![](http://lazawal.com/wp-content/uploads/2020/07/MAKEUP_2020071814435964_save.jpg)
از قلم :۔شیبا کوثر (آرہ، بہار) ۔
منشی پریم چند کی تقریر کے یہ الفاظ جسے انہوں نے ترقی پسند تحریک کے پہلے کا نفرنس میں صدا رتی خطبے کو دیتے ہوئیے کہی تھی کہ "۔ہمیں حسن کا میعار بدلنا ہوگا "۔اپنی معنویت اور اہمیت کی بنا پر ترقی پسند تحریک کی آواز بن گئ تھی ۔وہ آج کے حالات میں بھی اتنی ہی سچ ہے اور حقیقت سے نزدیک تر ہے ۔
انسان اپنے آپ کو چاہے کتنا ہی ترقی یافتہ کہ لے لیکن حقیقی ترقی ہم اسی کو کہ سکتے ہیں جس میں انسانی سوچ کی ترقی ہو اور انسان کی سوچ بہتر ہو کیونکہ اچّھی سوچ کے بغیر بہتر سماج اور معاشرہ بننا نا ممکن ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچّھی سوچ کسے کہ سکتے ہیں یا اسکا میعار اور پیمانہ کیا ہے؟کیا اچّھی سوچ وہ کہلائگی جسمیں ایک فرد صرف اپنی ذات تک ہی سوچے اور اس کی ساری کوشش صرف اپنی ذات تک ہی محدود رہے جس کی بنا پر وہ ہر چیز میں صرف اپنے فائدے اور نقصان پر نظر رکھے اور دوسروں کی ذات سے اسکو کوئی مطلب نہیں ہو ۔اگر کوئی یہ سوچتا ہے تو صحیح ما نوں میں اسکی سوچ کی سمت غلط ہے کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔
ایک عام انسان سماج میں رہتا ہے اور یہی اسکی فطرت ہے ۔جب سے انسانی آبادی وجود میں آئ ہے تاریخ سے ہمیں یہی پتہ چلتا ہے کہ انسان ہمیشہ گروہ میں رہتا آیا ہے ۔جب انسانی معاشرہ اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا تھا اور لوگ جنگلوں میں ضروریات زندگی کے لئے بھٹکتے رہتے تھے یعنی کوئی بستی یا شہر آباد نہیں ہوا تھا اور انسان پوری طرح سے قدرت کے وسائل پر منحصر کرتے تھے ۔یا پھل پھلیر ی اور کند وغیرہ کھا کر اپنی زندگی کا گزر بسر کرتے تھے ۔انہیں لباس پہننے کا سلیقہ نہیں تھا جانوروں کی کھال اور پتے وغیرہ سے اپنا جسم ڈھانکتے تھے اور رہنے کے لئے فن تعمیر سے وہ دور تھے اور مکان اور گھر کی شکل دینے سے قاصر تھے اور غاروں میں رہا کرتے تھے اس وقت بھی لوگ اکیلے نہیں رہا کرتے تھے بلکہ گروہ میں ہی رہا کرتے تھے ۔وجہ تھی جنگلی جانوروں سے اپنے آپ کو بچانا اور مل جل کر اسکا مقابلہ کرنا ۔پھر جیسے جیسے انسانی شعور نے ارتقاءکیا اور انسانی عقل نے نئے نئے وسائل کو ایجاد کیا تو پھر انسان زیادہ منظم ڈھنگ سے آباد ہونے لگے اور پھر ترقی کے منازل طئے کرتے ہوئیے آج بڑے بڑے شہر آباد ہونے لگے اور انسانی زندگی کا میعار کافی بدل گیا ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ رابطے کے ذرا ئع بھی ترقی کرتے رہے جسکا نتیجہ ہے کہ کوئی فرد دنیا کے کسی حصّے میں بھی رہتا ہو اپنا رابطہ دنیا کے کسی حصّے میں بھی رہنے والے انسان سے کر سکتا ہے یعنی اگر آپ دنیا کے کسی انسان سے رابطہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ آگے والا آپ کی باتوں کو سمجھ سکے اس کے لئے زبان کا جاننا ضروری ہے لیکن ایک دوسری صورت بھی ہے جس میں آپ اسکی صورت تو دیکھ ہی سکتے ہیں جیسے ویز یول کمو نیکیشن کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اس کی زبان نہیں سمجھ پاتے ہیں تو بھی اس کے جسم کے حرکات و سکنات سے بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں اور اگر ضرور ت پڑی یا اس سے رابطہ کرنا چاہیں تو اشاروں اشاروں میں بھی بہت ساری باتیں ہو سکتی ہیں لیکن اس طرح کے رابطے سے بہت بہتر ڈھنگ سے ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے زبان کی اپنی ایک اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس طرح کے رابطے میں ایک بات تو واضح ہے کہ آپ گفتگو کرنے والے کی با ہری سا خت کا تو معا ئنہ کر ہی سکتے ہیں ۔انسانی فطرت یہ بھی ہے کہ وہ ہر خوبصورت چیز پر مائل ہوتی ہے اس میں اسکی ظاہر ی خوبصورتی اور با طنی خوبصورتی دونوں شامل ہے ۔
ظاہری خوبصورتی میں ہم کسی کی شکل و صورت یا کچھ دیر تک اس کی باتوں کو سن اس کی شخصیت سے متاثر ہو جاتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس میں اکثر انسان دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے ۔وجہ ہے انسان کا دوہرا معیار،آج کل جسے ہم ترقی کا دور کہ رہے ہیں اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سارے انسان ذہنی پستی کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی سوچ بہت سطحی ہو چکی ہے ۔بہت سارے ایسے لوگ اس سماج میں رہتے ہیں جو اپنی ظاہری خوبصورتی کا استعمال دوسرے لوگوں کو بے وقو ف بنانے اور کسی کو دھوکہ دینے میں کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ اس کے شکار ہو جاتے ہیں ۔اس لئے کسی سے بھی رابطہ بڑھا نے سے پہلے انسان کو اسکے با طنی فطرت سے آگاہی بہت ضروری ہے ورنہ نقصان اٹھانے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے ۔
آج کل ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ظاہری خوبصورتی کا پرچا ر بہت زیادہ کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شئے کی فروخت بڑ ھانے کے لئے عام طور سے فلم کے ہیرو اور ہیرو ئن کا استعمال کیا جاتا ہے جہاں کروڑوں روپے بڑے بڑے صنعت کار معا وضہ کی شکل میں دیتے ہیں ۔حق یہی ہے کہ ظاہری اور با طنی دونوں طرح کی خوبصورتی کا اپنے اپنے جگہ اہم کردار ہے اگر کسی جگہ یہ دونوں چیزیں موجود ہیں تو یہ دنیا کی بڑی نعمت ہے ورنہ با طنی خوبصورتی زیادہ اہم ہے ۔کیونکہ ظاہری خوبصورتی کا تعلق انسانی جسم سے ہے جس میں تبدیلی نمایا طور پر ہو سکتی ہے مگر با طنی خوبصورتی کا تعلق انسان کے کردار سے ہے جو زندگی میں سکو ن اور اطمینان کے لئے ضروری ہے ۔
عام طور سے جسے ہم مغربی تہذیب کہتے ہیں وہ ایک سماجی تہذیب ہے اور جو ایک مشتر کہ کوشش کا نتیجہ ہے جو چند بڑے بڑے صنعت کار گھرا نوں کی طرف سے کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد دولت حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔یہ بڑے بڑے صنعتی گھرانے ذہن سازی کر کے اپنی جھولی بھر نے میں مصروف ہیں ۔جسکے لئے سماج کا ایک پورا طبقہ انکے ساتھ ہے جسکا مقصد عیش و عشرت کے سوا ئے کچھ بھی نہیں ہے اسے سماج کے غریب اور لاچار لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کا ہی استعمال صنعتی گھرانہ اپنے فائدے کے لئے کرتا ہے ۔انکی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سماج کو اندر سے تبدیل کر دیا جائے جس کے لئے وہ فکری اور عملی کوشش میں لگے ہوئیے ہیں اور وسائل کی موجود گی کی وجہ کر اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔
بطور خاص جنگ عظیم او ل (1918_1914) کے بعد جب پوری دنیا میں ایک تبدیلی کا دور تھا نئی نئی راہیں ہموار ہو رہی تھیں کئی نئے آزاد ممالک قائم ہو رہے تھے گویا پورے عالمی پیما نے پر نئے امکانات روشن ہورہے تھے ایسے میں ایک پورا گروہ اپنی معشیت کواستحکام دینے میں لگا ہوا تھا جسے اپنے ملک کے تہذیب وتمدن سے کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔چنا نچہ انہوں نے ہمارے معاشرے کے ایسے افراد کو آگے بڑھا یا ،انکی آؤ بھگت کی،انہیں مراعا ت اور اعانت اور انہیں شہرت کے سامان فراہم کئے جو فکری طور پر انکے قریب تھے جو آسانی سے انکے مطیع بن گئے ۔ایسے افراد ہمارے سماج کے سر براہ بنائے گئے اور اس بات کی بطور خاص کوشش کی گئی کہ سماج کا پورا کنٹر ول ایسے ہی افراد کے ہاتھوں میں رہے ۔پھر ان مسلط کردہ افراد کے ذریعہ سماج کے ذہن و فکر کو تبدیل کرنے کی کوشش ہونے لگی ۔لیکن آج بھی ہمارے ملک کا اقدار اتنا گہرا ہے جسے وہ اب تک پوری طرح سے برباد سے نہیں کر پائے ہیں ۔جس کے تعلق سے وہ حد درجہ پریشان ہیں اس کی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ ہمارے اقدار کو کیسے پوری طرح سے برباد کر دے اور اس کی بیخ کنی کے لئے کیا طریقہ اختیار کر ے ۔ہر چند کہ انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے ۔
اس لئے ضروری یہ ہے کہ سماج کا با شعور طبقہ سامنے آئے اور اپنے ملک کے اقدار کی حفاظت کے لئے مشترکہ کوشش کرے جس کے نتیجے میں جو غلط تصور سماج میں پیدا ہو گیا ہے اس کا سد باب ہو اور لوگوں کا جو نظر یہ بدل رہا ہے وہ صحیح خطوط پر استوار ہو جس کے ذریعہ سماج میں بہت ساری برائیوں پر بند لگ سکتی ہے۔
تیری فطرت امیں ہے ممکنا تِ زندگانی کی
جہاں کے جوھَر مضمر کا گو یا امتحاں تو ہے !!
ختم شد ۔
sheebakausar35@gmail.com
منشی پریم چند کی تقریر کے یہ الفاظ جسے انہوں نے ترقی پسند تحریک کے پہلے کا نفرنس میں صدا رتی خطبے کو دیتے ہوئیے کہی تھی کہ "۔ہمیں حسن کا میعار بدلنا ہوگا "۔اپنی معنویت اور اہمیت کی بنا پر ترقی پسند تحریک کی آواز بن گئ تھی ۔وہ آج کے حالات میں بھی اتنی ہی سچ ہے اور حقیقت سے نزدیک تر ہے ۔
انسان اپنے آپ کو چاہے کتنا ہی ترقی یافتہ کہ لے لیکن حقیقی ترقی ہم اسی کو کہ سکتے ہیں جس میں انسانی سوچ کی ترقی ہو اور انسان کی سوچ بہتر ہو کیونکہ اچّھی سوچ کے بغیر بہتر سماج اور معاشرہ بننا نا ممکن ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچّھی سوچ کسے کہ سکتے ہیں یا اسکا میعار اور پیمانہ کیا ہے؟کیا اچّھی سوچ وہ کہلائگی جسمیں ایک فرد صرف اپنی ذات تک ہی سوچے اور اس کی ساری کوشش صرف اپنی ذات تک ہی محدود رہے جس کی بنا پر وہ ہر چیز میں صرف اپنے فائدے اور نقصان پر نظر رکھے اور دوسروں کی ذات سے اسکو کوئی مطلب نہیں ہو ۔اگر کوئی یہ سوچتا ہے تو صحیح ما نوں میں اسکی سوچ کی سمت غلط ہے کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔
ایک عام انسان سماج میں رہتا ہے اور یہی اسکی فطرت ہے ۔جب سے انسانی آبادی وجود میں آئ ہے تاریخ سے ہمیں یہی پتہ چلتا ہے کہ انسان ہمیشہ گروہ میں رہتا آیا ہے ۔جب انسانی معاشرہ اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا تھا اور لوگ جنگلوں میں ضروریات زندگی کے لئے بھٹکتے رہتے تھے یعنی کوئی بستی یا شہر آباد نہیں ہوا تھا اور انسان پوری طرح سے قدرت کے وسائل پر منحصر کرتے تھے ۔یا پھل پھلیر ی اور کند وغیرہ کھا کر اپنی زندگی کا گزر بسر کرتے تھے ۔انہیں لباس پہننے کا سلیقہ نہیں تھا جانوروں کی کھال اور پتے وغیرہ سے اپنا جسم ڈھانکتے تھے اور رہنے کے لئے فن تعمیر سے وہ دور تھے اور مکان اور گھر کی شکل دینے سے قاصر تھے اور غاروں میں رہا کرتے تھے اس وقت بھی لوگ اکیلے نہیں رہا کرتے تھے بلکہ گروہ میں ہی رہا کرتے تھے ۔وجہ تھی جنگلی جانوروں سے اپنے آپ کو بچانا اور مل جل کر اسکا مقابلہ کرنا ۔پھر جیسے جیسے انسانی شعور نے ارتقاءکیا اور انسانی عقل نے نئے نئے وسائل کو ایجاد کیا تو پھر انسان زیادہ منظم ڈھنگ سے آباد ہونے لگے اور پھر ترقی کے منازل طئے کرتے ہوئیے آج بڑے بڑے شہر آباد ہونے لگے اور انسانی زندگی کا میعار کافی بدل گیا ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ رابطے کے ذرا ئع بھی ترقی کرتے رہے جسکا نتیجہ ہے کہ کوئی فرد دنیا کے کسی حصّے میں بھی رہتا ہو اپنا رابطہ دنیا کے کسی حصّے میں بھی رہنے والے انسان سے کر سکتا ہے یعنی اگر آپ دنیا کے کسی انسان سے رابطہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ آگے والا آپ کی باتوں کو سمجھ سکے اس کے لئے زبان کا جاننا ضروری ہے لیکن ایک دوسری صورت بھی ہے جس میں آپ اسکی صورت تو دیکھ ہی سکتے ہیں جیسے ویز یول کمو نیکیشن کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اس کی زبان نہیں سمجھ پاتے ہیں تو بھی اس کے جسم کے حرکات و سکنات سے بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں اور اگر ضرور ت پڑی یا اس سے رابطہ کرنا چاہیں تو اشاروں اشاروں میں بھی بہت ساری باتیں ہو سکتی ہیں لیکن اس طرح کے رابطے سے بہت بہتر ڈھنگ سے ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے زبان کی اپنی ایک اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس طرح کے رابطے میں ایک بات تو واضح ہے کہ آپ گفتگو کرنے والے کی با ہری سا خت کا تو معا ئنہ کر ہی سکتے ہیں ۔انسانی فطرت یہ بھی ہے کہ وہ ہر خوبصورت چیز پر مائل ہوتی ہے اس میں اسکی ظاہر ی خوبصورتی اور با طنی خوبصورتی دونوں شامل ہے ۔
ظاہری خوبصورتی میں ہم کسی کی شکل و صورت یا کچھ دیر تک اس کی باتوں کو سن اس کی شخصیت سے متاثر ہو جاتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس میں اکثر انسان دھوکے کا شکار ہو جاتا ہے ۔وجہ ہے انسان کا دوہرا معیار،آج کل جسے ہم ترقی کا دور کہ رہے ہیں اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سارے انسان ذہنی پستی کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی سوچ بہت سطحی ہو چکی ہے ۔بہت سارے ایسے لوگ اس سماج میں رہتے ہیں جو اپنی ظاہری خوبصورتی کا استعمال دوسرے لوگوں کو بے وقو ف بنانے اور کسی کو دھوکہ دینے میں کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ اس کے شکار ہو جاتے ہیں ۔اس لئے کسی سے بھی رابطہ بڑھا نے سے پہلے انسان کو اسکے با طنی فطرت سے آگاہی بہت ضروری ہے ورنہ نقصان اٹھانے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے ۔
آج کل ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ظاہری خوبصورتی کا پرچا ر بہت زیادہ کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شئے کی فروخت بڑ ھانے کے لئے عام طور سے فلم کے ہیرو اور ہیرو ئن کا استعمال کیا جاتا ہے جہاں کروڑوں روپے بڑے بڑے صنعت کار معا وضہ کی شکل میں دیتے ہیں ۔حق یہی ہے کہ ظاہری اور با طنی دونوں طرح کی خوبصورتی کا اپنے اپنے جگہ اہم کردار ہے اگر کسی جگہ یہ دونوں چیزیں موجود ہیں تو یہ دنیا کی بڑی نعمت ہے ورنہ با طنی خوبصورتی زیادہ اہم ہے ۔کیونکہ ظاہری خوبصورتی کا تعلق انسانی جسم سے ہے جس میں تبدیلی نمایا طور پر ہو سکتی ہے مگر با طنی خوبصورتی کا تعلق انسان کے کردار سے ہے جو زندگی میں سکو ن اور اطمینان کے لئے ضروری ہے ۔
عام طور سے جسے ہم مغربی تہذیب کہتے ہیں وہ ایک سماجی تہذیب ہے اور جو ایک مشتر کہ کوشش کا نتیجہ ہے جو چند بڑے بڑے صنعت کار گھرا نوں کی طرف سے کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد دولت حاصل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔یہ بڑے بڑے صنعتی گھرانے ذہن سازی کر کے اپنی جھولی بھر نے میں مصروف ہیں ۔جسکے لئے سماج کا ایک پورا طبقہ انکے ساتھ ہے جسکا مقصد عیش و عشرت کے سوا ئے کچھ بھی نہیں ہے اسے سماج کے غریب اور لاچار لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کا ہی استعمال صنعتی گھرانہ اپنے فائدے کے لئے کرتا ہے ۔انکی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سماج کو اندر سے تبدیل کر دیا جائے جس کے لئے وہ فکری اور عملی کوشش میں لگے ہوئیے ہیں اور وسائل کی موجود گی کی وجہ کر اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں ۔
بطور خاص جنگ عظیم او ل (1918_1914) کے بعد جب پوری دنیا میں ایک تبدیلی کا دور تھا نئی نئی راہیں ہموار ہو رہی تھیں کئی نئے آزاد ممالک قائم ہو رہے تھے گویا پورے عالمی پیما نے پر نئے امکانات روشن ہورہے تھے ایسے میں ایک پورا گروہ اپنی معشیت کواستحکام دینے میں لگا ہوا تھا جسے اپنے ملک کے تہذیب وتمدن سے کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔چنا نچہ انہوں نے ہمارے معاشرے کے ایسے افراد کو آگے بڑھا یا ،انکی آؤ بھگت کی،انہیں مراعا ت اور اعانت اور انہیں شہرت کے سامان فراہم کئے جو فکری طور پر انکے قریب تھے جو آسانی سے انکے مطیع بن گئے ۔ایسے افراد ہمارے سماج کے سر براہ بنائے گئے اور اس بات کی بطور خاص کوشش کی گئی کہ سماج کا پورا کنٹر ول ایسے ہی افراد کے ہاتھوں میں رہے ۔پھر ان مسلط کردہ افراد کے ذریعہ سماج کے ذہن و فکر کو تبدیل کرنے کی کوشش ہونے لگی ۔لیکن آج بھی ہمارے ملک کا اقدار اتنا گہرا ہے جسے وہ اب تک پوری طرح سے برباد سے نہیں کر پائے ہیں ۔جس کے تعلق سے وہ حد درجہ پریشان ہیں اس کی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ ہمارے اقدار کو کیسے پوری طرح سے برباد کر دے اور اس کی بیخ کنی کے لئے کیا طریقہ اختیار کر ے ۔ہر چند کہ انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے ۔
اس لئے ضروری یہ ہے کہ سماج کا با شعور طبقہ سامنے آئے اور اپنے ملک کے اقدار کی حفاظت کے لئے مشترکہ کوشش کرے جس کے نتیجے میں جو غلط تصور سماج میں پیدا ہو گیا ہے اس کا سد باب ہو اور لوگوں کا جو نظر یہ بدل رہا ہے وہ صحیح خطوط پر استوار ہو جس کے ذریعہ سماج میں بہت ساری برائیوں پر بند لگ سکتی ہے۔
تیری فطرت امیں ہے ممکنا تِ زندگانی کی
جہاں کے جوھَر مضمر کا گو یا امتحاں تو ہے !!
ختم شد ۔
sheebakausar35@gmail.com