"جس کو سمجھے تھے مسیحا وہی قاتل نکلا

0
0

ایم ندیم احسن صدر جمشیدپور اردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن صدر پریس کلب آف جمشیدپور رابطہ نمبر: 7870442233

 

پورے جھارکھنڈ میں صحافیوں کے خلاف پولیسیا ظلم’ صحافیوں کو جھوٹے معاملہ میں پھنسانے” تھا نہ تک میں صحافیوں کی پٹائی’ پولیس کے ذریعہ کھلے میدان میں دوڑا دوڑا کر صحافیوں پر لاٹھی ڈنڈے برسا کر ان کے ہاتھ پاؤں توڑنے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں رہے ہیں 95 فیصد صحافیوں کی تنظیمیں ایسے معاملے میں خاموشی اختیار کیے رہتی ہیں لیکن ہندو مسلم نفرت کا بیج بونے والے’خواتین کو خودکشی پر مجبور کرنے والے’ لین دین میں بے ایمانی کرنے والے سماج میں امن و امان کے تانا بانا کے شیرازہ کو بکھرنے والے نام نہاد صحافی پر جب قانون کا شکنجہ کستا ہے تو صحافی تنظیمیں آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں یہ تو دوہرا معیار کیوں ؟جمشید پور اور راجدھانی رانچی سمیت ریاست کی کئی ساری صحافی تنظیمیں 95 فیصد معاملات میں مظلوم اور پریشان حال صحافیوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی خاص طور سے اس وقت جب ان کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہوتا ہے لیکن تخریبی ذہن رکھنے والے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نام نہاد صحافی پر جب قانون کا ڈنڈا پڑتا ہے تو یہ ساری صحافی تنظیمیں بلبلا اٹھتی ہیں جمشید پور کی ایک بڑی صحافی تنظیم نے اپنے احتجاج نامہ میں لکھا ہے کہ ارنب گوسواامی کے خلاف پریس کونسل سے رجوع نہ کرکے پولیس کے ذریعہ اسے گرفتار کیا جانا جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ ہے سوال یہ ہے کہ 2018 میں گوسوامی پر مقدمہ دائر کیا گیا تھا جب سے اب تک گوسوامی نے پریس کونسل کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایا؟ سوال یہ بھی ہے کہ پریس کونسل نے از خود اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں کیوں نہیں لیا؟بات بالکل صاف اور واضح ہے صحافی کی صحافتی سرگرمی میں کسی طرح کی مداخلت ہوتی ہے تو پریس کونسل اس کے خلاف اقدام کرنے کا مجاز ہے لیکن صحافی کسی ذاتی معاملے میں غلطی کا ارتکاب کرتا ہے یاوہ قانون کے خلاف جاتا ہے تو پریس کونسل کو اس میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں ہوتاارنب نے اپنی آفس اور گھر کی تزئین و آرائش پر ساڑھے پانچ کروڑ روپے خرچ کروادئے اور جب انٹیریر ڈیکوریٹر کو رقم دینے کی بات آئی تو اسے معمولی اور رقم پکڑا کر ٹرخا دیا دوسرے الفاظ میں یہ کہیں کہ اس کی مزدوری اس کا محنتانہ ہڑپ کر کے بےایمانی کی گئی چار سو بیسی کی گئی اس میں صحافت کہاں سے آگیا یا اس میں صحافی کی بےعزتی کہاں ہو رہی ہے اس کے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں کہاں مداخلت ہو رہی ہے؟؟؟ تو پھر پریس کونسل اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں کیوں لے گا خود گوسوامی اس بات کو سمجھتا ہے اور صحافت کا الف بے جاننے والا ہر کوئی اس حقیقت سے واقف ہے پھر جمشید پور کی کی صحافی تنظیم اس طرح کا بیان دے کر اپنی کم فہمی کا ثبوت نہیں دے رہی ہے بلکہ اپنی ہٹ دھرمی اور عام عوام کو ورغلانے کاکام کر رہی ہے مذکورہ تنظیم جس کی ہر چہار جانب سے مذمت کی جانی چاہیے یاد کریں قنوج میں مرزا پور کےصحافی پون جیسوال اسکولی بچوں کو نمک روٹی پروسے جانے کا ویڈیو بنا کر وائرل کرتا ہے تو اس پر ملک سے غداری کا مقدمہ قائم کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اس وقت برساتی کے نالے جیسی سی سی-پی تنظیموں کو کو جمہوریت کے چوتھے ستون پر حملہ نظر نہیں آتا اس وقت یہ صحافی تنظیمیں کیا کہیں نرک باش ہو گئی تھیں گوری لنکیش کو بربریت سے قتل کردیا جاتا ہے اس وقت بھی صحافی تنظیمیں جانے کس کونے کھدرے میں جا چھپی تھیں خاموشہاں چند ایک صحافی تنظیمیں ناگوار فرض سمجھ کر بے حد کمزور انداز میں دو لفظ کہہ کر اپنا پلہ جھاڑ لیتی ہیں دوسرے الفاظ میں یہ کہیں کہ طاقتور اور پرزور احتجاج نہ کر کے صحافتی ذمہ داری سے منھ موڑ لیا جاتا ہے-اسطرح کہیں قاتلوں تو کہیں حکومت کے ظالمانہ اقدام کی خاموش حمایت کی جاتی یے 7 لیکن ہندو مسلم کرنے والا ہندوستان پاکستان کرنے والا مسلم اقلیت کی تذلیل کرنے والا تبلیغی جماعت کو خونخوار درندہ بنا کر پیش کرنے والا بے قصور
دلت کونکسلی قرار دینے والا نام نہاد صحافی جب اپنے مجرمانہ کرتوتوں کی وجہ سے قانون کی گرفت میں آتا ہے تو صحافیوں کی تنظیمیں بلبلانے لگتی ہیں اگر نظر دوڑائیں تو ہندوستان میں صحافیوں کے ساتھ حکومت کا جو ظالمانہ رویہ ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے آئے دن کہیں نہ کہیں صحافی کا قتل ہوتا ہے اس کی تذلیل کی جاتی ہے سچائی کو اجاگر کرنے کی پاداش میں ایک طرف مافیاؤں سے دھمکی ملتی ہے تو دوسری طرف پولیس سے اس وقت یہ تنظیمیں خاموش رہتی ہیں لیکن جب گودی میڈیا کی بات آتی ہے تو یہ گودی میڈیا کی حمایتی صحافی تنظیمیں واویلا مچانے لگتی ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ اقلیتی فرقہ کے صحافی بھی ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے نظر آتے ہیں یہ صحافی اپنی قوم اپنے سماج اور ملک کے وفادار کم اور اپنی تنظیموں کے وفادار زیادہ ہوتے ہیں جو اپنی تنظیموں میں چھوٹی سی کرسی اورچھوٹے سے عہدے کی لالچ میں چاپلوسی کرنے پر مجبور ہیں ایسے چاپلوس صحافی قوم کے لئے اور ملت کے لیےلعنت ہیں ویسے بھی بکے ہوئے دوست دانا اور خوفناک دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں-گوسوامی معاملے میں صحافی تنظیموں کا موجودہ رویہ بے حد افسوس ناک ہے جو جمہوری اقدار کی پامالی کا سبب بن رہا ہے صحافی نہ صرف سماج کو آئینہ دکھانے کا فرض ادا کرتا ہے بلکہ سماج کو مثبت اور تعمیری سوچ دینے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے صحیح رخ پر ان کی رہنمائی کرکے -صحافی کا کام تعمیر ہے تخریب نہیں -طالب علموں کی تھالی سے نوالہ چھیننے والوں کا پردہ فاش کرنے والے پون جیسوال کو ملک سے غداری کے الزام میں جیل بھیجنے’اعظم گڑھ کے صحافی سنجے جیسوال’ پرشانت کنوجیا اور بڑے گھوٹالا کو اجاگر کرنے والے منیش پانڈے