مسلسل جدوجہد ہی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے

0
0

خواجہ یوسف جمیل
بائیلہ منڈی، پونچھ

ہمارے ملک ہندوستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کے حصول تعلیم میں آج بھی کئی بندشیںدیکھنے کو ملتی ہیں جن کی وجہ سے خواتین تعلیم کے میدان میں وہ مقام حاصل نہیں کرپاتیںہیں جس کا ان کے دل میں جذبہ ہوتا ہے۔لیکن تمام بندشوں کے باوجودکچھ طالبات ایسی بھی ہوتیں ہیںجو تمام تر مشکلات کو پس پردہ رکھ کر کامیابی کی جانب گامزن ہوجاتی ہیں اوراپنی تعلیمی راہ میں پیدا مشکلات کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ہنر پال لیتی ہیں جس کی بدولت انہیں کامیابی ملتی ہے۔انھیں میں سے جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی کئی طالبات ہیں جنھوں نے اپنے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے ایسے سماج سے جنگ کی ہے جہاں آج بھی گھر میں لڑکے کے بجائے لڑکی پیدائش پر والدین کے ماتھے پر بل پڑنے لگتے ہیں ۔ نومولود بچی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیںاور آج بھی عورتوں کو وہ مقام دینے کو تیار نہیں جس کی وہ حقدار ہیں۔
ضلع پونچھ کے تحصیل مہنڈر کے گاؤں چھترال کی آسیہ فردوس اپنی حصول تعلیم کے بارے میں کہتی ہیں کہ’’ میں نے تعلیم حاصل کرکے کسی اعلی مقام پر پہنچنے کے خواب تو دیکھا تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میری تعلیمی زندگی کا راستہ اس قدر پر خار ہو گا ‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’میں نے بارہویں جماعت کا امتحان اپنے گاؤں کے ہائرسکینڈری اسکول سے پاس کیا ۔اس کے بعد جب میں نے کالج میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا تو میرے لیے ایک تو گھر والوں سے اجازت لینامشکل تھا ۔ کسی طرح لڑائی جھگڑا کر کے میں نے اپنے گھر والوں کو کالج میں داخلہ لینے کے راضی کرلیا۔لیکن کالج میں داخلہ لینے کے بعد مجھے ان گنت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔جب میں گھر سے کالج کی طرف نکلتی تھی تو مجھے گاڑی کے لیے گھنٹوں سڑک پر انتظار کرنا پڑتا تھا ۔اگر قسمت سے گاڑی مل بھی جاتی اور سیٹ پر کسی مرد کے ساتھ بیٹھنا پڑتا تو لوگ ہماری اس مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ہمیں حقیر نگاہوں سے دیکھتے تھے ۔لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود میں نے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا ۔
تین سال کا کورس مکمل کرنے کے بعد میرے سامنے ایک اور دیوارشادی کی صورت میں کھڑی ہوگئی،میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یونیورسٹی جانا چاہتی تھی۔لیکن جب میں بی اے آخری سال کے امتحانات دے رہی تھی تو گھر والوں نے میری شادی کروا دی،چونکہ شادی کے بعد ذمہ داریوں میں اکثر اضافہ ہوجاتا ہے اس لیے اب میںیہ تصور کرنے لگی کہ میں بھی باقی لڑکیوںکی طرح تعلیم مکمل نہیں کرپاؤں گی۔ کیوں کہ ضلع پونچھ میں ابھی تک کوئی یونیورسٹی نہیں ہے، اس لیے تعلیم جاری رکھنے کے لیے مجھے راجوری یا جموں جانا پڑتا،میرے ساتھ بارہوں جماعت میں لڑکیوں کی کثیر تعداد اسکول جاتی تھی۔ لیکن کالج میں صرف چھ لڑکیاں ہی داخلہ لے سکیںتھیںبلکہ بی اے کے آخری سال میں ان چھ لڑکیوں میں سے صرف دو ہی امتحان حال تک پہنچ پائیں، اس لیے مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اب( شادی کے بعد )مجھے بھی اپنی تعلیم قربان کرنی پڑے گی۔لیکن میرے ساتھ میری سوچ سے برعکس معاملہ ہوا ۔شادی کے بعد جب میں سسرال پہنچی تو میں نے تعلیم یافتہ گھرانہ پایا، جنھوں نے میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے مجھے تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دیدی۔آج میں ’بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی ‘راجوری میں اردوسبجیکٹ میں ’ایم اے‘ کررہی ہوں ۔میرے دو بچے بھی ہیں اور مجھے امید ہے کہ میں میری محنت رنگ لائے گی اور میں کسی اعلی مقام تک پہنچوں گی۔‘‘ آسیہ مزید کہتی ہیں کہ’’ ہمارے معاشرے میں پنپنے والی بہت ساری برائیاں لڑکیوں کی تعلیم پر اثر انداز ہوتی ہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
حکومت کی جانب سے ضلع پونچھ کوتعلیمی میدان میں نظر اانداز کرنا سمجھ سے باہر ہے ۔ ایک طرف ڈیجیٹل انڈیا کے سنہرے خواب دکھائے جا رہے ہیںاوردوسری طرف آج بھی اسکولی بچوں کو کئی گھنٹوں کا پیدل سفر طے کرکے اسکول تک پہنچنا پڑتا ہے پھربھی ہم تعلیم حاصل کرنے کے لیے متعدد خطرات اٹھاتے ہیں‘‘۔ وہ لڑکیاںجو یہ کہہ کر تعلیم چھوڑ دیتی ہیں کہ شادی کے بعد تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے انھیں’ آسیہ‘ کے تعلیمی سفر سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، تمام مشکلات کے باوجود انھوں نے اپنی تعلیم جاری رکھ کر یہ ثابت کردیا کہ اگر انسان کے دل میں کچھ کرنے کا جذبہ ہو تو کامیابی خود بخود انسان کے قدم چومتی ہے۔
ضلع پونچھ کے سرحدی علاقہ شاہپورہ کی چودھری ناظمہ شفیع نے اپنی تعلیم کے حوالے سے بتایا کہ انھوں نے اپنی تعلیم کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کیا لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔وہ کہتی ہیں کہ’’میں نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے آبائی گاؤں کے اسکول سے شروع کی جہاں تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا،پھربھی میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی ۔چھٹی جماعت کے بعد تعلیمی نظام میں کچھ تبدیلی لائی گئی اور میں نے اپنے آبائی گاؤں سے ہی دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد میں نے ہائرسکنڈری اسکول سے بارہویں جماعت میں داخلہ لیا، باقی بچوں کے ساتھ ہر روز دس کلومیٹر پیدل سفر طے کرکے مجھے بھی اسکول تک پہنچنا پڑتا تھا۔کیونکہ اس علاقے میں نہ تو سڑک تھی اور نہ ہی گاڑیوں کا کوئی نظام تھا ۔سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے جب فائرنگ شروع ہوتی تو ہم پر قیامت کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے تھے۔ہم فائرنگ کے دوران پہاڑوں کی اوٹ میں چھپ کر اپنی جان بچاتے تھے۔اس سرحدی کشیدگی کی وجہ سے کئی بچوںنے اپنی تعلیم چھوڑ دی، لیکن میں اس جذبے سے اسکول جاتی رہی کہ پڑھ لکھ کر اپنے علاقے کی آواز بنوں گی اور اس سرحدگی کشیدگی کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرونگی۔
بارہویں جماعت میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد2017میں میںنے ڈگری کالج پونچھ میں داخلہ لیا۔یہ میری تعلیم کا سب سے مشکل لمحہ تھا، کیونکہ میں غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہوں اور ہاسٹل نہ ہونے کی وجہ سے مجھے اور مجھ جیسی کئی اور لڑکیوں کو کرائے کے مکان میں رہنا پڑتاہے ۔آج میں بی اے سال آخر میں ہوںاور اپنے علاقے کے مسائل کو متعدد اخبارات کے ذریعے اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہوںاورآگے بھی اس کوشش جاری رکھوں گی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ایک تو یہاں کا ماحول سازگار نہیں ہے۔دوسرے ہمارے ضلع کے اکثر لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، اس لیے وہ اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجنا پسند نہیں کرتے ہیں۔‘‘ ضلع پونچھ کے متعدد علاقاجات سے تعلق رکھنے والی متعدد طالبات ایسی ہیں کہ جنھوں نے مشکلات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اعلی تعلیم حاصل کی۔وہ طالبات جو یہ سوچ کر تعلیم کو خیر آباد کہہ دیتی ہیں کہ وہ غربت یا کسی دوسری پریشانی کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں انھیں متاثر کرنے کے لیے آسیہ اور چودھری ناظمہ مشعل راہ ہیں۔
اگر دیہی علاقوںمیں حکومت کی جانب سے تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے تو یہاں بچیوں کو مزید مشکلالت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ضلع پونچھ میں کل پانچ کالج ہیں جہاں سے ہر سال سینکڑوں بچے گریجویشن کا کورس مکمل کرکے یونیورسٹی جانے کا خواب دیکھتے ہیں ۔لیکن ضلع میں یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان طالب علموں کی کثیر تعداد تعلیم چھوڑ دیتی ہے ۔بہت کم بچے ایسے ہیں جن کے پاس وسائل ہوتے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جموں کا رخ کرتے ہیں۔ضلع کے لوگوں نے مرکزی حکومت سے مانگ کی ہے کہ ضلع پونچھ میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ یہاں کے بچے بھی بغیر کسی مشکل کے اپنے مستقبل کو روشن کرسکیں

۔ ( یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ2019 کے تحت لکھا گیا ہے)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا