی اور بھلائی کےلیے ایسا کرتا تھا اور اس کو اس سب میں کوئی خود غرضی یا کوئی مفاد نہیں تھا تو وہ بعد میں اپنے استاد کے پاس جاکر معافی مانگتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ ہم غفلت میں تھے اوراسی غفلت کی وجہ سے برے کاموں کی طرف جاتے تھے تو اس پر وہ استاد خوش ہوتا ہے اور ان طالب علموں کو معاف بھی کرتا ہے اور دعائیں بھی دیتا ہے یعنی غلطیوں کا ماننا ہی اعتراف گناہ ہےاور استاد کے خوش ہونے اور معاف کرنے کو توبہ قبول ہونا تصور کیا جاتا ہے۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہے کہ جب بندہ اپنی عصیانی صورت لیکر خدا کے پاس عجزوانکساری کے ساتھ جاتا ہے اور گناہوں کا اعتراف کرتا ہے کہ اے اللہ مجھ سے یہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں پا یہ گناہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو یہ عزو انکساری بہت پسند آتی ہے اور آپ کی رحمت برجستہ ہوتی ہے اور اپنے بندے کو مسرت سے کہتا ہے کہ اے پیارے بندے جا آج میں نے تمہارے گناہوں کو معاف کیا اور تیری توبہ قبول کی۔یعنی اپنے گناہوں پر پچھتانا اور نادم ہونا ہی توبہ کہلاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین عمل ہے اسی لئے اپنے بندوں کے خطاؤں کو معاف کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے نماز میں بھی سجدہ سہو رکھا ہے مگر لوگ ہیں کہ ایک غلطی کو بھی معاف نہیں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان ذات کسی بندے کو معاف کرے اور بندے کو بھی یہ حق دیا ہے کہ اپنے بھائیوں، بہنوں، پڑوسیوں اور دوستوں کو معاف کرے ہمیں معاف کرنا اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ سے سیکھنا چاہئے کہ مکہ والوں نے چاند کو دو ٹکڑے کرتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ حضرت محمد ﷺ (نعوذ باللہ) جادوگر ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ خندق میں شکست کھائی پھر بھی ایمان نہ لائے لیکن جب رسول اللہﷺ بیت اللہ کا دروازہ پکڑ کر اپنے ازلی دشمنوں سے فرمایا کہ "آج بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ جاؤ تم سب کےلیے معافی ہے” تو سب جوق در جوق کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ درگزر کرنا نہ ہی کمزوری کی علامت ہے نہ ہی بےعزتی کی اور نہ ہی شکست ماننے کے مترادف ہے بلکہ درگزر کرنا محبت ورحمت کی علامت، بغض وکینہ سے سلامتی کی دلیل اور پاکیزہ قلب وروح کی پہچان ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ "دو اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب کبھی تولا نہیں جاسکتا ایک ہے معاف کرنا اور دوسرا انصاف کرنا”اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ "اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کرنا تمہاری کمزوری ہے تو تم دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور انسان ہو”حضرت ابو ہریرەؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ” ایک تاجر لوگوں کو قرض دیتا تھا جب کسی کو تنگ دست پاتا تو اپنے نوجوانوں سے کہتا کہ اس کو معاف کردو شائد کہ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو بھی معاف کردے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی معاف کردیا "(صحیح بخاری حدیث ۱۹۴۶) اسی لئے ہمارا دین اسلام بھی یہی کہتا ہے کہ اپنے بھائیوں سے زیادہ دیر تک ناراض نہ رہو اور کوشش کرو کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے قصور معاف کردو اور اگر کوئی غلطی کررہا ہے تو اس کو سمجھاؤ نا کہ اس سے بدلہ لو۔ صحیح مسلم کی ۲۰۳۱حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاری کی روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” کسی (مسلمان) کےلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق کرے دونوں آپس میں ملیں تویہ اس سے منہ موڑے اور وہ اس سے منہ موڑے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ آدمی ہے کہ جو سلام کرنے میں ابتداء کرے "اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ ہم ہر وقت اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کا نقص نکالنے کے بجائے ایک دوسرے سے گلے ملنا چاہیے اور خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کرنا چاہئے ایک دوسرے کے عیوب ونقائص پر پردہ پوشی کرکے ان نقائص وعیوب کو صرف اس شخص سے تنہائی میں ظاہر کریں تاکہ دوسرے ان سے واقف نہ ہوں اوراس سے غلط فہمیاں بھی دور ہوجائیں۔ انسان کا معنی "اخلاق سے آراستہ” بھی ہے اس لیے ایک انسان کو اگر کسی سے ٹھیس پہنچی ہے اور وہ اسے معاف کرنے کو کہے تو اس انسان کو چاہیے کہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرکے ہی اس کو معاف کرنا چاہئے اگر ہم ایک دوسرے کے خطاؤں کو معاف کریں تو ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں خود بخود صلاح کی فضا پیدا ہوگی کیونکہ جو انسان مجرم ہوتا ہے اگر اس کو معاف کیا جائے یادرگزر کیا جائے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو وہ شرمندہ ہوجاتا ہے اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کرتا ہےاس لئے اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ ظلم و زیادتی بھی کرے یا کسی سے کوئی خطا ہوجائے تو اس کا بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک بہترین خصلت اور نہایت ہی نفیس عادت ہے اور خطاؤں کا درگزر کرنا ہی بڑائی ہے۔
رابطہ:-atharbashir.mir3@gmail.com