پر سرکاری ظلم کا پہاڑ توڑا جاتا ہے انہین جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے تو ارنب گوسوامی کے نام کا مالا جپنے والی صحافی تنظیموں کے منہ سے آواز نہیں نکلتی لیکن سماج میں بےچینی پھیلانے والے مذہبی منافرت کی آگ بھڑکانے والے نام نہاد صحافی پر جب قانون کا ڈنڈا پڑتا ہے تو یہ تنظیمیں بلبلا اٹھتی ہیں یہ رویہ جمہوریت کے لیے تباہ کن ثابت ہونے والا ہے فیکٹ چیکنگ نیوز ویب سائٹ نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ارنب گوسوامی صحافی ہیں وہ غلط دعویٰ کرتے ہیں-ادھر ادھوٹھاکرے کے قریبی سمجھے جانے والے انل پرب کہتے ہیں "ارنب کو لگتا ہے وہ خود ہی جج ہین” انہوں نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے ‘سونیا گاندھی’شرد پوار کو انتہائی ہتک آمیز اور بے حد توہین آمیز الفاظ میں مخاطب کرکے یہ بتا دیا کہ اسے تہذیب سے کوئی واسطہ ہے نہ صحافت کے بنیادی اصولوں سے- انل پرب نے آگے کہا کہ "سپاڑی لینے والے صحافیوں پر کاروائی ہونی چاہیے ” *دعویٰ ہوا جھوٹا ثابت *:- گرفتاری کے بعد وائرل ویڈیو کے ذریعہ گوسوامی نے دعوی کیا تھا کہ پولیس نے اس کے ساتھ مار پیٹ کی ہے طبی جانچ میں ڈاکٹروں نے اس کے دعوے کو جھوٹا بتایا ہے ڈاکٹروں کے مطابق میڈیکل جانچ میں ارنب کے ساتھ مار پیٹ کی کوئی علامت نہیں پائی گئی. *خاتون افسر کے ساتھ بدتمیزی کا الزام ایف آئی آر درج**: مہاراشٹر پولیس کے مطابق گوسوامی کو گرفتار کرنے گئی پولیس کے ساتھ مار پیٹ کی گئی جبکہ ارنب گوسوامی پرخاتون افسر کے ساتھ مار پیٹ کرنے کا بھی الزام ہے – پولیس نے اس معاملے مین دفعہ 34 دفعہ 353 اور دفعہ 504 کے تحت مقدمہ دائر کیا ہے معلوم ہو کہ انٹیرئیر ڈیزائنر انوے نائیک اور ان کی والدہ مکند نائیک نے خودکشی کرلی تھی سو سائیڈ نوٹ میں خودکشی کے لیے تین افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا جن میں ارنب گوسوامی کا نام بھی شامل ہے- الزام ہے کہ اسنےاپنے دفتر اور رہاءش گاہ میں تزیین کا کام کرا کرموٹی رقم کی ادائیگی نہیں کی- بھا جپا حکومت میں ارنب کے خلاف مقدمہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا تھا حکومت بدلنے پر انصاف کی آس لگائے بیٹھے متاثرہ خاندان نے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ سے مل کر انصاف کی فریاد کی تھی جس پر کارروائی کا آغاز کیا گیا *شرمناک*:- اس درمیان بھاجپا ممبر اسمبلی رام کدم نے گورنر سے مل کرارنب کی گرفتاری پر پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی مانگ کی ہے رام کدم کے اس قدم کو ہندوستان کے قانون پر بد اعتمادی کے اظہار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کی سوشل ایکٹیویسٹ اور سماجی خدمت گاروں نے بھاجپا رہنما کے ذریعہ قتل کے ایک ملزم کی کھلی حمایت کو شرمناک قرار دیا ہے ادھر بھارتیہ سماج پارٹی کے مرکزی صدر اور یوگی سرکار میں وزیر رہے اوم پرکاش راج بھر نے یوگی سرکار پر سوال اٹھایا کہ یوپی میں ایک سال میں 40 صحافیوں پر ایف آئی آر درج کیا گیا صحافیوں کا قتل ہوا سرکار کی غلطیوں کو اور بھرشٹاچار کو اجاگر کرنے والے صحافیوں کے پیچھے "ای او ڈبلو” جیسی ایجنسی لگا دی گئی امت شاہ جے پی نڈا مرکزی وزیر دھرمندر سمیت دیگر مرکزی وزراء اور صحافی تنظیمیں اس وقت یوگی سرکار کو ان کے "کالے کارناموں” پر خاموش حمایت دے رہی تھین آج قتل پر اکسا کر دو قیمتی جان کو خودکشی پر مجبور کرنے والے نام نہاد صحافی پر قانون کا شکنجہ کسا تو ان کو جمہوری اقدار کی یاد آنے لگی اسے ہی تو نوٹنکی کہتے ہیں- صحافی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بولنے کی آزادی برقرار رہنی چاہیے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوسوامی کی صحافت سے اختلاف کے باوجود اس کی حمایت کی جانی چاہیے کیونکہ یہ ایک صحافی کی تذلیل کا معاملہ ہے یہ تنظیمیں اس کی گرفتاری کو بھی غلط کہتی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گوسوامی کی صحافت کو صحافت کہا ہی نہیں جاسکتا اور نہ اس کی گرفتاری کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے احتجاجی طلبہ کے خلاف’ کسانوں کے خلاف ‘مدرسہ کے یتیم بچوں کے خلاف’ تبلیغی جماعت کے خلاف زہریلی خبریں چلا کر’دلت پچھڑے طبقہ کے لوگوں کو میڈیا ٹرائل کے ذریعہ ماووادی ہونے کا جھوٹا الزام لگا کر سماج میں دہشت پھیلانے والے کو صحافی کیوں کر کہا جا سکتا ہے بولنے کی آزادی اپنی جگہ لیکن جب کسی کے بولنے سے سماج کے امن و امان کو خطرہ لاحق ہو آپسی بھائی چارے کی فضا زہر آلود ہو فساد کی آگ بھڑکنے کا اندیشہ ہوتو یہ بولنے کی آزادی نہیں ہوتی آگ اگلنا ہوتا ہے اور آگ کا کام چلانا ہے ہے یہ سب جانتے ہیں تو پورے دیش میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہوتی ہے ایسے لوگوں کی جگہ جیل میں ہوتی ہے مہذب سماج میں جلدی قطعی نہیں گو سوامی کی گرفتاری سے صحافی برادری کی بے وقاری کی دہائی دینے والی صحافی تنظیمیں اس وقت بھی خاموش تھین جب ریپبلک ٹی وی کے اسٹوڈیو میں عدالتیں لگائی جا رہی تھین اور اس طرح جانچ ایجنسی اور عدالت کے کام کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی حکومت کی تا تھئی پر تھپک تھیا کرنے والے حکمراں جماعت کے وزراء’ ممبران اسمبلی’ ممبران پارلیمنٹ اور فرقہ پرستوں کا حکومت کی تا ,تھئی پر تھپک تھیا کرنے والے نام نہاد صحافی کی زہر افشانی کی پذیرائی کرکے ریپبلک ٹی وی کے ذریعہ جمہوری اقدار کی پامالی کرنے والوں کا ہر قدم پر اپنے چینل کے ذریعہ تحفظ دینے کی کوششوں کو انتہائی قابل اعتراض اور مجرمانہ سازش تو کہا جاسکتا ہے صحافت نہیں کہا جا سکتا چنانچہ عین تقاضاے انصاف ہے کہ بھائی چارہ کی فضا کو زہر آلود کرنے والے شخص پر سے صحافت کا کوج ہٹا دیا جائے قابل غور ہے کہ اس شخص جس کی حمایت میں مرکزی حکومت کھڑی ہے اس کے آدھے درجن سے زیادہ مرکزی وزراء کھڑے ہیں کئی ریاستوں کے وزرراءاعلی ان کے حق میں ناحق آواز بلند کر رہے ہیں ایسے میں صحافی تنظیمیں یہ کیوں سمجھ رہی ہیں کہ اس معاملے میں انہیں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ایک بات تو طے ہے کہ مجھے اور ارنب کو ایک قطار میں بحیثیت صحافی کھڑا کیا جائے تو میں یقیناً اس کے ساتھ کھڑے رہنے کو اپنی توہین سمجھوں گا میں پھر اترپردیش کی طرف آتا ہوں یہاں حقیقت کے آشکارا کرنے پرگھوٹالہ بازوں کے چہرے سے نقاب ہٹانے پر ملک سے غداری کا لیبل لگا کر سلاخوں کے پیچھے ڈالنے والے یو گی ادتیہ ناتھ آج گوسوامی کی حمایت میں بیان دے رہے ہیں اور جمہوریت کے چوتھے ستون صحافیوں کو پابند سلاسل کرنے والے کی اس ہرزہ گوئی پر خاموش رہنے والے مرکزی حکومت کے وزراء اور خود وزیراعلی ادتیہ ناتھ نے خود اپنا اور مذکورہ نام نہاد صحافی کے گہرے رشتہ اور گٹھ جوڑ کو عیاں کر کے اپنے چہروں سے نقاب اٹھا دیا ہے ادھو ٹھاکرے کے قریبی انیل پرب کہتے ہیں "ارنب گوسوامی کو لگتا ہے کہ وہ خود ہی جج ہے” ادھو ٹھاکرے ‘شرد پوار’سونیا گاندھی کے خلاف انہوں نے غیر شائستہ الفاظ کا استعمال کرکے یہ بتا دیا ہے کہ اسے تہذیب دور کا بھی واسطہ نہیں انہوں نے یہ بے حد سخت الفاظ میں کہا کہا کہ "سپاڑی لینے والے صحافیوں پر کارروائی ہونی چاہیے” **دوہرا معیار**: سوشانت سنگھ راجپوت خودکشی معاملہ میں گوسوامی سمیت کئی ٹی وی چینل کے ذریعہ ریا چکروتی کو سیدھے طور سے ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا خودکشی کا جبکہ سوشانت راجپوت نے اپنے خودکشی نامہ میں سرے سے ریا چکروتی کا ذکر ہی نہیں کیا تھا-صحافت کو بے وقار کرنے والی ایسی بے بنیاد رپورٹنگ پر صحافی تنظیموں نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن انوے نائیک نے اپنےخودکشی نامہ میں صاف طور سے ارنب گوسوامی سمیت ریپبلک ٹی وی کے دو دیگر ذمہ داروں کو اپنی خود کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا پھر اس کی گرفتاری سے صحافی برادری میں واویلا کیوں؟ صحافت یا صحافی برادری کا وقار خطرے میں کیوں کر پڑ گیا؟عجیب و غریب منطق ہےیہ- پالگھر کے سادھوؤں کے قتل پر زہریلے تبصروں کہ اگر یہ سیدھے طور پر مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا گیاجو فرقہ وارانہ فساد کا سبب بن سکتا تھا’گو سوامی کا بالی ووڈ اداکاروں کے خلاف جھوٹے ہتک آمیز’ بے بنیاد خبر چلانے پر کاروائی کا نہ ہونا سونیاگاندھی ادھےٹھاکرے شردپوار کو ہتک آمیز الفاظ میں توہین کا نشانہ بنائے جانے پر’ تبلیغی جماعت کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے پر صحافی تنظیموں کا خاموش رہنا اور اب اچانک گو سوامی کی گرفتاری کو صحافی برادریوں کی بے وقاری پر محمول کرتے ہوئے احتجاج درج کرنا صحافت کو ذلالت کے کس گڑھے کی طرف لے جائے گا یہ سوچ کر ہر ذی شعور بے اودھو ٹھاکرے سونیا گاندھی شرد پوار کو بےحد ہتک آمیز الفاظ میں توہین کا نشانہ بنائے جانے پر’ تبلیغی جماعت اور دو مظلوموں نو کو خود کشی پر غصہ کر انہیں موت کے منہ میں میں ڈالنے والے گوسوامی کی گرفتاری کو صحافی برادری کی بے وقاری پر محمول کرتے ہوئے احتجاج درج کرانا صحافت کو زلالت کی کس گڑھے کی طرف لے جائے گا یہ سوچ کر ہر ذی شعور بے چین ہے کیوں کہ صحافت کے اس گرتے معیار سے جمہوری اقدار مجروح ہو رہا ہے اور آمریت کو تقویت مل رہی ہے جو ملک کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا- اب اخیر میں آئیے قانونی معاملے میں ملک گیر شہرت یافتہ ماہرین قانون کی رائے سے آپ کو روبرو کرایا جاۓ دوشنت دوے:- سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر دوشنت دوے نے ارنب گوسوامی کے پٹیشن کی فوری سماعت پر سخت الفاظ میں رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے بہت سے معاملے ہین جس پر بہ سرعت کاروائی نہیں کی گئی جبکہ ارنب کے پٹیشن دائر ہوتے ہی وہ لسٹ ہو گئی سپریم کورٹ کے (رجسٹری) جنرل سکریٹری سے یہ بھی استفسار انہوں نے کیا کہ ارنب کے پٹیشن پر فوری کارروائی کے لیے ایاچیف جسٹس ایس اے بوبڑے نے تو خصوصی فرمان جاری نہیں کیا تھا کیونکہ فہرست سے باہر مقدمات کو فہرست میں شامل چیف جسٹس کے فرمان کے بغیر نہیں کیا جاسکتا انہوں نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے کہ :یہ بے حد فکر انگیز بات ہے کہ "کورونا مہا ماری” کے دوران گزشتہ 8 مہینہ سے مقدمات کی لسٹنگ میں غیر جانب داری برتی جا رہی ہے دائر مقدمات کو سماعت کے لئے مہینوں تک فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا لیکن ارنب جب بھی سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں ہر بار انکا پٹیشن بہ سرعت فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے انہوں نے سوال کیا کہ کیا گوسوامی کو کو خصوصی اہمیت نہیں دی جا رہی ؟”انہوں نے کہا کہ جب کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ذریعہ اور آٹومیٹک ک لیول پر مقدمات کو فہرست میں شامل کیا جاتا ہے تو پھر اس طرح سیلیکٹیولسٹنگ Selective Listing کیوں ہو رہی ہے ایسا کیوں ہورہا ہے کہ مقدمات ادھر سے ادھر گھوم رہے ہیں وہ بھی کچھ خاص بنچوں میں سبھی شہریوں اور سبھی وکلاء آن لائن ریکارڈ (AORS) کیلئے مناسب اور غیر جانبدارانہ سسٹم کیوں نہیں انہوں نے تلخ انداز میں کہا کہ سسٹم کی خرابی کی وجہ سے گوسوامی جیسے لوگوں کو خصوصی مراعات دی جا رہی ہیں جبکہ عام شہریوں کو جیل جانے سمیت تمام طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انہوں نے سوال کیا کہ یہ دوہرا معیار کیوں؟انہوں نے سخت الفاظ میں کہا کہ جو حکمران جماعت سے قربت نہیں رکھتے جو غریب ہیں رسوخ والے نہیں ہیں جن کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ بن چکا ہے مقدمہ کیا وھ دوسرے درجے کے شہری ہیں؟ **پی چدمبرم** :-سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور معزز وکیل بھی چدمبرم نے گوسوامی معاملہ میں اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے شخصی آزادی کے معاملوں میں ایسے فیصلے سنائے ہیں جوآئین کے انتظامات سے میل نہیں کھاتے انصاف کا حق تمام شہریوں کے لیے برابر لیکن کچھ خاص لوگوں کے لئے بلاوجہ خصوصی مراعات انصاف کے متقاضی نہیں- **پرشانت بھوشن** عدالتی عظمی کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ سپریم کورٹ نے بجلی کے کرنٹ کی طرح گوسوامی کے مقدمہ کی سماعت کی لیکن جو لمبے عرصے سے جیل میں بند شخصی آزادی کے فریادی ہیں ان کی سماعت سے گریز انصاف کے تقاضوں کے یکسر منافی ہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا