ریاست کادرجہ اور4Gانٹرنیٹ بحال کیجئے:سید الطاف بخاری
لازوال ڈیسک
جموں؍؍جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پانچ اگست کو خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے۔ انہوں نے وزیر داخلہ امت شاہ سے اس یونین ٹریٹری میں تیز رفتار فور جی انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سزا کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔ الطاف بخاری نے جمعے کے روز یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کے دوران ریاستی درجے اور تیز رفتار انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کا مطالبہ کرنے کے علاوہ جموں و کشمیر یونین ٹریٹری کا انتظام و انصرام چلانے والے افسروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ لوگوں کے مسائل و مشکلات کے تئیں بے حس ہیں۔ اپنی پارٹی کے صدر نے ریاستی درجے کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ‘پانچ اگست 2019، جس دن ہم سے ریاست کا درجہ چھین لیا گیا، کا ایک سال مکمل ہورہا ہے۔ اپنی پارٹی کی مانگ ہے کہ پانچ اگست کو ہی جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے کیونکہ تنظیم نو قانون بھی ایک سال کے لئے ہی تھا۔ ہمیں ریاست کا درجہ واپس دیا جائے کیونکہ بھارت میں ہماری ریاست سب سے پرانی تھی’۔ الطاف بخاری نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کے بعد جمہوری طریقے سے اسمبلی انتخابات کرائے جائیں تاکہ یہاں کا انتظام و انصرام عوامی منتخب حکومت چلائے۔ انہوں نے کہا: ‘ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ہمارے بھی جمہوری حقوق ہیں۔ کیا ہمارے لئے خالی ٹول پلازے ہیں؟ اگر ہم جموں وکشمیر میں تشدد کے واقعات کے خاتمے کا انتظار کریں گے تو شاید پچاس سال لگ سکتے ہیں۔ حالات بالکل ٹھیک ہیں۔ ریاستی درجہ بحال کرنے میں مزید دیر نہیں لگائی جانی چاہیے۔ اس کی بحالی ہمارا بنیادی ایجنڈا ہے’۔ مسٹر بخاری نے کہا کہ ‘اپنی پارٹی’ کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ ریاست کا درجہ واپس لانا ہے۔ ریاست کا درجہ واپس لائیں گے تو اپنے قوانین خود بنائیں گے۔ ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا: ‘جموں کی عوام چاہتی ہے کہ ریاست کا درجہ بحال ہو اور کشمیر کی عوام بھی ایسا ہی چاہتی ہے۔ جموں کی عوام چاہتی ہے کہ زمین کے مالکانہ حقوق ہمارے پاس ہی رہیں اور کشمیر کی عوام بھی ایسا ہی چاہتی ہے۔ دونوں خطوں کی عوام نوکریوں کا تحفظ چاہتی ہے۔ کچھ سازشتی عناصر چاہتے ہیں کہ دونوں خطے ایک دوسرے سے لڑے۔ لیکن دونوں خطوں کے لوگوں کو یہ سازشیں ناکام بنانی ہوں گی’۔ الطاف بخاری نے کہا کہ انہیں معلوم تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کوئی اقتصادی انقلاب، جس کا بقول ان کے دعویٰ کیا جارہا تھا، نہیں آئے گا۔ ان کا کہنا تھا: ‘ہمیں معلوم تھا کہ دفعہ 370 ہٹانے سے یہاں کوئی اقتصادی انقلاب نہیں آئے گا۔ باہر سے یہاں بھیجے گئے افسر بھی کچھ نہیں کررہے ہیں۔ دس دس محکمے کا چارج ایک افسر کے پاس ہے۔ یہاں کے مقامی افسر تو کہیں نظر ہی نہیں آتے ہیں’۔ اپنی پارٹی کے صدر نے وزیر داخلہ امت شاہ سے اس یونین ٹریٹری میں تیز رفتار فور جی انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سزا کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔انہوں نے کہا: ‘پہلے یہاں کریک ڈائون ہوتا تھا اب لاک ڈائون ہوتا ہے۔ فرق صرف "کے” اور "ایل” کا ہے۔ ہمارے لئے فور جی انٹرنیٹ خدمات ایسی چیز بن گئی ہے جیسے ہم چاند اور سورج کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہمارے بچوں کو آن لائن کلاسز سے بھی محروم کیا گیا ہے’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘میری بھارتی وزیر داخلہ، جو برائے راست ہماری اس ریاست کو چلا رہے ہیں، سے اپیل ہے کہ سزا کی بھی ایک انتہا ہے۔ بچوں کو فور جی انٹرنیٹ خدمات سے استفادہ کرنے دیجئے تاکہ ان کا مستقبل خراب نہ ہوجائے۔ جنگجو فور جی نہیں بلکہ سیٹلائٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہمیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے’۔ الطاف بخاری نے جموں و کشمیر یونین ٹریٹری کا انتظام و انصرام چلانے والے افسروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: ‘لوگوں کو جس طرح طرنطینہ مراکز میں رکھا جارہا ہے انہیں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے وہ انسان ہی نہیں ہیں۔ ہماری جماعت کی مانگ ہے کہ قرنطینہ مراکز کی حالت ٹھیک کی جائے۔ میری عوام سے بھی اپیل ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے متعلق گائیڈ لائنز پر سختی سے عمل درآمد کریں’۔ انہوں نے کہا: ‘یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور، تجارت پیشہ افراد اور نجی اداروں میں کام کرنے والے افراد گذشتہ چار ماہ کے دوران کوئی پیسہ کما نہیں پائے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ حکومت ان کے لئے کچھ کیوں نہیں کررہی ہے۔ ہم نے کوئی اقتصادی پیکیج نہیں دیکھا جس کی بدولت ان افراد کی مددت ہوتی۔ سیاحتی شعبے سے وابستہ لوگوں کی مدد کی جائے’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہماری بیوروکریسی کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ لوگوں کے مشکلات کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔ افسر فون نہیں اٹھاتے ہیں۔ بات نہیں سنتے ہیں۔ ترقیاتی کام جمود کے شکار ہیں۔’ ‘تلنگانہ میں بھی کورونا وائرس ہے۔ وہاں حکومت نے پچھلے چار ماہ کے دوران زیر زمین ڈرینیج مکمل کیا اور کیبلیں بچھائیں۔ پوری ریاست میں سڑکوں پر میکڈم بچھایا گیا۔ وہاں حکومت نے سوچا کہ لاک ڈائون میں ہم یہ چیزیں کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں افسوس کی بات ہے کہ کورونا وائرس کی آڑ میں سب کچھ بند کیا گیا ہے’۔