حنیف ترین
بات1935سے پہلے یہودیوں کی کمینگی اور ان کی منافاقت کی ہورہی تھی جب جوانھوں نے جرمن قوم کے ساتھ کی تھی۔کس طرح انھوں نے لندن میں 1897میں پہلاسودی بینک قائم کرکے اور اس کی شاخیں پورے یوروپ اور جرمنی میں قائم پھیلاکران سودی پیسوں سے کس طرح وہ پورے جرمنی میں پھیل گئے تھے۔ ایک طرح سے انھوں نے ترقی کرکے تمام اقتصادیات پرقبضہ جمالیاتھا لہٰذا جب نازی پارٹی ہٹلر کی قیادت میں جیت کر حکومت پر قابض ہوئی اور اس نے نطشے کے فلسفے پرچلتے ہوئے اپنی قومی برتری کانعرہ لگایا تویہودیوں نے اس کی مخالفت کی۔اس کے ردعمل میں ہٹلر نے بے حد سختی برتتے ہوئے نہ صرف ان کی طاقت کو زیر کیا بلکہ ان کا قتل عام کرایا۔ حالانکہ پورا یوروپ ہٹلر کے اس قدم کی مخالفت کرتارہا بلکہ ان کی ہمدردی میں فوجی طاقت کا عندیہ بھی دیا جس کے نتیجے میں دوسری جنگ عظیم برپاہوگئی، جس میں جرمنی کے خلاف برطانیہ، فرانس اور روس آگئے۔ اس کے آگے کی باتیں آپ سب جانتے ہیں کہ کس طرح جرمنی نے برطانیہ پر بمباری کی کہ اسے کھنڈر بنادیاتھا۔ہوایوں کہ جب فرانس نے سلواکیہ پرقبضہ کرلیا اور روسی فوجوں کو جرمنی نے آسٹیلن گراڈ تک دھکیل دیا تواس وقت اکتوبرکامہینہ درپیش آگیا اور برف باری شروع ہوگئی۔ جرمن جرنلوں نے ہٹلر سے اس جنگ کوروکنے اور گرمیوں کے آنے پرحملہ بدستورجاری رکھنے کی درخواست کی مگر ہٹلر نے ان کی بات نہیں مانی اور اسٹیلن گراڈ پرقبضے کے لیے آگے بڑھنے کاحکم دے دیا۔ اس وقت سردی اتنی بڑھ گئی تھی کہ کوئی جرمن سپاہی اگرٹینک کو ہاتھ لگاتاتواس کی کھال جل جاتی ۔اس کے برخلاف روسی فوج سردی کی عادی تھی لہٰذاوہ مورچوں پرنہ صرف ڈٹے بلکہ جرمن فوج پربھرپورحملہ کیا اورانھیں ہتھیارڈالنے پرمجبور کردیا۔ یوںروس کے ہاتھوںجرمنی کی شکست کاآغازہوا۔
دوسری طرف امریکہ بھی یوروپ کے ساتھ مل گیا اوراس جنگ میں کودگیا۔ جرمنی کامحاذجنگ اتنا پھیلاہواتھا کہ وہ اسے سنبھال نہ سکا اور اس جنگ کاخاتمہ جرمنی (برلن) کی تباہی اورہٹلر کی خودکشی پرمنتج ہوا۔ جرمنی میں یہودی نہ صرف وہاں کی معیشت پرچھائے ہوئے تھے بلکہ سائنس و ٹکنالوجی میں بھی سب سے آگے تھے۔ لہٰذا1948کے بعدوہ کچھ امریکہ اور کچھ برطانیہ،فرانس اورروس چلے گئے۔ غور سے دیکھا جائے تو اسلحے کی ٹکنالوجی ان سب ملکوں میں جرمنی کی دین ہے کیوں کہ ہٹلر نے اپنی ساری انرجی اسی پرلگارکھی تھی کہ فوجی طاقت میں وہ اتنامضبوط ہوجائے کہ دنیا میں کوئی اس کا مقابلہ نہ رہے۔ مگرخدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور آخرکارظالم پر آکرگرتی ہے۔
کہاں کی بات میں کہالے آیا۔ بات آج کی ہونی چاہیے۔ آج نتن یاہو کی پوری کی پوری مددامریکہ کررہا ہے۔تبھی تو اس نے القدس میں نہ صرف اپنا سفارت خانہ قائم کرنے کااعلان کیاہے، جہاں فلسطینی اپنا دارالخلافہ بناناچاہتے ہیں بلکہ اس نے ایک قدم آگے بڑھا کر گولان پہاڑیوں پراسرائیلی قبضے کو باقاعدہ منظوری دی ہے اورصدی کی ڈیل نام کا ایک نیامنصوبہ بھی فلسطین پرتھوپنے کی کوشش شروع کردی ہے تاکہ یہودیوں کے ’گریٹراسرائیل‘کاخواب شرمندۂ تعبیرہوسکے۔ مگراس کی اس کوشش کونہ صرف فلسطینیوں نے بلکہ پوری امت مسلمہ نے بھی رد کردیاہے۔ گوکہ دبے لفظوں میں کچھ عرب ریاستوں نے اسے ماننے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
یہودیوں نے اسرائیل کو ایسی یہودی ریاست بنانے کااعلان کیا ہے جو اپنے وسائل سے دنیابھر کے تمام یہودیوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کیلئے ذمہ دارہوگا۔ اس طرح یہودیوں نے ہمارے یہاں ہندوتوا کواپناآلہ کاربنانے کی سازشوں پرعمل درآمد شروع کردیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک کے مسلمانوں کو زک پہنچانے اور ان کے آبادی کے تناسب کوبدلنے کی کوششیں جاری ہیں مگرملک کے سچے وطن پرست اب کھڑے ہورہے ہیں، جو ملک کے عوام کو یہودیوں کے عزائم سے باخبرکررہے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوںمیں روزنامہ آزاد میں ’ون ورلڈگورنمنٹ‘ کے عنوان سے شائع مضمون اسی کوشش کانتیجہ ہے،جس میں صہیونیت کے ناپاک عزائم پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یوں توپچھلے 72سالوں سے مسلمانوں کوہرجگہ مارا، کاٹااورجلایا گیاہے مگر بی جے پی اب توہمارے وجود کوبھی ختم کردیناچاہتی ہے۔اس نے اس کیلئے پارلیمنٹ سے قانون بھی پاس کروالیاہے۔ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اسی میں الجھ گئے ہیں۔جب کہ ہمیں اپنی بقا کے لیے اجتماعی جدوجہدکرنی چاہیے۔ اب یہ مسئلہ کسی اجتماع یا کانفرنس سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ہماری مادی ترقی اور دولت ہماری قبروں میں نہیں جانے والی لہٰذا ہم اسے جتنا ہوسکے قومی مفاد پرخرچ کریں تاکہ ہمارے بچے تعلیم کے زیورسے آراستہ ہوسکیں۔اس کے لیے ہمارے پاس اسکول ہونا چاہیے، ان میں اسلامی تربیت کانظم ہوناچاہیے۔ ہمارے پاس کالج ہوناچاہیے تاکہ ہمارے بچے ان میں پڑھ کرڈاکٹر، وکیل بن سکیں اورہمیں دوسروں کا محتاج نہ ہوناپڑے، کیوں کہ آنے والا وقت اوربھی سخت ہوگا، اس کی تیاری کرناہمارادینی فریضہ ہے۔ ہمیں نام نہاد اورخود کو مشہور کرنے والوں سے نہ صرف دوررہناچاہیے بلکہ ان کا بائیکاٹ بھی کرناچاہیے۔
اب پھرکچھ باتیں یہودیت اورصہونیت کی ہوجائے۔ اصل میں یہودیت اورصہیونی مسیحیت اور اسلام کے درمیان رقابت کو چودہ صدیاں بیت چکی ہیں۔ اس کی ابتدا اسلام کے آنے کے بعدہی شروع ہوچکی تھی اور آج تک جاری ہے۔ صلیبی جنگوں کا دور آج بھی جاری ہے،تبھی تو23مارچ 2003کوبش جونیئر نے ایک کلیسا میں حاضری کے بعدکہا تھاکہ آج کے ماڈرن دور میں پہلی صلیبی جنگ کے لیے ہم عراق پر چڑھائی کررہے ہیں جب کہ مسلمان ان جنگوں کوکب کا بھلاچکے ہیں۔ ابوظہبی نے اسرائیل سے دوستی کرکے نئی صلیبی جنگ کا اعلان کردیاجس طرح اس نے 1990میں اور پھر 2003میں امریکہ کاساتھ دے کرعراق کی تباہی میں حصہ لیاتھا۔ بہرحال اس دنیا میں مغربی طاقتوں اور امریکہ کے غلغلے کوتین سوسال کا عرصہ گزرگیا ہے جب کہ مسلمانوں نے بغیرکسی دوسری طاقت کی مددکے دنیا میں ایک ہزار سال حکومت کی ہے اور مسلمانوں کی یہ حکومتیں مغرب یا عیسائیت سے پسپا اور مغلوب نظرنہیںآتی ہیں۔ مسلمانوں نے عیسائیت کے زیرتسلط جہاں شام،لبنا ایشیا میں اورجنوبی افریقہ کو فتح ہی نہیں کیا بلکہ یورپ پربھی یلغار کرکے سسلی، اسپین، پرتگال اورفرانس کے کچھ علاقوں پربھی حکمرانی کی۔صلیبیوں نے ان علاقوں کی بازیابی کے لیے ایڑی چوٹی کادم لگایا مگر وہ کامیاب نہ ہوئے مگرپچھلے تین سوسالوں میں مسلمان دفاعی پوزیشن میں آگئے، تب سے عیسائی تہذیب نے دنیاپریلغار کردی ہے، جس میںچندمسلمان ممالک بھی شامل ہیں، مگر اب بھی زیادہ ترمسلمان اپنی تہذیب کی اب تک رکھوالی کررہے ہیں۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، تویہ ایک مائیگریٹ ملک ہے۔اس کی دریافت کولمبس نے کی تھی پھر یوروپی لوگوں کاوہاں غلبہ ہوگیااوروہاں کی لوکل آبادی ریڈانڈینس کویوروپین لوگوں نے اپنے بہترین اسلحہ سے شکست دے کر انھیں جنوب کی طرف دھکیل دیا۔اس کے بعد دنیا بھر سے لوگ آکروہاں آبادہوئے۔ جن میں90فیصد یوروپین گورے ہیں جو اپنے ساتھ کالے حبشی غلام بھی ساتھ لائے۔ اس کے علاوہ ایشیا سے بھی بہت سے لوگ بہتر روزی کیلئے وہاںآئے اور آبادہوگئے۔
امریکی کلچر یوروپی کلچر سے بہت مختلف ہے مگر یہاں کے لوگوں نے برطانیہ کی غلامی سے آزادی پاکرنئی نئی ترقیاں کیں اوروہ سائنس وٹکنالوجی میں بہت کافی آگے رہے۔ اس طرح انھوں نے اپنی معیشت کو بھی بے انتہارفتاردی۔ 1990میں روس کی شکست کے بعد امریکہ دنیا کاسپرپاورملک بن گیا اوردنیابھر میں لبرل جمہوریت کادعوے داربھی ،مگرآہستہ آہستہ یہاں بھی جمہوریت کی جڑیں ہلنے لگی ہیںکیوں کہ سرمایہ داروں نے جہاں ایک طرف حکومت کوگھیر رکھاہے، وہیں ایسا لگتا ہے کہ وہاں کی جمہوریت کا فیصلہ گورے کررہے ہیںاور آہستہ آہستہ یہ جمہوریت بھی اپنے دن اب گننے میں لگی ہے۔
دوسری بات کورونا کی وجہ سے امریکہ کی معیشت بھی ڈانواڈول ہے۔ اگر یہی حالات بدستور 6ماہ اوررہے توامریکہ کواپنے قیمتی کارخانوں، جہازوں اورفضا میں موجود راکٹوں نیزایٹمی اسلحہ جات کومحفوظ رکھنے، اوردوسرے پروجیکٹوں کے جاری رکھنے میں مشکلات کاسامناکرنا پڑسکتاہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پراپنا کنٹرول بنائے رکھنے کیلئے دنیابھرمیں موجودفوجی اڈوںوغیرہ کی دیکھ بھال پرفرق پڑناشروع ہوجائے گا اورپھرامریکہ کو وہ ممالک پیسہ دینا بند کردیںگے جواپنی حفاظت کے لیے امریکہ کے مرہون منت ہیں۔ کووڈ19کی وجہ سے ایک نئی دنیاکے وجود میں آنے کا احتمال پیداہوگیا ہے۔دوسری طرف وہ ممالک جن کی معیشت کوکمزور کرنے کیلئے امریکہ نے سخت اقدام کیے ہیں جیسے ایران ، جاپان وغیرہ، وہ بھی اپنے اوپرڈھائے گئے مظالم کابدلہ کسی نہ کسی صورت میں ضرورلیں گے۔ ہیروشیما،ناگاساکی پرایٹم بم گرانے والے یہ نہ بھولیں کہ جاپان ہمیشہ یوں ہی دبانہیں رہے گا، وہ بڑی بہادر قوم ہے۔ بالکل جرمنوں کی طرح، وقت آنے پروہ بھی اپنی ٹیڑھی ٹیڑھی آنکھیں ضرورپھیرلیں گے۔
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اسرائیل دنیا میں پھیلی ہوئی اپنی یہودی انجمنوں کی مددسے چل رہاہے، جس میں امریکہ کے یہودی کافی اہم ہیں ،جن کے خلاف آنے والے وقت میںامریکی عوام خاص طورسفیدفام مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں کیونکہ ان یہودیوں کی اصل ہمدردیاں امریکہ سے زیادہ اسرائیل سے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ سازشیں یہودیوں نے ہی کی ہیں اور مستقل کررہے ہیں۔ آج کے دور میں اس کی مثال میڈیاہے۔ انسانی ذہن پر آج سب سے زیادہ اثر میڈیا ہی کاہے۔آپ غور سے دیکھیںگے تو شاذونادر ہی ایسی خبریں ملیں گی جومسلمانوں کے موافق ہوں۔ زیادہ ترخبریں مسلم مخالف ہی ہوتی ہیں۔یہ بات شاید کسی سے پوشیدہ نہ ہو کہ دنیا کے سارے میڈیا کویہودی ہی چلاتے ہیں۔
مغرب آہستہ آہستہ تباہی کی طرف گامزن ہے۔ اس کی ایک اوروجہ وہاں پر شہوانی انارکی کاعام ہونا بھی ہے۔ جوان لڑکے لڑکیاں اس قدر اخلاقیات سے دور ہیں کہ ان میں زیادہ ترنہ صرف بغیرشادی کے ایک ساتھ رہتے ہیںبلکہ اس اختلاط سے بچے بھی پیداکرتے ہیں اوران بچوں کو وہاں کی حکومتیں پالتی ہیں۔ صرف برطانیہ میں اس وقت 40فیصد ایسے ہی بچے ہیں۔ یوروپ اورامریکہ میں گھرٹوٹ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب گھربسانے کی سوچ ہی ختم ہوجائے گی تو مغربی معاشرے کا کیابنے گا؟ وہ لوگ جنھوں نے محنت مشقت کرکے ان ملکوں کوبنایاہے، وہ اب بوڑھے ہورہے ہیں اور ان بزرگوں کوان کے بچے سرکاری گھروں(اولڈایج ہوم) کے حوالے کررہے ہیں جہاں پرکھانا پینا اور تنہائی کے سواکچھ نہیں۔ یہ سب آزادیٔ نسواں اور گورنمنٹ کی دی ہوئی اس آزادی کانتیجہ ہے جس کا کوئی اور ہے نہ چھور۔ اتنی آزادی کے بعد مغربی ملکوں میں سب سے زیادہ عورتوں کے ساتھ زیادتی کی شرح بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ اس مادہ پرستی کا ہی نتیجہ ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب نے اپنے لوگوں کودی ہے۔ جب ہم ماضی کے اوراق پلٹتے ہیں تورومی اوربابل کی تہذیبیں اپنے اپنے وقتوں میں نہ صرف قوی ترین رہی ہیں بلکہ مشہور ومعروف بھی تھیں وہ بھی اسی جنسی انارکی کی وجہ سے کمزور ہوئیںاورختم ہوگئیں۔ یہی حال اس وقت مغربی تہذیب کاہے لہٰذا اگلے دوتین دہوں میں یہ قوتیں خودبخودختم ہوجائیں گی !
Mobile : 9971730422
tarinhanif@gmail.com