منشیات کے کاروبار نے جموں وکشمیر میں سنگین رُخ اختیار کیاایک سال کے دوران سوفیصدی کے لت میں ہونے کااضافہ

0
0

سماج کھوکھلاہوتا جارہاہے سیاسی قیادت دانشواروں مذہبی علماء اور صحافیوں کی خاموشی افسوسناک
سرینگر؍؍جموں وکشمیر میں نوجوان منشیات کی لت میں برُی طرح سے مبتلا ہورہے ہیںلاک ڈاون کے دوران نوجوانوں کی کثیر تعداد منشیات کی لت میں مبتلاہو گئی اور سرکاری اعداد شمار کے مطابق سال 2019میں صرف ہیروئن کا استعمال کرنے والے ایک سو کے قریب نوجوانوں کو اسپتال پہنچایاگیاتھا تاہم سال 2020کے 11ماہ کے دوران 250کے قریب ایسے نوجوانوں کومختلف اسپتالوں تک پہنچایاگیا جو منشیات کی لت میں مبتلاہیں۔جبکہ دور دراز علاقوں میں صورتحال کاانتہائی سنگین بنی ہوئی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق مرکزی زیرانتظام علاقے جموں وکشمیر میں منشیات اور نشیلی ادویات کاکاروباردن بدن فروغ پارہاہے اور نوجوانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے لئے 18-25سال تک کی دوشیزائیں بھی نہ صرف خود منشیات کی لت میں مبتلاہوچکی ہے بلکہ اس کاروبار کو مضبوط مستحکم بنانے کے لئے اپنی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں ۔سرکار اس بدعت کے خاتمے کیلئے اگر چہ کسی حد تک اقدامات اٹھارہی ہے تاہم اجتماعی طور پراس لعنت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لئے سیاست دان ،ائماء مساجد،دانشور، صحافی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جسکے نتیجے میں یہ سماج اندر ہی اندر کھوکھلا ہو رہاہے ۔ اے پی ا ٓئی کے مطابق سابق ریاست اور موجودہ مرکزی زیر انتظام علاقے میں منشیات اور نشیلی ادویات کی خریدفروخت کوئی نئی کہانی نہیں ہے بلکہ پچھلے کئی برسوں سے منشیات اور نشیلی ادویات کے کاروبار نے جموں وکشمیر میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کرلی ہے کہ اس نے اب کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے ۔چرس ،گانجا ،افیون استعمال کرنے کے بارے میں پچھلے کئی برسوں سے خبریں اخباروں میں شئے سرخیوں کے ساتھ شائع ہورہی ہیں تاہم سال 2019اور 20ایسے دو برس ہے جن میں جموں وکشمیر میں بالعموم اوروادی کشمیر میں بالخصوص منشیات کی اعلیٰ قسم ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ہیروئن کے استعمال نے مختلف مکتب ہائی فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کوجنجوڑ کے رکھ دیاہے وادی کشمیر میں نوجوان ہیروئن کی لت میں مبتلاہونے کاصاف مطلب ہے کہ یہ سماج اندر سے کھوکھلاہوتا جارہاہے مصائب ومشکلات نے نئی نسل کو اس قدر پریشانیوں میں مبتلاکردیاہے کہ اس سے ہرطرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہاہے ۔سرکار کی جانب سے جواعداد شمار ظاہرکئے گے ہیں ان کے مطابق سال 2019میں ایک سو کے قریب نوجوانوں کو منشایت کی لت میں مبتلاہونے کے بعد ڈرگ دایڈکشن سینٹروں تک لایاگیاجہاں ان کا علاج اور کونسلنگ کرکے انہیں اس بدعت سے دور رکھنے کی بر پور کوشش کی جاتی ہے اور سال 2019کے دوران ایک سو نوجوانوں کوعلاج ومعالجے اور کونسلنگ کے بعد اپنے گھروں کوجہاں واپس جانے کی اجازت دی گئی اور ایک امید پید اہوگئی تھی شایداب نوجوان اس لت کی طرف مائل نہیں ہونگے تاہم غموں کے پہاڑاس وقت جموں وکشمیر کے ان کنبوں پرٹوٹ پڑی جب سرکار نے یکم جنوری سے 30نومبر تک 250کے قریب نوجوانوں کوڈرگ ڈ ایڈکشن سینٹروں میں کونسلنگ اور علاج کرنے کاانکشاف کیااور ایک سال میں 150نوجوانوں کی تعداد بڑھ گئی جومنشیات کی طرف مائل ہوئی یہ وہ نوجوان ہیں جن کے لواحیقن نے بری مشکل سے انہیں ڈرگ ڈ ایڈیکشن سینٹروں تک پہنچا دیااور ایسے کتنے اور نوجوان ہونگے جن کے لواحیقن انہیں ڈرگ ڈ ایڈیکشن سینٹروں تک نہیں پہنچاپارہے ہے ۔غیرسرکاری ذرائع کے مطابق دو ہزار کے قریب افراد جموں وکشمیر میں منشیات کاکاروبار کر کے نئی نسل کو اس لت میں مبتلاکرنے کاکوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں جبکہ چار ہزار ے قریب ایسے بھی لوگ ہے جو نشیلی ادویات سورج غروب ہونے کے بعد فروخت کرکے نوجوان نسل کو زندگیوں سے محروم کرنے کے لئے اپنارول ادا کرتے ہیں ۔اس بات کابھی سنسنی خیزانکشاف ہوا ہے کہ دو سو کے قریب18-25سال تک کی عمرکی دوشیزائیں جہاں خود منشایت شراب کی لت میں مبتلاہے وہی وہ اس کاروبار کوفروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی ہیں اگر چہ سرکار کی جانب سے منشیات اور نشیلی ادویات کے خلاف شدو مد سے کارروائیاں جاری ہے تاہم اجتماعی طور پراس بدعت کاقلع قمع کرنے کے لئے سیاسی قیادت مذہبی علماء دانشور صحافی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں سماج اندر سے کھوکھلاہو رہاہے نوجوان نسل تباہی و بربادی کی دل دل میں پھنستی جارہی ہے اور عام لوگ اس بدعت کے حوالے سے غیرحساس ہیں جو ایک قوم کیلئے المیہ سے کم نہیں ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا