سرکاری دفاتر میں غیر مستقل اہلکاروں کا استحصال

0
0

چودھری محمد ایوب کٹاریہ

دنیا بھی عجیب و غریب ہے یہاں جو مالدار ہے وہ مزید مالدار ہوتا جا رہا ہے اور بیچارہ غریب بس وہ غربت کی چکی میں پستاہی جاتا ہے مگر ہماری سرکاریں بھی اس طرف بالکل دھیان نہیں دیتی ہیں جب کہ مستقبل میں اس کے نتائج نہایت ہی سنگین ہونگے۔ پورے ملک میں سرکاری دفاتر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ برسوں سے غیر مستقل طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان سے جانوروں کی طرح صرف کام لیا جاتا ہے مگر انہیں ان تمام سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے جو ایک مستقل سرکاری عملے کو حاصل ہوتا ہے۔ غیر مستقل ہونے کی وجہ سے سے یہ بیچارے مستقل ملازمین کا بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کے خلاف اپنی آواز بھی بلند نہیں کرپاتے ہیں۔ اگر کوئی آواز بلند بھی کرنا چاہتا ہے تو اسے نوکری سے نکال کر اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
دیگر ریاستوں کی طرح جمووکشمیر میں بھی گورنمٹ کے کئی اداروں میں مختلف اسکیموں کے تحت ہزاروں کی تعداد میں نوجوان غیر مستقل طور پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ این وائی سی کے تحت 2010 میں لگ بھگ چھ ہزار نوجوانوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیںلیکن مسلسل دس سالوں سے کام کرنے والے ان افراد کو ابھی تک مستقل نہیں کیا گیا اور یہ نوجوان آج بھی غیر مستقل کی حیثیت سے مختلف محکمہ جات میں آپنے فرائض انجام دے رے ہیں۔ محکمہ مال میں غیر مستقل کی حیثیت سے کام کر رہے فاروق احمد گنائی نامی ایک نوجوان نے دوران گفتگو بتایا کہ 2010 این وائی سی نامی اسیکم کے تحت ان کی تقرری عمل میں آئی تھی۔ اُس کے بعد مختلف محکمہ جات میں ایک مستقل ملازم سے کہیں زیادہ کام کرنے اور اپنے فرائض کو بخوبی انجام دینے کے باوجود آج بھی انہیں غیر مستقل کی حیثیت سے ہی کام کرنا پڑ رہاہے۔ وہ کہتے ہیں، ”کرونہ وائرس جیسی آفت ہو، الیکشن ڈیوٹی ہویا کوئی دیگر حکومتی یا سماجی کام ہو، ہم اپنے فرائض بحسن خوبی انجام دیتے ہیں لیکن حکومت ہمارے ساتھ اس کے بر عکس سلوک کرتی ہے۔ ہم اس امید میں ہو تے ہیں کہ سرکار اس سال ہمیں بھی مستقل کر دیگی اور ہمیں بھی وہ تمام سہولیات میسر ہونگے جو دیگر سرکاری ملازمین کو ہوتے ہیں مگر حکومت ہر طرح سے ہمارے ساتھ دھوکہ ہی کرتی ہے۔”
حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ باشندگان وطن اور بالخصوص اپنے ماتحتوں اور اپنے ادارے میں کام کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ انصاف کرے بلکہ ان کے کام اور فرائض کو بھی سراہے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ انہیں مناسب مقام بھی عطاکرے۔ اس لیے حکومت کو ان غیر مستقل ملازمین کے بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ آخر اس مہنگائی کے دور میں پانچ،چھ ہزار کی تنخواہ سے آخر ان ملازمین کا گھر کیسے چلے گا جب کہ لاکھوں روپے تنخواہ اٹھانے والے لوگ بھی بڑی مشکل سے اپنا گھرچلاپاتے ہیں۔ حکومت میں بیٹھے ہوئے ذمہ داران کو یہ سوچنا چاہیے کہ اپنی جوانی کی بہترین سال غیر مستقل کی حیثیت سے کام کر کے سرکاری اداروں میں گزار دینے کے بعد آخر اب وہ ملازمین اپنی کمزور ہورہی ہڈیوں کو کہاں لے جائیں اور کس کے سامنے گڑگڑا کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی دہائی لگائیں۔ دس سالوں تک کام کرانے کے بعد بھی اگر ان ملازمین کو مستقل نہ کیا جائے اور مستقل طور پر کام کر رہے ملازمین کی طرح انہیں بھی سرکاری سہولیات نہ دی جائیں تو کیا یہ نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق نہیں ہوگا؟ یقینا، عقل سلیم رکھنے والا ہر انسان اسے ایک بھدا اور گھناؤنا مذاق ہی کہے گا مگر افسوس کہ ابھی تک ملک میں غیر مستقل ملازمین کے لیے اور خاص کر این وائی سی میں کام کرنے والے ان غیر مستقل افراد کے لیے حکومت کی طرف سے نہ تو کوئی میں خاص حکمت عملی ہے اور نہ ہی ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی واضح رد عمل ظاہر کیا ہے۔ خدا جانے کب تک یہ ملازمین اس دلدل میں پھنسے رہیں گے اور کب تک یہ اپنے ہی حقوق کے لیے سرکاری حکم نامے کے منتظر رہیں گے۔ دوران گفتگو فاروق احمد نے کہا ”بہت دیر ہوچکی ہے لیکن دنیا امید پر قائم ہے اسلئے ہم بھی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ شاید موجودہ گورنر انتظامیہ جلد سے جلد ایک پالسی کے تحت ہمارے لیے بھی مستقل ملازمت کا حکم نامہ جاری کر دے تاکہ ہم بھی اپنے فرائض کو مزید خوش اصلوبی کے ساتھ انجام دے سکیں۔،،
سرحدی علاقہ میلیال سے تعلق رکھنے والے نوجوان نصیر احمد خان بھی این وائی سی کے تحت ملازمت کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ضلع سے باہر بھی کام کیا ہے۔ ان کی سیلری کافی محدود لیکن بس اس امید پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں کہ شاید حکومت کسی دن ان کے کام کی حوصلہ افزائی کرے اور شاید کسی دن ان کو بھی مستقل ہونے کا درجہ حاصل ہو۔ نصیر احمد اپنے حالات بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ” ہم اپنے فرائض کو انجام دینے میں کسی بھی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے ضلع سے باہر ضلع بارہ مولہ میں بھی جاکر اسپوٹس کونسل میں خدمت انجام دی ہے لیکن ہماری تنخواہ بہت ہی کم ہے ،جس کی وجہ سے ہم بڑی مشکل سے اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا انتظام کر پاتے ہیں لیکن پھر بھی اس امید میں کام کرتے ہیں کہ شاید کسی دن حکومت ہمارے حق میں فیصلہ کرے اور ہم بھی اپنے بچوں کو شکم شیردیکھ سکیں۔ ” نصیر کی طرح کئی ساری خواتین بھی این وائی سی سے منسلک ہیں اور غریب والدین کی یہ بیٹیاں بھی نصیراحمد کی طرح ہی اس امید میں کام کر رہی ہیں کہ شاید کسی دن ان کی بھی مشکل آسان ہو، شاید کسی دن حکومت انہیں بھی پھلنے اور پھولنے کا موقع فراہم کرے اور وہ بھی مستقل ملازم کی حیثیت سے سر اٹھا کر اپنے آفس میں شان کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کریں۔
ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح کشمیر میں بھی بے روزگاری اپنے شباب پر ہے۔ گھریلوں حالات اور مالی تنگدستی کی وجہ سے لوگ اپنی زندگی سے تنگ آچکے ہیں۔ مالی طور پر کمزور نوجوانوں کو آفس آنے اور جانے کے لیے بھی سوچنا پڑتا ہے کیونکہ کہ ان کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ ان کے ٹرانسپورٹ پر ہی خرچ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں اپناگھر چلانے میں مزید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امید کہ مرکزی اور ریاستی حکومت ان مسائل کی طرف دھیان دے گی اورجلدازجلد ان غیر مستقل ملازمین کے لیے کوئی ٹھوس اور جامع فیصلہ کرے گی جس سے ان غیر مستقل ملازمین کوبھی اپنے مستقبل کو تابناک بنانے میں مدد ملے گی۔(چرخہ فیچرس)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا