( اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی mb.9450191754, )
اگرچہ پریم چند کے افسانے ’پوس کی رات‘ کو ایک صدی سے زاید کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن کسان کے لئے پوس کی راتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ اب لگتا ہے کسان نے ہلکو کے انجام سے سبق لیکر نہ سونے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے بات پچھلے کچھ مہینوں سے چلنے والی کسانوں کی تحریک کی ہے۔آذادی سے پہلے کسانوں کی حالتِ زار کا اندازہ پریم چند کی تحریروں سے لگ سکتا ہے۔آذادی کے بعد زرعی اصلاحات کا دور چلا، زمینداری کاخاتمہ ہوا لگان کے لئے ڈھائے جا رہے مظالم سے نجات ملی ۔زراعت میں نئے اور سائینٹفک طریقوں کو اپنایا گیا۔ یہاں تک کی ملک اناج میں نہ صرف خود کفیل ہو گیا بلکہ اناج کے زخایر بھی وافر مقدار میں ہو گئے۔ لیکن کسان خود کفیل نہ ہو سکا۔ اگرچہ پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا لیکن زرعی آلات، کیمیائی کھادوں اور جراثیم کش ادویات مہنگی ہونے اور فصل تیار ہونے پر اسکی قیمت نہایت کم رہنے کی وجہ سے کسانوں کو اسکا فایدہ نہیں حاصل ہو سکا۔ کسان ساہو کاروں کے قرضوں میں پہلے ہی جکڑا ہوا تھا ۔حکومتوں کی ایما پر بینکو کے ذریہ کسانوں کی فلاح اور بہبود کے نام پر آسان قرضوں کی فراہمی کے لئے معتدد اسکیمیں چلائی گئیں۔ ان اسکیموں سے کسانوں کی حالت میں تو کوئی نمایاں تبدیلی نہ آ سکی لیکن بد عنوانی کا بازار گرم ہونے کی وجہ سے سرکاری محکموں اور بینکوں کے ملازمین کی پو بارہ رہی سامنتی سماج ہونے کی وجہ سے با اثر افراد نے عام کسانوں کو ملنے والی مراعات سے خوب فائیدہ اٹھایا۔پچھلی دو دہائیوں سے سرکار نے کسانوں کے لئے’ کسان کریڈٹ کارڈ‘ اسکیم چلا رکھی ہے جسمیں انکو زرعی آراضی کے رقبے کے مطابق بوئی جانے والی ساری فصلوں کی لاگت کے برابر رقم معمولی سود پر قرض میں دی جاتی ہے۔ زیادہ تر کسانوں نے یہ قرض حاصل کئے لیکن اکثر کسانوں نے یہ قرض بینکوں کی ہدایت کے مطابق زراعت میں استعمال نہ کر کے مکانات کی تعمیر بیٹیوں کی شادی اور جہیز، روزانہ کے گھریلو اخراجات،خاندانی تقاریب ، ٹی وی فرج وغیرہ خریدنے اور شراب میں خرچ کر دئے ۔ فصل خراب ہونے یا نہایت سستی فروخت ہونے کی وجہ سے مقررہ میعاد پر قرض ادا نہیں کیے جا سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساہوکاروں اور بینکوں کے قرض کی ادائیگی کے دبائو میں کسانوں میں خودکشی کا رجحان بڑھنے لگا اور پچھلی دہائییوں میں ہزاروں کسانوں نے خود کشی کر لی۔
اب سے گیارہ سال قبل حکومت نے کمیشن فار ایگریکلچرل کاست اینڈ پرائیس کی سفارش پر MSP ( لاگت کے مطابق فصلوں کی کم سے کم قیمت) کا طریقہ لاگو کیا۔سوامی ناتھن رپورٹ کی سفارش کے مطابق ایم ایس پی فصل کی کل لاگت کا کم سے کم ڈیڑھ گنا ہونا چاہئے جس کو حکومت نے 2018 میں منظور کر لیا تھا۔ لیکن پنجاب اور ہریانہ کی علاوہ پورے ملک میں اس اسکیم کا فایدہ زیادہ تر کسان حاصل نہ کر سکے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسان نسبتاََ تعلیم یافتہ ہیں اور ان میں اپنے حقوق کہ لیکر بیداری بھی بہت ہے۔ زیادہ تر خرید مراکز میں بد عنوانی کا بول بالا رہتا ہے چھوٹھے کسانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اپنی فصل ٹرالیوں یا دیگر ذرائع سے خرید مرکز پر لیجاتے ہیں ہفتوں انتظار کرتے ہیں طرح طرح کی کمیاں بتا کر لوٹا دئے جاتے ہیں۔ مجبوراََ کسان اپنا اناج آڑھتیوں یا دلالوں کو اونے پونے فروخت کر دیتے ہیں۔یہی آڑھتیے اور دلال اپنے کچھ خاص آدمیوں کے نام سے خرید مراکز پر اناج پہونچاتے ہیں اور قیمت وصول کر لیتے ہیں۔ کچھ کسان مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر اپنی فصل کم داموں پر تیار ہونے سے پہلے ہی فروخت کر دیتے ہیں۔اس طرح کسانوں کے حالات لگاتار دگرگوں بنے رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں کسانوں کی موجودہ تحریک کے اسباب کی طرف ،نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر وبائی حالات کے دوران حکومت کو اس طرح کے قوانین بنانے کی اچانک ضرورت آن پڑی۔ پانچ جون کو آرڈیننس لایا گیا اور سترہ ستمبر کو لوک سبھا نے منظوری دی اور پھر راجیہ سبھا میں نہایت عجلت میں پاس کر دیا گیا۔ حالانکہ ایسا قانون جس کا ملک کی آبادی کے ایک بہت بڑے طبقے سے تعلق تھا اس کی ایک ایک شق پر تفسیلی بہث کی ضرورت تھی۔ چونکہ موجودہ سرکار کو زبردست اکثریت حاصل ہے اس لئے ایسے اقدامات یا آئینی تبدیلیوں کا جن طبقات سے براہ راست تعلق ہے انکو اعتماد میں لینے کی وہ نہ تو ضرورت سمجھتی ہے اور نہ کوشش ہی کرتی ہے۔مثلاََ طلاقِ ثلاثہ کے معاملے میں اقلیتوں سے جی ایس ٹی کے معاملے میں تاجروں سے اور زرعی قوانین کے بارے میں کسانوں سے مشورہ تک نہیں کیا گیا اور نہ انکے مثائل سمجھنے کی کوشش کی گئی۔
زرعی شعبے میں لائے گئے تین نئے قوانین جن کو سرکار اصلاحی قوانین بتا تی رہی ہے کے متعلق کسان اندیشوں میں مبتلا ہیں اور یہ اندیشے بے بنیاد بھی نہیں لگتے۔ سرکار کے زیادہ تر اقدامات نجی زمرے کے لئے فائدہ مند نظر آتے ہیں ۔ یہا تک کہ لوگوں کو ریلوے تک پرائیویٹ ہو جانے کا ڈر ستانے لگا ہے۔ سرکار کے ذریعے متعارف کرائے گئے قوانین کچھ اس طرح ہیں ۔ پہلے قانون کے تحت کسانوں کو اپنی فصل منڈیوں کے علاوہ بھی پورے ملک میں ایسی کسی بھی جگہ جہاں اسے مناسب دام مل سکیں فروخت کرنے کا اختیار ہوگا۔ اس سے وہ منڈیوں کی من مانی سے آذاد ہوسکیں گے اور انکو خریداروں کا بہت وسیع حلقہ حاصل ہوگا اور و ہ بہت اچھی قیمت حاصل کر سکیں گے ۔ مثلاََ یوں سمجھیں کہ بارہ بنکی کا کسان اپنا ،گیہوں، دھان یا سبزیاں مدراس یا کوچین میں بھی فروخت کر سکتا ہے حالانکہ یہ آذادی اسے پہلے بھی تھی لیکن کیا یہ چھوٹے اور درمیانی درجہ کے کسانوں کے لئے ممکن ہے۔ دوسرے قانون کا تعلق کانٹریکٹ فارمنگ یا معاہدہ زراعت سے ہے۔ اس کے مطابق کسان اپنی فصل بونے سے پہلے ہی طے شدہ قیمت پر بیچنے کا سمجھوتا کر سکیں گے۔لیکن ا س میں مسئلہ یہ در پیش آنا ہے کہ فصل کی تیاری کے وقت قیمتوں کے حوالے سے تنازعہ پیدا ہوگا مثلاََکسی جنس کی قیمت بیس روپے کلو مقرر کی گئی ہے اور فصل تیار ہونے کے وقت اسکا ریٹ بازار میں تیس روپے کلو ہے تو کسان اس فصل کو مقررہ قیمت پر بیچنے کو مجبور ہوگا لیکن اگر اس دوران فصل کا ریٹ دس روپے ہے تو غالب امکان ہے کہ بڑا بزنس مین یا کاپوریٹ گھرانا مذکورہ جنس میں کوئی نقص نکال کر یا معیار سے کم بتا کر خریدنے سے انکار کر دے ایسی صورت میں اس قانون کے مطابق کسان ایس ڈی ایم کے یہاں دعویٰ کر سکتا ہے۔ کسی بڑے بزنس مین یا کارپوریٹ گھرانے جن کو اکثر سیاسی حمایت بھی حاصل رہتی ہے کے خلاف دعوے میں ایک چھوٹا یا متوسط درجے کا کسان کہاں تک کامیاب ہو سکتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اب آتے ہیں تیسرے قانون کی طرف، یہ اسینشیل کموڈٹی ایکٹ میں ترمیم کے متعلق ہے۔ اس کے مطابق ذرعی پیداوار مثلاََ گیہوں دھان دلہن ،تلہن اور آلو پیاز وغیرہ سبزیوں جیسی ضروری چیزوں کی ذخیرہ اندوزی سے پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ کوئی بھی شخص ان چیزوں کی کتنی بھی مقدار ذخیرہ کر سکتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر کسانوں کے پاس بڑی مقدار میں ذخیرہ کرنے کے وسائل جیسے کہ گودام، کولڈ اسٹوریج وغیرہ موجود نہیں ہیں اس لئے انکے لئے ممکن ہی نہیں ہو گا کہ وہ بڑے پیمانے پر ان چیزوں کا ذخیرہ کر سکیں۔ اس لئے انھیں اپنی فصلیں اونے پونے دام پر فروخت کرنی ہی پڑیں گی اور کارپوریٹ گھرانے اور بڑے تاجر انھیںبعد میں من مانی قیمتوں پر بیچ سکیں گے۔ ان تینوں قوانین میں کسانوں کو اپنے مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا اس لئے کسان ان کی منسوخی سے کم پر کسی صورت بھی راضی نہیں ہیں۔
پنجاب کے کسان ملک کے دیگر علاقوں کے کسانوں سے زیادہ بیدار ہیں اور شروعات سے انھوں نے جدید طریقے اپنا کر کافی ترقی کی ہے۔ اور اپنے مفادات کو لیکر کافی حسساس ہیں اس لئے ان قوانین کے خلاف وہا ں سے فوراََ تحریک شروع ہو گئی جو تین مہینوں تک جاری رہنے کے باوجود سر کار کی توجہ سے محروم رہی۔ اسکے بعد کسانوں نے دلی کا رخ کیا اور انکی حمایت رفتہ رفتہ بڑھنے لگی ۔ ملک کے دیگرحصوں سے لگاتار حمایت بڑھتے جانے اور ایک بڑے آندولن کی شکل اختیار کر لینے بعد حکومت نے بات چیت کا فیصلہ کیا۔ کسان لیڈروں نے اپنے سارے اعتراضات واضح کر دئے تین میٹنگوں کے بعد بھی مسلئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ تیرے دور کی بات چیت کے دوران دئے گئے حکومت کے آفر کوبھی کسانوں نے مسترد کر دیا۔اس بیچ تحریک کو ناکام کرنے کے لئے حکومت کے اہلکاروں کی طرف سے اسی طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جاتے رہے جیسے سی اے اے کے خلاف چلائی گئی تحر یک کے دوران اپنائے گئے تھے یا شاہین باغ کو بدنام کیا گیا تھا ۔سکھوں کی نمایاں شمولیت کی بنا پر خالصتانی کہا گیا، کبھی دہشت گردی سے جوڑا گیا۔ ہزاروں کسانوں پر مختلف دفعات میں کیس درج کئے گئے۔ کہا گیا کہ وہ کسان ہیں ہی نہیں۔ ان کے پاس مہنگی گاڑیاں، مہنگے موبائل اور بہترین کپڑے کہا ں سے آئے لگتا ہے کہ تحریک کے مخالفین کی نظروں میں ڈھانچہ جسموں پر پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس شخص ہی کسان ہو سکتا ہے۔ مخالف پارٹیوں پر کسانوں کو بھڑکانے کا الزام بھی لگایا گیا۔ ان ساری کوششوں کے باوجود تحریک میں شدت آتی جا رہی ہے۔ کسان MSP کو قانونی شکل دلوانا چاہتے ہیں ۔ حکومت کا رویہ اب بھی مثبت نہیں ہے جن قوانین کو کسان کسی قیمت پر ما ن لینے کو تیار نہیں ہیں انکو حکومت بے انتہا فائدہ مند قرار دے رہی ہے اور وزیر اعظم جو کی اکثر اہم معاملات میں خاموش رہتے آئے ہیں ان قوانین کے فائدے گنوا رہے ہیں۔ کسانوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے کئی طریقے اپنانے جا رہی ہے کسانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش میں کئی کسان لیڈروں سے حکومت کی حمایت میں بیان دلوائے جا رہے ہیں ۔ کورونا وبا کے قوانین کا بھی سہارا لیکرتحریک کو کمزور کرنے کی کوشش جاری ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی کئی درخواستیں داخل کی گئی ہیں اور سپریم کورت نے حکومت سے کسان لیڈروں کی کمیٹی بنا کر بات چیت سے معاملہ حل کرنے کو کہا گیا ہے۔کل ملاکر حالات ایسے بن گئے ہیں کہ کسان لیڈروں کو جذبات کے بجائے نہایت فہم و فراست سے کام لینا ہوگا اور پوس کی رات کے ہلکو کی طرح حکومت کی تسلیوں اور وعدوں کی گرمی میں نیند کی آغوش میں جانے کے بجائے مکمل طور پر اپنے مستقبل اور حقوق کے تئیں بیدار رہنا ہوگا ورنہ پوس کی راتیں تو آتی ہی رہیں گی۔
٭٭ ٭
اختر جمال عثمانی، دیوہ روڈ، رفیع نگر۔ بارہ بنکی
یو پی۔ انڈیا۔۲۲۵۰۰۱
. +919450191754 mbموبائیل۔۹۴۵۰۱۹۱۷۵۴
Email: akhtar.jamal.usmani@gmail.com