حکومت سے بات چیت کیلئے کمیٹی تشکیل کریں گے کسان لیڈر

0
0

ہمیں نظر رکھنی ہوگی ہمارے غلط لوگ نہ آجائیں:راکیش ٹکیٹ
لازوال ڈیسک

نئی دہلی: دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کا احتجاج ابھی رکا نہیں ہے۔ حکومت کے وزرا کے درمیان بھی بات چیت کا دور جاری ہے۔ مرکز کے تین نئے زرعی قانون کے خلاف جاری کسانوں کے احتجاج کے درمیان مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر اور سوم پرکاش نے اتوار کو وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی۔ یہ اطلاع افسران نے دی۔ وہیں، کسان لیڈر راکیش ٹکیٹ نے مظاہرین میں غلط لوگوں کو شامل ہونے پر محتاط رہنے کی بات بھی کہی ہے۔ بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیٹ نے کہا، ’ہمیں نظر رکھنی ہوگی کہ ہمارے غلط لوگ نہ آجائیں، ہمارے سبھی نوجوانوں کو محتاط رہنا ہوگا‘۔ اگر حکومت بات کرنا چاہتی ہے، تو ہم ایک کمیٹی تشکیل کریں گے اور آگے کے فیصلے لیں گے۔اس ملاقات میں وزرا کے ساتھ پنجاب کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈران بھی شامل تھے۔ ایک افسر نے بتایا کہ نریندر سنگھ تومر اور سوم پرکاش نے وزیر داخلہ سے ملاقات کی۔ حالانکہ، ابھی تک یہ ابھی پتہ نہیں چل سکا ہے کہ میٹنگ میں کیا بات چیت ہوئی۔ مرکزی وزیر برائے زراعت نریندر سنگھ تومر، سوم پرکاش اور پیوش گوئل نے مظاہرین کسانوں کے ساتھ بات چیت میں حکومت کی قیادت کی تھی۔ایک طرف پنجاب اور ہریانہ کے کسان دہلی کی سرحدوں پر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ وہیں، دوسری طرف اتراکھنڈ کے کسان نئے زرعی قانون کی حمایت میں اترآئے ہیں۔ اتوار کو ریاست کے کسانوں نے دہلی میں مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر سے ملاقات کی۔ اس دوران وزیر مملکت برائے زراعت کیلاش چودھری اور اتراکھنڈ کے وزیر تعلیم اروند پانڈے بھی موجود رہے۔زرعی قوانین کے خلاف تحریک چالا رہے کسانوں کی حمایت میں پنجاب کے ڈی آئی جی (جیل) لکھمندر سنگھ جاکھڑ نے استعفی دے دیا ہے۔ جاکھڑ نے کہا کہ انہوں نے اتوار کے روز پنجاب کے چیف سکریٹری کو خط لکھ کر مطلع کر دیا ہے کہ انہیں سبکدوش مانا جائے۔ لکھمندر نے کہا کہ وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان کسان بھائیوں کے ساتھ ہیں جو زرعی قوانین کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے ہیں۔راجستھان کے شاہجہانپور میں ہریانہ بارڈر کے نزدیک کسانوں نے جام لگا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے دہلی جے پور قومی شاہراہ پر ٹریفک کی آمد و رفت بند ہو گئی ہے۔ اس کے بعد پولیس نے گاڑیوں کی بہروڑ کی جانب منتقل کر دیا ہے۔ شاہراہ پر بڑی تعداد میں کسان جمعہ ہے اور حکومت کے خلاف نعریبازی کی جا رہی ہے۔ شاہراہ پر لمبا جام لگا ہو اہے۔سنگھو بارڈر (دہلی – ہریانہ) پر کسانوں کا احتجاج 18 ویں روز میں داخل ہو چکا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں کسان یہاں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔یہاں مظاہرہ کرنے والے ایک کسان نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے کہا، ’’میں یہاں گزشتہ شب پہنچا ہون۔ راجستھان، پنجاب اور ہریانہ سے مزید کسان یہاں پہنچنے والے ہیں۔ 16 دسمبر کو یہاں کسانوں سے بھری ہوئی 500 مزید ٹرالیاں پہنچ جائیں گی۔راجستھان کے متعدد کسان شاہجہانپور میں جیسنگھ پور-کھیڑا بارڈر (راجستھان-ہریانہ) کے نزدیک جمع ہو کر مزکزی حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے، ’’یہاں ہمارے احتجاج کا 12واں دن ہے۔ ہم مزید کسان یونینوں کا انتظار کر ہے ہیں تاکہ بڑی تعداد میں دہلی کی طرف روانہ ہو سکیں۔ زرعی قوانین کی واپسی ہمارا اہم مطالبہ ہے۔‘‘جماعت اسلامی ہند نے کسان تحریک کو اپنی حمایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور صنعتی گھرانوں کو فائدہ دینے کے لئے ملک کے زرعی قوانین کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جماعت کے نائب صدر محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ مرکزی کے نئے زرعی قوانین کے خلاف ہم کسانوں کو حمایت دیتے ہیں۔دہلی کے غازی پور میں کسانوں کی تحریک 16 روز میں داخل ہو گئی ہے۔ یہاں پنجاب کے دو جڑواں بھائی مظاہرین میں گرم کپڑے تقسیم کر ہے ہیں۔جڑواں بھائیوں میں سے ایک کرن وی رنے کہا، ’’سڑکوں پر کون رہنا چاہتا ہے؟ یہ جدوجہد کرنے کا وقت ہے۔ میں مودی جی کی فین ہوں، مجھے یقین ہے کہ وہ اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ ملک کسانوں کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ حکومت کے ساتھ 6 دور کی بات چیت ہو چکی ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ خبریں ہیں کے 15 دسمبر کو ایک مرتبہ پھر میٹنگ ہو سکتی ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا