۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر غلام نبی کمار کی کتاب ” قدیم و جدید ادبیات ” پر اب تک ان گنت جائزے اور مقالات ملک اور بیرون ملک کے نامی گرامی ادیبوں ، محققوں، نقادوں اور دانشوروں نے مختلف روزناموں، جریدوں اور کتابوں میں قلمبند کئے ہیں ۔ یہ کتاب اتنی مشہور و معروف ہے کہ اردو زبان وادب سے وابستہ شخصیات سمیت دیگر اردو سے دلچسپی رکھنے والے حضرات بھی اس پر ہر گزرتے دن اپنے تبصرے لکھتے ہیں۔ راقم کی نظروں سے بھی جب اس کتاب پر بے شمار تبصرے اور مکالمے گزرے ، تو اس نے ڑاکٹر غلام نبی کمار صاحب کو ٹیلفون کر کے اس کی رہائش گاہ واقع متصل درگاہ شریف حضرت شیخ نور دین ولی رح کمار محلہ چرار شریف جاکر انہی سے یہ کتاب حاصل کی ۔ راقم نے ۱۹۹۹ میں میٹرک پاس کیا ہے اور تب سے اردو زبان و ادب سے اسکا تعلق نہ ہونے کے برابر تھا لیکن ڑاکٹر غلام نبی کمار کی تصانیف اور اردو زبان کے تعین انکی لگن اور خدمت نے اسے بہت متاثر کیا اور آج بجائے انگریزی زباں کے وہ اردو میں لکھنا پڑھنا زیادہ پسند کرتا ہے ۔
یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوئی ہے اور یہ ۳۸۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں کمار صاحب نے بیس مضامین درج کئے ہیں جن میں اردو زبان و ادب کی سر بر آودہ شخصیات کے بارے میں بھی مضامین قلم کئے گئے ہیں ۔
اس کتاب میں کمار صاحب امیر خسرو کے بارے میں یوں رقمطراز ہے ” امیر خسرو ہندوستان میں ایک پختہ کار اور زہین فارسی شاعر تسلیم کئے جاتے تھے۔ فارسی میں انکا مرتبہ حافظ اور سعدی کے برابر سمجھا جاتا تھا ۔اگر فارسی شاعری میں کوئی "طوطئ ہند” پیدا ہوا تو وہ امیر خسرو ہیں ۔اگر خاک ہند سے کوئی "شکر سخن ” ابھرا تو وہ امیر خسرو ہیں ۔اگر عرفی جیسے خوددار شاعر نے کسی کی روح کو شکر پیش کی تو وہ امیر خسرو ہیں ۔”
اس کتاب میں ڑاکٹر غلام نبی کمار نے "مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری” پر بھی ایک مضمون قلم کیا ہے۔ انکے بارے میں مصنف لکھتے ہیں ” مولانا مملوک العلی عربی زبان کے جید عالم شمار ہوتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ اردو اور فارسی زبانوں میں بھی کمال کی مہارت رکھتے تھے۔ان تینوں زبانوں کے ہر قسم کے علم و فن سے وہ بخوبی واقف تھے۔”
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہند کی سرزمیں پر چند ایسے مشاہیر ادب نے جنم لیا جو ادبی دنیا کے افق پر چشمہ آفتاب کی مانند چمکے۔انہی میں ایک مومن بھی شامل ہے۔ مومن شناسی کے بارے میں ڑاکٹر غلام نبی اس کتاب میں لکھتے ہیں ” مومن شناسی کے سلسلے کی بات کی جائے تو اس میں پروفیسر ضیاءاحمد بدایونی کا نام سر فہرست ہے۔انکے بعد نیاز فتح پوری، عرش گیاوی ، امیر حسن نورانی وغیرہ بھی اس فہرست میں قابل ذکر ہیں ۔پروفیسر ضیاء احمد بدایونی کو مومن شناسی میں اولیت حاصل ہے۔”
برصغیر خاصکر ہندوستانی مسلمانوں پر سر سید احمد خان کے بے شمار احسانات ہیں ۔ سر سید احمد خان ایک بڑے مصلح اور سماجی مفکر تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی ہندوستانی قوم و ملت کی سماجی فلاح و بہبود کےلئے وقف کر دی۔ قدیم و جدید ادبیات کتاب میں کمار صاحب نے ایک مضمون بعنوان ” سر سید کے سماجی افکار کی عصری معنویت” قلم کیا ہے۔ اس میں یہ الفاظ درج ہیں ” میری یہ سمجھ ہے کہ ہندوستان میں دو قومیں ہندو اور مسلمان ہیں اگر ایک قوم نےترقی کی اور دوسری نے نہ کی تو ہندوستان کا حال کچھ اجھا نہیں ہونے کا۔بلکہ اسکی مثال ایک کانڑے آدمی کی سی ہوگی ۔لیکن اگر دونوں قومیں برابر ترقی کرتی جاویں تو ہندوستان کے نام کو بھی عزت ہوگی اور بجائے اسکے کہ وہ ایک کانڈی اور بڈھی بال بکھری ، دانت ٹوٹی ہوئی بیوہ کہلاوے، ایک نہایت خوبصورت، پیاری دلہن بن جاوے گی۔”
نواب مرزا خان داغ کو فخر ہندوستان، زبان اردو کے روح رواں ، شاعری کا گوہر شب چراغ جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ مذکورہ کتاب میں ڑاکٹر غلام نبی کمار داغ کے بارے میں ان الفاظ کا استعمال کرکے یوں رقم طراز ہے ” داغ دہلوی پیدائشی شاعر تھے اسلئے ابتداء سے ہی مشاعروں میں انکو داد ملنے لگی تھی۔انہوں نے فنی اختصاص، شیوہ گفتار اور زبان و بیان پر بے پناہ قدرت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنے عصر کو اپنا ہم نوا بنایا بلکہ اسے نئی سمت اور رفتار عطا کی۔سچا پن اور فطری پن انکی شاعری کا خاصہ تھا۔”
بلونت سنگھ کو اردو افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فنکار گردانا جاتا ہے ۔بلونت سنگھ نے چھے افسانوی مجموعے ، چار ناول تین ناولٹ اور کئی ڈرامے تحریر کئے ہیں ۔ کمار صاحب نے اس کتاب میں بلونت سنگھ کے بارے یوں لکھا ہے ” بلونت سنگھ کے سارے افسانوی مجموعے پاکستان سے شائع ہوئے ہیں ماسوائے افسانوی مجموعہ ” ہندوستان ہمارا ” جسکو الہ آباد سے سنگم پبلکیشیرز نے شائع کیا تھا۔یہ سب افسانوی مجموعے بلونت سنگھ کی زندگی میں اور زیر نگرانی ہی شائع ہوئے تھے۔”
"قدیم و جدید ادبیات ” کتاب ڑاکٹر غلام نبی کمار نے نور شاہ کے نام کی ہے جن سے جموں و کشمیر میں اردو فکشن کا ستارہ روشن ہے۔ نور شاہ کے بارے میں ڑاکٹر غلام نبی کمار اس کتاب میں ان الفاظ سے پڑھنے والوں کے زہن میں انکی شخصیت کے بھیج بوتے ہیں ” نور شاہ جو ادب کے کئی رنگوں سے مزین ہیں، انکا ادبی سرمایہ کافی وسیع اور وقیع ہے۔ جو گوناگوں صفات کے حامل ہیں، جن کا ادبی گراف کئی عشروں پر ہے، جو زمانے کی کئی تحریکات و رجحانات اور تجربوں سے گزر چکے ہیں، جو اگرچہ معمراور جسمانی اعتبار سے کمزور ہو چکے ہیں مگر زہن آج بھی تندرست و توانا ہے۔”
ڈاکٹر غلام نبی کمار ایک مخلص نوجوان قلمکار ، ادیب ، محقق اور نقاد ہیں ۔اس نے بہت کم عمری میں ہی وہ مقام اردو زبان و ادب میں پایا جسکو پانے کےلئے شاید عام طور پر دہائیاں لگتی ہیں ۔جس لگن اور خلوص کے ساتھ وہ اردو زبان و ادب کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں شاید وادی کشمیر میں ان سے پہلے آج تک ایسا کوئی ادیب پیدا ہی نہیں ہوا ہے ۔اردو زبان و ادب ہماری میراث اور تہذیب سے پوری طرح جڑی ہے ۔اسلئے اس زبان و ادب کی ترقی اور فروغ کےلئے ہم سب کو آگے آنا چاہیے ۔کمار صاحب کی خدمت اسی کی ایک کڈی ہے اور وہ اس سمت میں اپنی مثال آپ ہے۔ غلام نبی کمار نے ایم اے اردو کی ڈگری کشمیر یونیورسٹی سے مکمل کی۔اس کے بعد انہوں نے دو بار نیٹ کا امتحان بھی پاس کیا ہے۔ ایک بار جے آر ایف کے لئے بھی قوالفائ کیا۔ دہلی یونیورسٹی سے ڑاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔اسکے علاوہ وہ مختلف روزناموں اور رسالوں کے مدیر اور معاون مدیر کی حثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں جن میں روزنامہ لازوال، روزنامہ نیا نظریہ، پنجاب، دربنگھہ ٹائمز قابل ذکر ہیں ۔ کمار صاحب کے بارے میں خاص بات یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کے فروغ کےلئے انہوں نے ۲۰۱۸ میں ” شیخ العالم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی ” کا قیام عمل میں لایا ہے جو وادی اور ملک کے دیگر حصوں میں اردو کی خدمت کے لئے پیش پیش رہتی ہے۔
رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
راقم ایک کالمنسٹ ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے۔