🖊از۔ مولانامحمدقمرانجم قادری فیضی
طنزومزاح کسے کہتے ہیں، اردو ادب میں طنزومزاح کو عموماً یکساں معنوں میں لیا اور ایک ساتھ استعمال کیا جاتاہے، حالانکہ طنز اور مزاح میں فرق ہے، دونوں کی اپنی حدود ہیں، لیکن اس کے باوجود اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں، اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہےطنز۔سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ،تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے،جب کہ مزاح سےخوش طبعی مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتاہے، عام طور پر طنز اور مزاح کے الفاظ کو ملا کر بطور ایک مرکب استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں الحاصل، ایسی تحاریر جو آپ کو ہنسنے پر مجبور کردیں، اور اس تحریر میں تنقید کا جامہ پہنا دیا جائے پھر بھی قاری ہنسنے اور کھلکھلانے پر مجبور ہوجائے طنز ومزاح کہلاتی ہے، اردو ادب کے مقبول طنز ومزاح نگار یہ ہیں، عزیز نیسن، مشتاق یوسفی ،ابن صفی ،ابن ریاض، ابن انشاء، پطرس بخاری، رتھ ناتھ سرشار، شفیق الرحمن، وغیرہ[وکی پیڈیا[اردو نثر میں طنز ومزاح کا سرمایہ مختصر ہونے کے باوجود نہایت قابلِ قدر ہے طنز اور ظرافت کے جتنے روپ ممکن ہیں وہ سب اردو نثر میں پائے جاتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں ،ہماری نثر میں ضرور مل جاتے ہیں، اسی طرح پست اور بلند ہر سطح کے نمونے ہمارے ادب میں موجود ہیں، چنانچہ عوام اور خواص دونوں کے دل بستگی کے سامان کی یہاں کمی نہیں،
مزاح کا مقصد لطف اندوزی ہے تو طنز میں اصلاح کا مقصد کار فرما ہوتاہے، پست درجہ کسی کو نیچا دکھانے کے لئے اور خالص مزاح اعلی درجے کی چیز ہے نیز قاری اس سے بھر پور لطف وانبساط حاصل کرتا ہے لیکن خالص طنز ،جس میں مزاح کی آمیزش نہ ہو محض دشنام بن کے رہ جاتاہے،
دراصل انسان ایک ہنسنے والا جانور ہےخدائے تعالی نے انسان کو کئی نعمتوں سے نوازا ہے ان میں ایک عظیم نعمت ہنسی بھی شامل ہے ،ہنسی احساس برتری کا نتیجہ ہوتی ہے
دوسروں کی کمزرویاں یا اپنی پچھلی کوتاہیوں کے سبب وجود میں آتی ہیں، الحاصل طنزومزاح ایک معاشرے کی برائیوں، کمیوں، خامیوں کو اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں، دور حاضر میں بطور ادیب اور مزاح نگار جن مشہور ومعروف ادباء، مزاح نگاروں اور کالم نگاروں نے اپنی تحریروں سے ادبی علمی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے ان میں ایک اہم اور ممتاز نام مشہور کالم نگار ڈاکٹرمحمدقائم الاعظمی علیگ صاحب(ساکن- اعظمی کلنک برجمن گنج ضلع مہراج گنج یوپی ) کا بھی ہے نقوش طنزومزاح (ترتیب- محمدقمرانجم قادری فیضی) نامی کتاب آپ کی پہلی کاوش ہے جو شائع ہوکر منظر عام پر آکر اردوادب کے حلقوں میں ادباء،نقاد،علماء مشائخ اور ارباب علم وفن سے دادوتحسین حاصل کرکے کافی پزیرائی بھی حاصل کرچکی ہے۔اس کتاب کا تعلق، دینی، مذہبی،تاریخ وسیر، اصلاحی،اور تحقیق وجستجو نیز سفرناموں کے ساتھ ساتھ شخصی خاکوں سے بھی ہے اور ادب کی معروف صنف مزاح نگاری سے بھی ہے، اور اس کتاب میں بہت سے ایسے واقعات وحالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے،جس کا علم ان کے علاوہ صرف اسی شخص کو تھا،جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔اگر خود ستائی کی تمنا مزاح نگار کو ہوتی تو بہت سے ایسے واقعات کا ذکر قطعی طور پر کرتا ہی نہیں۔لیکن انھوں نے اس طرح کے واقعات کو ضمنی طور پر بیان نہیں کیا بلکہ کتاب کا ایک اہم حصہ بنایاہے ۔ڈاکٹرمحمد قائم الاعظمی علیگ صاحب کی یہی متانت و سنجیدگی ان کے فن کی بنیاد ہے ۔ورنہ ایسے خاکہ نگاروں کی کمی نہیں جو خاکہ ،خاک اڑانے کے لئے لکھتے ہیں اس سے وقتی اور عارضی سرخروئی تو حاصل ہوجاتی ہے مگر یہ چیزیں دیرپا نہیں ہوتیں۔تحریر زبان کا عکس ہوتی ہے۔اور ہوتا یہی ہے کہ اصل ختم ہو جاتا ہے اور عکس باقی رہ جاتا ہے۔اور آنے والی نسلیں اسی عکس سے اپنی علمی پیاس بجھاتی ہیں۔کتنے ہی ایسے عکس ہمارے سامنے ہیں،جو ہماری علمی لیاقت کو پروان چڑھانے میں اپنا غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں۔اس تناظر میں اگر اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ایک ایک حرف اسی عکس کے مانندہے،جس میں مصنف نے لوگوں کو چلتا پھرتا پیش کر دیا ہے۔یہاں ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ خاکہ نگار نے جس اسلوب کا سہارا لیاہے،اس نے کتاب کی اہمیت میں اور اضافہ کر دیا ہے اس کتاب کے ایک ایک صفحے کو پڑھتے جائیں،کہیں کوئی رکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا ،ایسا لگتا ہے کہ دریا بہہ رہا ہے،اور بہتے ہوئے پانی کے ساتھ کچھ ایسے ذرات بہہ رہے ہیں،جس کا آنکھیں دور تک تعاقب کرتی ہیں۔یہ کتاب اسی ذرے کے مانندہے کہ جب تک کتاب کا آخری صفحہ پڑھ نہ لیا جائے،اس وقت تک تجسس کی ایک عجیب کیفیت برقراررہتی ہے۔
اس کتا ب میں شامل تمام مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کو قلم کاری پر کافی عبور حاصل ہے
آپ نے کہیں بھی مزاح نگا