_ جہاں تلک ستم کی سیاہ رات چلے!

0
0

 

جبیں نازاں لکشمی نگر نئی دہلی

 

جلاکے مشعل جاں جنوں صفات چلے
جوگھر کو آگ لگائےہمارے ساتھ چلے

ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک ستم کی سیاہ رات چلے

میں نے مذکورہ بالا اشعار ترقی پسند تحریک کےمعروف شاعر مجروح سلطان پوری کی مشہور زمانہ غزل سے منتخب کیا وطن عزیز کے الکٹرنک میڈیا کی جانی مانی شخصیت این ڈی ٹی وی کے مشہور پروگرام پرائم ٹائم کے اینکر و صحافی رویش کمار کے لیے کوٹ کیا
جی ہاں یہ رویش کمار ہی ہیں کہ جنھوں نے تاریک رات میں چراغ جلانے کی جرات رندانہ کی!(آپ کہیں گے رات میں چراغ جلانا ‘جرات رندانہ’نہیں ، یہ تو معمولی سا کام ہے ) جی ہاں جہاں اپنے لیے چراغ جلانا بھی اب مشکل ہوا جاتا ہے ویاں ملک اور قوم کے لیےجو چراغ روشن کرنا سوچیں ذرا !یہ جوئے شیر نکالنے کے مترادف ہے کہ نہیں ؟؟یہ چودھویں کی رات نہیں تھی کہ جسے دیکھ کرلوگ یہ کہہ گزرجائیں کہ چاندنی رات میں چراغ جلایا تو کیا کیا؟؟ یہ رات ستاروں بھری رات بھی نہیں کہ کٹ حجتی اپنے دلائل سے اس ‘چراغ’کو چراغ سحری ثابت کرنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر ڈالتے
یہ تو ساون کی گھپ اندھیری رات تھی یا پھر ماہ ستمبرکے وسط کی وہ سیلابی رات جس میں سرسراتی ہوائیں دندناتی پانی کے ریلوں کے ساتھ بند کمرے میں در آتی ہیں -دگر گوں حالات میں مصنوعی بجلی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے چونکہ ہماری حکومت کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ جب مصنوعی بجلیوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے ان دنوں الیکڑک محکمہ پر آفت آجاتی ہے اور پورا شہر قصبہ گھپ اندھیرے ناگ کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔پھر پچھلی صدی کا ‘چراغ ‘اور’ لالٹین’ ہی کام آتا ہے{خیال رہے کہ میں نے ‘چراغ اور لالٹین کی اصطلاح بہار کی سیاسی صورت حال کے پیش نظر استعمال کیا ہےچونکہ ان دنوں یہاں اسمبلی انتخاب کا ماحول ہے ، اس کے نتائج دور رس ثابت ہوں گے} ان حالات میں چراغوں کی مدھم روشنی کو برقرار رکھنا ایک جوکھم بھرا کام ہوتا ہے –
اس رات کا قصہ شروع ہوتا ہے۔1992 سے جن دنوں رویش کمار طالب علم تھے۔اس اندھیری رات میں رویش کمار کا دل بہت ہی اداس و غمگین تھا جب بابری مسجد شہید کردی گئی تھی دن کے اجالے میں ساری دنیا نے کھلی آنکھوں سے بابری مسجد کے گنبد کو گرتے دیکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مسجد زمیں بوس کردی گئی ،سب سے بڑےجمہوری ملک کی جمہویت کے اختتام کی طرف بڑھتا ہوا یہ پہلا قدم تھا، ایک ملک ایک پارٹی ، ایک قوم کے نظریات کی حامل ایک سیا سی جماعت کا۔۔۔۔
اس کے بعد لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہےبہر حال!
اسی وقت رویش کمار نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اپنے خوبصورت ہندستان کی خوبصورتی بہر صورت برقرار رکھنے کی بساط بھر کوشش کروں گا!کثرت میں وحدت کا تصور، یہ تصور مختلف اقسام کے پھلوں سے سجا ایسا گلدستہ ہےیا گلستان
جس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی!
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک فرقہ وارانہ فساد کے شعلوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔اس کے بعد سلسلے وار فسطائی طاقت کا نظارہ منصوبہ بند اورنہایت منظم طریقوں سے ہم آپ کی نظروں کے سامنے پیش کیا جاتا رہا

گجرات فساد دوسرا بڑا قدم ۔۔ان پر آشوب حالات میں رویش کمار کا چہرہ ٹی وی اسکرین پہ نمودار ہوتا ہے ۔۔۔جس کی مخالفت مخصوص نظریات نے پورے شد و مد کے ساتھ کی ، رویش کو دھمکیاں بھی ملتی رہی جان مار دینے سے لے کر ۔۔بیٹی کے اغوا کرنے کےبعد’ بہت کچھ کر گزرنے ‘کا اعادہ ۔۔۔
لیکن رویش کمار فسطائی طاقتوں کے سامنے چٹان کی صورت ایستادہ رہے۔۔
جب ملک میں ‘ماب لنچنگ ‘کا دور شروع ہوا پہلو خاں کی ہلاکت کی خبر سن کر رویش کمار بند کمرےمیں نصف گھنٹہ آبدیدہ رہے ۔۔یہ سوچ کر کہ’ یہ میرے ہندستان کو کیا ہوگیا؟،رفتہ رفتہ ہم جمہوریت کی دیواروں سے روز ایک اینٹ کم کرتے جارہے ہیں جبکہ ضرورت تھی کہ جمہوریت کی خستہ وبوسیدہ دیوار کی مرمت کرتے کہ دیوار مزید مستحکم ہوتی مستحکم ہونےکے بعد اسے قابل دیدبنانے کا عمل شروع کرتے رنگ و روغن چڑھاتے۔
رویش کمار کی اس فکر کو دیکھ کر موقع پرستوں نے انھیں ‘جذباتی’یا پھر ‘دیوانے کا خواب’اور ‘کھلی ہوئی دھوپ میں ستارے گننا ‘جیسا فقرہ سوشل سائیٹ پر اچھال کر اپنی جنت میں سوگ بھوگنےلگے-
میں یا ہم جیسے افراد یہ سوچ کر اداس ہوئے کہ ذمے دار شہری کی بس اب یہ ذمے داری رہ گئی ہے کہ بہتے ہوئے دھارے میں شامل ہوجانا؟ بھیڑ میں گم ہوجائے؟؟اپنی شناخت درج کروانا مشکل کیوں ہوتا جارہا ہے؟؟
نہیں لیکن رویش کمار نے اپنی شناخت درج کروائی اور ایسی درج کروائی کہ ‘میگسیسے ‘ایوارڈ نے ملک کے عوام کو ہی نہیں، پوری دنیا کو ذہن نشیں کروادیا۔کہ دیکھو!بھیڑ میں کھڑا تنہا وجود نہایت طمطراق سے اپنی آن بان شان کس طرح برقرار رکھے ہوئےہے-تب مخالف خیمہ’چشم بینا’ہوگیا-
لیکن رویش کمار نے نہایت منکسر المزاجی کا مظاہرہ کیاجو ان کے مزاج کا حصہ ہے۔اس شعر کے مصداق
دیکھ زنداں سے پرے رنگن چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاوں کی زنجیر نہ دیکھ

ادھرفسطائی طاقتیں بھی اپنے کاز کو اتنے ہی شد مد سے آگے بڑھاتی رہیں، مثلا این سی آر ، اور جامعہ ملیہ پہ پولیس کی کاروائی اس کاروائی کا نتیجہ شاہین باغ مظاہرہ جس نے ایک تحریک کا درجہ حاصل کرلیا ، شاہین باغ کی آڑ میں دہلی میں فساد برپا کیا جانا بابری مسجد حق ملکیت کا فیصلہ آنا انا "فانا” صوتی ووٹ سے ایوان زیریں میں کسان بل پاس کروانا ‘بابری مسجد شہید کرنے والے ملزمان کو بری کیا جانا۔دہلی فساد میں پہلی بار لوگوں نے دیکھا کہ دہلی پولیس نے امن پسند ذمے دارشہری کو اس کیس کا ملزم بنایا جانا، متنازعہ بیانات دینے والے کپل مشرا جیسے افراد کا آزاد گھومنا، یہاں تک آتےآتے الیکٹرونک میڈیا کا منظر نامہ بدل گیا، اس درمیان میں ہاتھرس
سانحہ نے الیکٹرونک میڈیا کو دو خانوں میں واضح طور پر منقسم کردیا سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے معاملے میں ایک ماہ سے زائد کوریج کرنے والے ٹی وی چینلز ہاتھرس معاملے میں ملزمان کی حمایت میں اتر آئے اور پھر پیسہ لے کر ٹی آر پی کی کہانی بھی ملک کے عوام نے سنیں ۔۔
ان سب حادثات و سانحات کے درمیان میں ایک سروے رپورٹ آئی۔۔ٹی وی چینل کی ریٹنگ ۔۔۔ان میں سب سے آگے این ڈی ٹی وی سب سے آگے پایا گیا 2 نمبر سے23 نمبر لے کر جبکہ آر کے بھارت اور زی نیوز جیسا اشتعال انگیز چینل پیچھے رہ گیا!
جی کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے -کے مصداق گودی میڈیا اپنی پیٹھ آپ تھپتھپا لے گی! ‘دو انک’ کی بڑھت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے
پڑتا ہے صاحب !بہت ہی بڑا فرق ہے۔۔۔اب تو آپ لوگوں کو ممبئی کی عدالت نوٹس پر نوٹس بھیجے جارہی ہے۔۔۔۔یاخود شرمسار ہو یا مجھے شرمسار کر!
رویش کمار جمہوریت کے چوتھے ستون کی حفاظت میں بہ نفس نفیس متحرک اور منہمک ہیں دو چار لوگ اب ان کے ساتھ ہو لیے ہیں !
تو مجھے مجروح صاحب کا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے گرچہ یہ شعر زبان زدخاص و عام ہے پھر بھی میں اسے کوٹ کرنا چاہوں گی !

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھآتے گئے کارواں بنتا گیا !!

 

جبیں نازاں لکشمی نگر نئی دہلی 92

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا