معصومیت کا فائیدہ ،پیار و محبت کے جھال میں پھنسا کر عصمت دری وبہمانہ قتل
درندگی کی انتہاہ،انسانیت مر گئی یا انسانی معاشرہ سوگیا ؟
از قلم : مظفر احمد وانی
پیار و محبت کے جھانسے میں کسی لڑکی کو پھنسا کر اس سے جنسی تعلقات قائم کر کے اس حاملہ بنا کر پھر سازش رچ کر اس کابے دردی سے قتل کرنا تو ایسا لگ کے ہے کہ یا توانسان کے اندر انسانیت مر چکی ہے یاپھر سماج کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔ بنتِ ہوا کو انسانی معاشرے میں جس عزت، نگاہ اور قدر سے دیکھا جاتا تھا لگ رہا ہے کہ ی بنت ہواوہ مقام کھو رہی ہے اور اسے ہوس کا شکار بنا کر استعمال کر کے جہاں چاہئے بے خوف قتل کر کے اس سے ہمیشہ کے لئے چٹکارہ پایا جا سکتاہے ۔انسانی معاشرے میں عورت کو جو مقام حاصل ہے کیا وہ ابھی برقرار ہے یا اب اس کی قدر گھٹ کر رہ گئی ہے ؟ یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے ۔ معصوم لڑکیوں کو پیار کے جھال میں پھنسا کر اُن سے جنسی تعلقات قائم کر کے بعد میں انہیںبے دردری اور درندگی کا رویہ اپنا کر قتل کر دینا انسانیت کو سرمشار کر نے کے مترادف ہے ۔ خواتین کی آبروریزی ،عصمت دری کی وارداتیں آئے روز اخبارات کی سُرخیاں بنتی ہیں اور چند روز تک شور وغل کے بعد یہ معاملہ پھر ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔گھر ہو یا دفتر ،پارک ہو یا بازار، ٹرین بس ہو یا کوئی سنسان جگہ اُن کی عصمت پر حملے ہونا آئے روز کا معمول بنا ہوا ہے ۔کھبی معاملہ عصمت دری پر رُک جاتا ہے تو کھبی ظلم کی شکار خاتون کو زبردستی یا معصومیت کا فائیدہ اُٹھا کرپیار محبت کے جھال میں پھنسا کر کھبی کھبی انہیں جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی عصت دری کی ہے جس میں کئی لوگ کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بنا کر پھر بڑے درر ناک طریقے سے اسے قتل کر دیتے ہیں ۔
شہروں میں ایسے واقعات کا رونما ہونے کے بعد جہاں دنوں تک لوکل اور نیشنل ٹی وی چینلوں پر یہ بحث کا مدعا بن رہتے ہیںوہیں گائوں دیہات میں ہمارے چینل اور اخبارات دوسرے تیسرے پیچ پر اسے ایک خبر دکھا کرپھر بھول جاتے ہیں ۔
ایسا ہی ایک واقع مرکز کے زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع رام بن کے سب ضلع بانہال میں پیش آیا جہاں ایک لڑکی کو پیار و محبت کے جھانسے میں پھنسا کر اس سے جنسی تعلقات قائم کر کے جو وہ حاملہ ہو گئی تواسے بہت ہی شاطر طریقے سے بے رحمی سے قتل کر دینے کی ایک واردات گذشتہ دنوںسامنے آئی ہے۔اور ایک ماہ تک کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلنے دیا ۔ تاہم اس معاملے میں پولیس اور اور مقامی میڈیا نے قابل ستائش رول نبھا کر ملزمین کو 48گھنٹوں کے اندر گرفتار کر کے اس اندھے قتل کو طشت از بام کر دیا ۔بانہال کے سلاڑ ناچلانہ علاقہ سے تعلق رکھنے والی ایک شبینہ نامی لڑکی کو دو درندہ صفت اشخاص نے پیار محبت کے جھال میں پھنسا کر اس سے جنسی تعلقات قائم کر کے جب یہ حاملہ ہو گئی توحمل گرانے کے لئے جب یہ دو درندہ صفت انسان کامیاب نہ ہوئے تو اُنہوں نے بے دردری کے ساتھ ایک جنگل میںلیکر اس کا قتل کر دیا اور خود ایک مہینے تک بے خوف گھومتے رہے ۔ تاہم لاش ملنے کے فوری بعد ضلع ایس ایس پی رام بن حسیب الرحمان کی قیادانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ان کے ماتحت ایس ایچ اوبانہال عابد حسین بخاری اور ایس ڈی پی او بانہال آشش گپتا نے پروفیشنل طریقہ کار کا استعمال میں لا کر لاش ملنے کے صرف 48گھنٹوں کے اند اندرقاتلوں کو گرفتار کر کے ایک بڑی کامیابی حاصل کر کے دونوں کو سلاخوں کے پیچھے دکھیل کر اس خوف ناک قتل سے پردہ اُٹھا دیا۔
معاملہ کچھ اس طرح کا ہے کہ بانہال کے کھڑی علاقے میں ریلوے پروجیکٹ کے ایک تعمیراتی کمپنی میں بطور ڈرائیور کام کر رہا ضلع ڈوڈہ کے کاستی گڑھ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک عاشق حسین نامی شادی شدہ شخص نے پروجیکٹ سائٹ کے نزدیک سلاڑ ناچلانہ کی رہنے والی شبینہ نامی ایک لڑ کی کو اپنے پیار محبت کے جھانسے میں پھنسا دیا ۔ اور کئی ماہ تک اس جھانسہ کے دوران اس سے جنسی تعلقات بھی قائم کئے جس کی وجہ سے یہ حاملہ ہو گئی ۔ اس جھانسے میں اس شخص کا ساتھ بانہال کے چنجلو علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص نثار احمد زوہدہ بھی شامل ہے جو کہ اس ڈرائیور کا ہیلپر بتایا جاتا ہے اس کے بھی اس لڑکی سے اپنی ساتھی کی وجہ سے قریبی رشتے بن گئے تھے اور لگاتار لڑکی کو بلیک میل کر رہے تھے۔ کمپنی کا کام ختم ہو نے کے بعد انہیں کام سے نکال باہر کر دیئے جانے کے بعد ان دونوں شاطروں نے لڑکی کا حمل گرانے کی کوشش کی اور اس بارے میں طبی مدد لینے کی بھی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہو نے کے بعد لڑکی کے پیٹ میں موجود حمل پولیس کے مطابق تقریباً چھ ماہ میں داخل ہو چکا تھا ۔ حمل گرانے میں کا میاب نہ ہونے پر ان دونوں درندرہ صفت شاطروں نے لڑکی کو قتل کر نے کی سازش رچ لی ۔ پولیس ریکاڑ کے مطابق 29 جون 2020کوگھر سے نکلی شبینہ نامی اس لڑکی کے ساتھ کاستی گڑھ ڈوڈہ سے تعلق رکھنے والا یہ شخص عاشق حسین اپنے دوسرے مقامی ساتھی نثار احمد زوہدہ کے ساتھ لگاتار رابطہ میں تھا اور اس معاملے کو کسی بھی طرح نپٹانے کے لئے کہہ رہا تھا ۔ اس روز نثار نے بلاآخر لڑکی کو گھر سے یہ کہہ کر فون پر بانہال قصبہ میںیہ کہہ کر آنے کے لئے کہا کہ کاستی گڑھ کا لڑکا عاشق حسین آپ سے شادی کر نے کے غرض سے آپ کو لینے کے لئے آرہا ہے تو اسے فوری طور پربانہال بازار پہنچانا ہو گا ۔ گرفتار شدہ نثار نے پولیس کو بتایا کہ جب وہ بانہال قصبہ میں پہنچی تو اُس نے اُسے بانہال ڈولیگام کے اوپھری جنگلوں کی طرف لیا اور کہا کہ اس سے شادی کر نے والا عاشق اسی جگہ پر آ رہا ہے تاکہ وہ آپ کو پہاڑی راستے سے رازداری سے لے جاسکے ۔ لڑکی کے پاس اس سے شادی کر نے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ بچا تھا اور وہ اس کے ساتھ چلنے کو راضی ہوئی کہ عاشق اس کا انتظار کر رہا ہے۔ نثار اسے ڈولیگام کے اوپری چھان کوٹ نامی جنگل کی طرف لے گیا اور شام ہونے کے بعد وہاں موجود ایک گوجر ڈھوک میں پناہ لینے کے لئے کہا کہ جب تک ڈوڈہ سے اس کا عاشق پہنچ جائے ۔ گوجر ڈھوک میں رات گذارنے کے بعد دوسرے روز یعنی 30جون 2018کو یہ یہاں سے اوپری جنگل کی طرف نکل پڑے ۔ اس درندہ صفت انسان سے پولیس بیان میں بتایا کہ دوپہر دو بجے تک یہ اسے جنگل میں گھماتا رہا اور یہ کسی سسنان جگہ کی تلاش کر رہا تھا ۔ پولیس کو دیئے گئے بیان کے بعد اسی روز دوپہر دو بجے کے قریب جب اس نے ایک سسنان جگہ دیکھی تو لڑکی اس سے سوال کر نے لگی کہ وہ کہاں ہے وہ کیوں نہیں آرہا ہے اس دوران ان کے بیچ توں توں میں میں بھی ہوئی ۔ تھک کر جب یہ دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے تو اس شاطر قاتل نثار نے وہاں موجود ایک پتھر سے اس کے سر پر وار کر دیا جب لڑکی چلانی لگی تو لگاتار اس پر وار کرتا رہا ۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ لڑکی مر گئی تو اس نے اسے کھینچ کر ایک جھاڑی کے نیچے چھپا کر خود وہاں سے فرار ہو گیا اور وہاں نزدیک ایک کلو میٹر کی دوری پر واقع اس کی بہن کے گھر میں پناہ لی ۔قتل کے بعد نثار کو رات کو اسے یہ ڈر ستانے لگا کہ لڑکی کئی زندہ تو نہیں ہو گی اسے دوبارہ دیکھنے جانے کے لئے اس نے پلان کر کے بہن کے بچوں کو سیر پرجانے کے لئے اسی علاقے کی طرف راضی کیا ۔ اور کلھاڑا و ایک ٹوکا لیکر بچوں کے ساتھ نکل پڑا تاکہ وہاں سے وہ کچھ لکڑیاںاور کلھاڑے و یگر گھر میں استعمال ہونے والے سندر کے لئے لکڑی کے ہینڈل وغیرہ بھی لا سکیں۔ بچوں کو لاش کے مقام سے تھوڑی دور رکھ کر انہیں کھیل کود کرنے کے لئے کہا اور خود لاش کی جگہ پہنچ گیا اور باڈی کو مردہ حالت میں دیکھ کر اس لڑکی کے جسم کو جلد سے جلد ختم کر نے کے لئے اس کا سر اور بازو اس کے جسم سے الگ کر کے اس کی چپل و غیرہ ایک پتھر کے نیچے چھپا دیئے جبکہ بتایا جاتا ہے اس وقت اس نے باڈی کو جلد گل سڑنے کے لئے تیز آب جیسے کمیکل کا استعمال بھی اس کے جسم کے اوپر کر دیا اور خود وہاں سے دوبارہ نکل گیا۔اس دوران وہ اپنے بہن کے چھوٹے بچے یعنی بھانجے کے رابطے میں رہا اور اسے لگاتار علاقے میں کسی شور و گل ہونے یا کسی دوسری چہل پہل کے بارے میں پتہ کرتا رہا تاہم یہ بھانجا جو کہ اس معمالے سے بے خبر تھا اور وہ حسب معمول حال چال بتاتا رہا ۔ اسی اثنا میں تقریباً ایک ماہ کے عرصے کے بعد 30جولائی کو وہاں سے گذر رہے ایک چروائے نے چھاڑیوں کے نیچے اس لڑکی کے کپڑے اور جسم کے بچے کچھ حصوں کو دیکھ کو ساتھ میں واقع فوجی کیمپ اور پولیس کو مطلع کیا کہ یہاں پر ایک سڑی ہوئی خاتون کی لاش پڑی ہو ئی ہے ۔ یہ خبر ملتے ہی بانہال پولیس اسٹیشن سے ایس ایچ او عابد حسین کی قیادت میں پولیس کی ایک ٹیم مکچھ مقامی رضاکاروں کے ہمراہ جائے موقع پر پہنچی اور لاش کو اپنے سُپرد میں لیکر سب ضلع ہسپتال بانہال پہچان اور پوسٹ مارٹم کے لئے پہنچایا ۔ پولیس نے یہ خبر پھیلا دی کہ ڈولیگام کے اوپھری جنگلوں میں ایک لڑکی کی لاش ملی ہے جکس کی عمر انداز سے 20سال کے قریب لگ رہی ہے اس دوران گھر سے لاپتہ شبینہ کے گھر والے اور رشتہ دار بھی لاش کو دیکھنے کے لئے پہنچے اور اس کی کلائی میں لگا ایک کڑا اور کپڑوں سے اسے پہنچان کر بتایا کہ یہ اُن کی ہی لڑکی ہے جو کہ 29جون سے گھر سے لاپتہ تھی لیکن اس بارے میں گھر والوں نے کسی بھی نزدیکی پولیس اسٹیشن میں کوئی بھی رپورٹ درج نہ کی گئی تھی ۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ لڑکی کے گھر والوں کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ لڑکی حمل سے ہے اور اس کا عاشق اسے لیکر گیا ہے اور وہ عزت کے خاطر اس معاملے کو دبا کر ہی رکھے لیکن لاش ملنے کے بعد اُنہوں نے لاش کو پہنچانے سے انکار نہ کیا شاید اُنہیں یقین تھا کہ یہ درندہ صفت انسان اس سے شادی کرے گا اور اسے قتل کر نے کی ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتا تھا جس کی وجہ سے وہ پولیس یا مقامی سطح پر اس معاملے کو بتانے سے قاصر رہے ہو نگے ۔ لڑکی بھی اپنی پردہ درہ کے خاطر ان کے کہنے کے مطابق ان کے ساتھ جنگل کی طرف چلنے کی طرف راضی ہو گئی اور عاشق نثار کو اپنے گھر ڈوڈہ سے لگاتار فون پر رابطے میں تھا اور ڈائریکشن دیتے رہا جب تک کہ اس کا قتل کر دیا ۔ لاش ملنے کے فوری بعد پولیس نے ایس ایس پیرام بن کی قریبی نگرانی میں لڑکی کا فون نمبر حاصل کر کے فون ٹریسنگ کے ذریعے دو ملزمین کو صرف 48گھنٹوں کے اندر ہی گرفتار کر لیا ۔ پولیس نے اس معاملے میں قتل کے علاوہ دیگر متعلقہ دفعات کے تحت کیس درج کر کے مزید تحقیقات میں جٹ گئی ہے اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس اندھے اور بے دردانہ قتل میں ان لوگوں کے ساتھ کوئی اور تار تو نہیں جوڑے ہوئے ہیں اور ہر زوائے سے اس کی باریک بینی سے جانچ میں جٹی ہو ئی ہے ۔ مقامی سطح پر پولیس کی اس کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کی مانگ کی جا رہی ہے ۔ اس بہمانہ قتل کی واردات سُن کر علاقے کی ہر آنکھ پر نم ہے اور لوگ اپنے بچوں خاص کر بچیوں کی حفاظت کو لیکر تشویش مند ہیں ۔
ایس ایس پی حسیب الرحمان کے مطابق اس طرح کا یہ قتل انکے پولیس ریکاڑ میں اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے اُنہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس میں جو بھی ملوث ہو گا اسے بخشا نہیں جائے گا ۔میڈیا کو اس واقع کی بریفنگ دیتے ہوئے اُن کی آنکھیں بھی چھلگ گئی اور جذباتی انداز میں اُنہوں نے کہا کہ شاید انسانی معاشرے میں لڑکیوں کی قدر نہیں ۔
لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا سماج کس اور کی طرف جا رہا ہے جہاں انسان خاص لڑکی کی کوئی قدر نہ جان کر استعمال کر کے اسے بے دردری سے قتل کر دیا جاتا ہے ۔ سماج کے ٹھیکداروں ، سماجی کارکنوں ، مذہبی رہمنائوں،انسانی حقوق کے علم برداروں اور والدین و رشتہ داروں ، ہمسائیوں اور گھر والوں کی کیا یہ ذمہ داری نہیں بنتی ہے کہ وہ اپنے آس پڑوس میں ایسے جرائم پر نظر رکھیں ۔ والدین اپنے بچوں کے تئیں اتنے بے فکرکیوں، اور بچوں کی پرورش اور انہیں اخلاقی و دینی تعلیم سے سرفراز کرنا کیا والدین کی ذمہ داری نہیں بنتی ۔ اپنے بچوں کو ٹائم نہ دینا انہیں بُریے اور غلط کی تمہیز نہ سمجھانے کے لئے آخر کار ذمہ دار کون ؟ تمام چیزوں کو پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کہاں تک کی سمجھداری کی بات ہے ۔ بچے یا بچی سے کسی غلطی کا ارتکاب ہونا اور اس غلطی کا سُدھا ناکیا والدین اور سماج کے ٹھکیداروں ، رشتہ دوران و ہمسائیوں کا فرض نہیں یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جس پر خود احتسابی کی ضرورت ہے ۔اس لڑکی شبینہ کی ہی مثال لیجئے پولیس کا کہنا ہے کہ اگر بروقت پولیس کو اس کے بارے میں مطلع کیا جاتا تو اس کے فون ٹریسنگ انہیں بروقت پکڑ کر اس کی زندگی کو بچایا بھی جا سکتا تھاچونکہ یہ لگاتار دو دن تک جنگل میں اس درندہ صفت قاتل کے ساتھ گھومتی رہی لیکن ایک ماہ تک پولیس کو اس بارے میں مطلع تک نہ کیا گیا نہ ہی گھروں والوں سے اور نہ ہی ان کے کسی رشتہ داروں یا ہماسائیوں نے اس بات کی زحمت گوارہ کی اس کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو دی جائے ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے بچوں ،اور اپنے ارد گردیا سماج کے تئیں کتنے فکر مند اور سنجیدہ ہیں ۔ جدیدیت کے اس دور کے ساتھ جہاں انسان ترقی کے منازل طے کرتا جا رہا ہے وہیں انسان تیزی سے درندگی کا رخ بھی اختیار کرتے جا رہاے اور اور اس سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انسیانت مر رہی ہے اور سماج سو رہا ہے ۔مذہبی رہمنائوں ، اساتذہ ، سماجی کارکنوں اور سب سے زیادہ والدین کو اپنے بچوں کی بہتر پرورش اور انہیں غلط اور صیح کی پہچان دے کر انہیں اخلاقی تعلیمی سے سرفراز کرنا ہر کسی والدیں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے ۔اپنے بچیوں اور بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا کیا والدین اور سماج کی ذمہ داری نہیں ۔ماہ ، بہن بیٹیوں کی عزت اور
عظمت کے بارے میں بچوں کو واقف کرانا سماج کے ہر فرد کا فرض ہے ۔ اس کے علاوہ ایسے درندہ صفت انسانوں کیے خلاف سخت سے سخت سزا کے بعد ہی ایسے جرائم اور گناہوں کو روکا جاسکتا ہے ۔ شہر اور دیہات کی طرف میڈیا اور پولیس کو یکساں روک نبھانا ہو گا ۔ سالوں سال عدالتوں میں ایسے کسیوں کو لٹکانے کے بجائے فاسٹ ٹریک بنیادوں پر اس کے فیصلے لئے جانے چاہئے تاکہ خواتین کے حقوق اور ان کی عزت و آبرو کو بچایاجا سکے ۔ نوجوان لڑکیوں کو بھی ایسے واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ وہ انجان لوگوں سے دوستی کر کے ان کے جھانسوں میں نہ پھنس کر اپنی زندگیوں کے ساتھ نہ کھلیں ۔ جبکہ آوارہ بد چلن اور ایسے درندرہ صفت انسانوں کو سبق آموز سزا دے کر دوسروں کو ایسے جرائم انجام دینے کی سوچنے پر بھی ان کا روح کانپ اُٹھناچاہئے ۔ اس واقع سے جہاں بانہال کا پوار علاقہ ماتم کناں ہے اور ہر آنکھ پُر نم ہے وہیں ابھی تک پولیس بھی اس معاملے میں ایک بہتر رول نبھاتے نظر آ رہی ہے اور اُمید ہے کہ ایسے قاتلوں کو عبرت ناک سزا ہو گی ۔
کالم نویس سابق صحافی اور فری لانس رائٹر ہے ۔ muzafarwane@gmail.com
9858239083