عید قرباں کا واضح پیغام !

0
0

(محمد قاسم ٹانڈؔوی=09319019005)
قرآن کریم اللہ رب العلمین کا وہ آخری کلام مقدس ہے جس میں بیان کردہ احکامات و فرامین اور اصول و ضوابط کو خود اللہ رب العزت نے جہاں ان کو آفاقی اور دائمی بنائیں ہیں وہیں ان کو راہنمائے انسانیت کے طور پر بھی تشکیل دئے ہیں، جن کے اندر اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے ہر پیچیدہ و مشکل مسئلہ کا حل پنہا کر دیا گیا ہے اور قیامت تک پیش آمدہ آفات و بلیات، مصیبت و پریشانی اور دکھ درد سے نجات پانے کا آسان علاج و معالجہ بھی رقم کر دیا گیا ہے۔ نیز یہی وہ حق و صداقت پر مبنی آسمانی مصحف اور تحریف و تبدل سے پاک اللہ رب العزت کا آخری اور لاثانی مجموعہ ہے جس کو اگر کوئی بصارت و بصیرت کی موجودگی کے ساتھ از اول تا آخر اپنے مطالعے میں لے آئے تو اس کی دنیا بھی آباد ہو جاتی ہے اور عقبیٰ بھی سنور جاتی ہے بس شرط اتنی ہے کہ دوران مطالعہ جو بات بھی اس کی آیتوں سے واضح ہوتی ہو اسے اس کے حقیقی معنی و مفاہیم میں پرو کر گلے لگائے اور پھر پوری امانت و دیانت داری کے ساتھ ان کو عملی جامہ پہنائے۔
اس وقت ہمارے اوپر ذی الحجہ کا مہینہ سایہ فگن ہے جو اسلامی تقویم کے لحاظ سے سال کا آخری مہینہ کہلاتا ہے، جس کو عرف عام میں حج و قربانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دنیا بھر میں آباد مسلمان اس بابرکت و معظم مہینے میں اپنی اپنی مالی حیثیت اور توفیق الہی کی بدولت شریعت کے پانچویں رکن حج بیت اللہ کی ادائیگی کے واسطے حرم مکہ کا رخ (جن کی قسمت میں ہوتی ہے) کرتے ہیں اور اسی ماہ مبارک میں دنیا بھر کے مسلمان سنت ابراہیمی یعنی مسلسل تین روز قربانی کا فریضہ بطریقہ نبی (ﷺ) کر سعادت مندی اور خوش نصیبی حاصل کرتے ہیں.
اب ذرا غور فرمائیے کہ قرآن کریم کے دسویں پارہ کے نصف پر قمری مہینوں کی تعداد بارہ بیان کی گئی ہے، جس میں فرمایا گیا ہے:
"یقینا مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، جس دن سے یہ زمین و آسمان پیدا کئے گئے ہیں اور ان میں سے چار مہینے عزت و حرمت والے ہیں”.
ہمارے اسلامی سال کی ابتدا ماہ محرم الحرام سے ہوتی ہے اور انتہا ذی الحجہ پر، مگر ان مہینوں میں یہ عجیب اتفاق اور قربت و مماثلت پائی جاتی ہےکہ سال کا آغاز بھی قربانی والے مہینے سے ہوتا ہے اور اختتام بھی قربانی والے مہینے پر. جہاں سال کے پہلے مہینے کی ابتدا امیر المؤمنین خلیفہ راشد دوم سیدنا حضرت عمر فاروق اور نواسئہ رسول سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہما) کی دردناک اور المناک شہادت سے ہوتی ہے تو وہیں سال کی انتہا رسول عربی رحمتہ اللعلمین حضرت محمد مصطفی (ﷺ) کی تابعداری اور پیارے نبی کے جدامجد سیدنا حضرت ابراہیم (خلیل اللہ) علیہ الصلوۃ والتسلیم کی عظیم سنت اور بےمثال محبت بھری اپنے بیٹے کی قربانی راہ خدا میں پیش کرنے کے عوض ہوتی ہے. گویا سال کی ابتداء؛ جہاں دو جلیل القدر اصحاب رسول کی قربانی سے ہوتا ہے وہیں سال کی انتہاء؛ کائنات کے دو عظیم المرتبت اور اللہ کے دو لاڈلے پیغمبروں کی رفاقت و محبت پر مبنی ایک لازوال واقعہ سے ہوتی ہے اور دونوں ہی واقعات اہل ایمان کے واسطے عبرت و نصیحت سے پر ہیں۔ کیوں کہ واقعہ ثانی میں تو راہ خدا میں اپنے تمام مال و اسباب حتی کہ جگر گوشہ رسول اور اپنے بڑھاپے میں سہارا بننے والے ہونہار بیٹا کا نذرانہ پیش کرکے دین حنیف کی حقانیت و برتری ثابت کرنا ہے تو واقعہ اول میں دین اسلام کی سلامتی اور اس کے تحفظ میں جان و مال کی بازی لگانے میں کسی طرح کا رد و قدح اور ہیچ پیچ سے کام نہ لینا عیاں ہوتا ہے اور یہی ہمارے دین حق کی وہ خوبی ہے جو دیگر مذاہب کے مقابلے نمایاں ہے، جو امت مسلمہ کو بار بار اور ہر سال یہ یاد دہانی کرانے کےلئے کافی ہےکہ:
"اگر دین مبین کی سلامتی یا شعائر اسلام کے بقا و تحفظ کی خاطر جان و مال کی قربانی اور راہ خدا میں مال و اسباب کا نذرانہ پیش کرنے کی نوبت آجائے تو پھر لمحہ بھر کی تاخیر کئے بغیر اس حکم کی تکمیل میں مشغول ہو جانا چاہئے اور موقع محل کی تمام رکاوٹوں اور حکمت و مصلحت کے تمام تر اندازوں اور قیاسوں کو پس پشت ڈال کر ہر حال میں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے”.
یہی واضح پیغام اور خاص عنوان چھلکتا ہے پے درپے اور سال کے اواخر و اوائل پر آنے والے ان دو مبارک اور عظیم مہینوں سے کہ دین اسلام کے احکامات کی فرمانبرداری، محبت رسول و آل رسول کی تابعداری میں اپنا سب کچھ لٹا کر دل و دماغ میں بیٹھی "ضد و ہٹ دھرمی، کبر و غرور، نفرت و کدورت اور ہر قسم کی انانیت و حقارت” کو قربان کرکے اپنی بے چین روح کو تسکین، دین برحق کے بقا و تحفظ اور اس کی عالمگیر تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر حق و صداقت کی مہر ثبت کی جائے اور پوری دنیا کےلئے اس کو امن و امان کی چھاونی کے طور پر پیش کیا جائے۔
(mdqasimtandvi@gmail.com)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا