*میڈیکل کالج راجوری سے منسلک ضلع ہسپتال،

0
0

ڈاکٹروں کی بے حثی، سہولیات کا فقدان، غریب بے سہارہ مریضوں کی چیخ و پکار و مشکلات اور اثر و رسوخ رکھنے والے سیاست دانوں کی مجرمانہ خاموشی

از قلم سید منظور بخاری
فون نمبر 7006427655

انسانی وجود کے ساتھ ہی اس کے عروج و ذوال کے قصے بھی رہے ہیں۔ اللہ تبارک تعالی کی ساری مخلوقات کو نظروں کے سامنے رکھ کر اگر انسانی جسم کا موازنہ کیا جاے تو ظاہرٗ جسمانی قد و قامت کے لحاظ سے انسان ناتوان اور کمزور جسم کا مالک ہے۔ مگر اشرف المخلوقات کے درجہ سے نواز کے اللہ سبحان ھو تعالی نے کمزور جسم میں عقل جیسی نعیمت ڈال کے تمام طاقت ور مخلوقات پر اس کی برتری قائم کردی ہے۔ ابتدای مراحل سے ہی اس کمزور و ناتوان جسم کو کہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے کارں اکثر انسانی وجود کی بقاء پر خطرات کے بادل منڈلانے رہے۔ مگر مشعیت اذدی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انساں نے اپنے عقل کا استمال کرتے ہوے اپنی بقاء کی خاطر ضروری لوازمات پر غور و خوض کرنا شروع کر دیا ۔ سب سے بڑا چیلنج بیماریوں سے اپنے جسم کو محفوظ رکھنا تھا۔ ابتدای مراحل میں ضرورت کے مطابق جڑی بوٹیوں سے علاج معالجہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے انسانی نشود و نما کے ساتھ طب کے شعبے نے اتنا عروج حاصل کیا کہ دیگر تمام شعبہ جات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک نے بھی اس شعبہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کے مساہل بھی بڑھتے گے ۔ اور ان خطرات کو نظروں میں رکھتے ہوے ساری دنیا صحت عامہ کے مسایل سے نمٹنے کیلئے کمر بستہ ہو گئی۔ ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کیلئے بھی صحت عامہ ترجیحات میں رہی۔ جڑی بوٹیوں کی مدد سے علاج کرنے والے عام حکیموں سے چل کے یہ سلسلہ چھوٹی ڈسپینسریوں سے ہوتا ہوا آج میڈیکل کالجوں اور میڈیکل اینسٹیجوٹوں تک پونچ چکا ہے۔ کبھی انساں ایک چھوٹے سے زخم لگنے پر مہینوں مجبور رہتا تھا ، آج جسم کے کٹے ہوے اعضاء جوڑ دیے جاتے ہیں اور انسان کے اندروں جسم کام کرنے والے کسی بھی جز کے ناکارہ ہونے کی صورت میں متبادل جز ڈال کے پہلی پوزیشن کو بحال کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی سابقہ اور موجودہ حکومت نے بھی صحت عامہ کے شعبے میں خاطر خواہ کام کیا اور اس شعبے کو نہایت اہم قرار دیتے ہوے اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ۔ آج ملک بھر میں محکمہ صحت کے لاکھوں اداروں میں کروڑوں غریب لوگ زیرے علاج ہیں ۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ان اداروں میں مریضوں کی تعداد میں بھی خطر ناک حد تک اضافہ ہوا اور کام کاج پر دباو کو نظروں میں رکھتے ہوے حکومت نے ریاستی سطح پر بڑے پرائمر اداروں کو وجود میں لایا۔ ایک وقت تھا کہ سارے ملک کے مریض آل انڈیا میڈیکل اینسٹیچوٹ دہلی کا رخ کرتے تھے مگر آج ملک کی ہر ریاست میں میڈیکل اینسٹیچوٹ کھل چکے ہیں اور میڈیکل کالج تقریبا ضلح سطح پر قایم ہو چکے ہیں ۔ محکمہ صحت کے یہ ادارے لاکھوں غریبوں کی امیدوں کا مرکز بنے ہوے ہیں۔ لیکن تمام طر اچھائیوں اور خوبیوں کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک تعالی نے ایک منفی پہلو کو بھی انسان کے جسم کے اندر جگہ دے دی۔ ترقی کے ساتھ ہی اس منفی پہلو نے بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا اور یہ پہلو اس قدر طاقت ور شکل اختیار کر گیا کہ تمام طر خوبیاں اس کے تابع ہو گئیں۔ وہ پہلو ہے لالچ۔ محکمہ صحت کے اہلکاراں جب سفید وردی پہنے ، سینے میں دوسروں کی فلاع و بقاء کیلئے دھڑکتا ہوا دل لے کے نکلتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ یہ دودھ کی مانندصاف و شفاف ، بے لوس اور رحم و خلوص کی پیکر اللہ تبارک تعالی کی فوج جا رہی ہے جس کا کام صرف اور صرف بلا امتیاز مذہب و ملت انسانی خدمت اور انسانی وجود کی فلاع و بقاء کیلئے کام کرنا تھا ۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تبارک تعالی کروڑوں خوبیوں کا مالک ہے ۔ کسی انسان کو زندگی کی نعمت سے نوازنا اور دکھ درد دور کرنا ان ہی صفات میں سے ایک ہے اور دنیا بھر کے معالجوں میں اللہ تبارک تعالی نے اپنی اس مخصوص صفت کو ڈال کے اپنے روپ کا مظہر بنایا ہے۔ اور بلا شک اس شعبہ سے وابسطہ لوگوں نے اس دلیل کے سچ ہونے کا بار ہا ثبوت بھی پیش کر دیا اور کھلے عام اس کا مظاہرہ بھی کر دکھایا ہے۔ مگر افسوس آج اس معتبر و متبرک پیشہ سے وابسطہ کچھ لوگوں کے خدائی صفات سے معمور اور دوسروں کی خاطر دھڑکنے والے معصوم دل پر لالچ نے ایسا قبضہ جما لیا ہے کہ درد سے بے حال تڑپتا غریب ان کو پیسوں کی مشیں سے کچھ کم نظر نہیں آتا ہے۔ یہی نظریہ غریبوں کے استحصال اور افراتفری کا کارن اور معالجوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور خوبیوں پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔
جہاں تک خطہ پیر پنجال کا تعلق ہے یہ دونوں اضلاع دور افتادہ اور ترقی کے لحاظ سے کافی پچھڑے ہوے اضلاع ہیں۔ ہمسایہ ملک کے ساتھ لگاتار کشیدگی ، فائرنگ کے واقعات، کٹی پھٹی سڑکیں اور گزشتہ دو دھائیوں سے مسلسل نا مصاحب حلات نے عوام کی زندگی کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہوا ہے۔ غربت و افلاس لگتا ہے کہ عوام کا مقدر بن چکا ہے ۔ اور غربت کی وجہ سے بچوں سے لیکر بوڑھوں تک ایک اچھی تعداد مہلک بیماریوں کی ذد میں ہیں اور اس تعداد میں تب اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب آے دن بارڈر پر فائرنگ کے واقعات سے لوگ زخمی ہو جاتے ہیں۔ سڑکیں کٹی پھٹی ہونے کی وجہ سے ایک تندرست و تواناں انساں بھی دوراں سفر بے حال ہو جاتا ہے وہاں ایک کمزور و ناتواں مریض کو کسی ہسپتال میں منتقل کرنا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔ ہر کوی بخوبی اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔ ضلح ہسپتال راجوری کی نا صرف خطہ پیر پنجال بلکہ خطہ چناب کے ضلح ریاسی کے دور دراز علاقوں کیلئے بھی مرکزی حثیت رہی ہے۔ جس کے کارں اس ادارے کے کام کاج پر سخت دباو رہتا ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ضرورت کے مطابق یہاں عالیشاں عمارت بھی بن گئی اور میڈیکل کالج کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔ اس میں شک نہیں کہ کسی بھی ادارے کی کامیابی کا دارومدار ادارے کے انفراسٹرکچر اور پیشہ ور فیکلٹی پر مرکوز ہوتا ہے ۔ عمارت بننے سے ایک کمی تو پوری ہو گئی مگر فیکلٹی کی حالت درست ہونے کے بجاے خطرناک حد تک خستہ حال ہوگئی۔ جو معالج اپنے مریضوں کی وجہ سے ہی سماج میں عزت و آبرو کا اعلی مقام رکھتے تھےاور ایک انساں کی زندگی بچانے کی خاطر اپنا عیش و آرام اور دیگر خانگی ذمہ داریوں تک قربان کر دیتے تھے وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے دکھای دے رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ معالج اور مریض کا بنیادی رشتہ شک و شبہات کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ بیمار آخری امید سمجھ کے حسرت بھری نگاہوں سے معالج کو دیکھتا ہے جبکہ معالج لالچ بھری نظروں سے بیمار کا معاینہ کرتے ہیں ۔ تجارت و فروخت کے نظریے سے کچھ ایسے ایجنٹ مقرر ہیں جو مریض اور اس کے لوایقیں کو اکثر یہ مشورہ دیتے پہنچ جاتے ہیں کہ ہسپتال میں کوی ٹیسٹ نہیں ہو سکتا ساری مشینیں خراب ہیں آپ کے مریض کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے یا تو جموں ریفر کروا لو یا ڈاکٹر صاحب کے پرائیویٹ نرسنگ ہوم کا رخ کرو۔ کیونکہ وہاں کروڑوں کی مالیت کی مشینیں لای ہوی ہیں جو دن رات قابل استمال ہیں ، صاحبِ استاعت لوگ تو پرائیویٹ اداروں کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ غریب جب علاج اور ٹیسٹوں کی قیمت سنتا بے تو اس کی آخری امید بھی دم توڑ دیتی ہے ۔ وہ اپنی غربت و بے بسی کے کارں پرائویٹ اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا ۔ مریض کی بے بسی اور لاچارگی سے مایوس معالج کا رویہ قابل اعتراض حد تک سفاک اور جہرہ دہشت والا ہو جاتا ہے جو کسی زاویہ سے بھی سے بھی ایک زندگی بجانے اور درد سے نجات دلانے والا معالج نظر نہیں آتا ۔ بلکہ اپنے سلوک سے وہ ایک ڈاکٹر کم اور ایک سخت طبعیت والا پولیس افسر زیادہ دکھائ دیتا ہے جو کسی خطرناک مجرم سے پوچھ تاچھ کے دوران تھرڈ ڈگری کا استمال کر رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ عام کہاوت ہے کہ معالج کی خوش اخلاقی اور اچھے رویہ سے ہی بیمار کی آدھی بیماری دور ہو جاتی ہے ۔کسی بھی درد دل رکھنے والے انسان کو اس بات کا اندازہ لگانے میں قطعی دیر نہیں لگتی کہ جب مہلک بیماریوں سے جھوج رہے مریض کو اس کے پریشان حال ورثا ضلح ریاسی کے دور دراز علاقہ مہور سے یا ضلح پونچھ کے کسی دور افتادہ علاقے سے راجوری لاتے ہیں تو ان ٹوٹی پھوٹی بے حال سڑکوں پر سفر کرنے پر مریض کی حالت کیا ہو سکتی ہے ؟ اور جو ورثا اپنے بیمار کو آخری امید سمجھ کر اس شفا خانے میں لانے ہیں ان کی کھینچا تانی اور انٹیروگیشن شروع ہو جانے پر ان کے دل و دماغ پر کیا گزرتی ہوگی ؟ سماج کے ہر طبقے میں سفاک لوگوں کے ساتھ ساتھ نیک دل لوگ بھی موجود ہیں۔ اور اس میں بھی کوی شک نہیں ہے کہ صحت عامہ سے جڑے لوگوں میں بھی ابھی کثیر تعداد میں اچھے لوگوں موجود ہیں۔ لیکن جو چیز جتنی زیادہ صاف و شفاف ہوتی ہے ، جھوٹا سا داغ بھی اس پر نمایاں لگتا ہے۔ اور دوسرا اس شعبہ کا سیدھا تعلق سماج کے پریشان حال، بے بس اور غریب لوگوں سے ہے ۔
مشہور ماہر امراض شیکھا جین کا کہنا ہے کہ "میں اپنے ساتھیوں ، رہائشیوں اور میڈیکل طلباء کو یاد دلاتا ہوں کہ ہم جو کرتے ہیں وہ ایک اعزاز کی بات ہے ۔ لوگ ہمیں ان کی زندگی کے انتہائی گہری پہلوؤں میں جانے دیتے ہیں ، اور وہ ہماری طرف بہت پیچیدہ اور نازک حالات میں ان کی رہنمائی کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں”
-ایک اور ماہر امراض ویس فشر کا کہنا ہے کہ "بحیثیت ڈاکٹر لوگ آپ پر بھروسہ کریں گے ، آپ پر اعتماد کریں گے ، اور آپ کی کوششوں کی تعریف کریں گے۔ اگر آپ نظام کو خراب ہونے نہیں دیتے ہیں تو آپ لوگوں کے لئے حیرت انگیز چیزیں کر سکتے ہیں۔”
بییلر کالج آف میڈیسن کے سربراہ ولیم ار فرانس کا کہنا ہے کہ "اگرچہ سفر طویل آغاز اور ثابت قدمی کے ساتھ ثابت قدمی اور لگن کے ساتھ لگتا ہے کہ زندگی کے اختتام پر اس کا بدلہ ملتا ہے۔”
تاریخ ساز شخصیات اور تمام مذاہب نے صحت عامہ کے شعبے سے جڑے لوگوں کیلئے جو ضابطہ اخلاق وضع کیے تھے ان کا خطرناک حد تک فقداں پایا جاتا ہے اور اس کے اوپر ستم ضریفی یہ کہ عوامی نمایندگاں اسقدر بے زبان ہو چکے ہیں کہ کسی بھی زیادتی پر منہ کھولنا گوارہ نہیں کرتے ۔ ہماری شناخت ختم ہوی خاموش رہے، آبرو ختم ہوی خاموش رہے، حقوق ختم ہوے خاموش رہے، ہمارے اثاثے ایک ایک کر کے لٹ گے خاموش رہے، ہماری صحت اور جان سے کھلواڑ ہو رہا ہے تب بھی خاموش، ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے مریض تڑپ تڑپ کے جان دیتے ہیں پھر بھی خاموش۔ خدا جانے ہمارے راہنماوں کی خاموشی کب ٹوٹے گی۔ میں ایک عام شہری کی حثیت سے اپنے خطہ پیر پنجال کے سیاست دانوں سے چند سوالات پوچھنے کی گستاخی ضرور کرونگا اگرچہ جواب ملنے کی مجھے قطعی امید نہیں ہے کیونکہ مجھے اس بات کا پورا علم ہے کہ شعبہ صحت سے جڑے زیادہ طر لوگ بڑے سرمایہ دار ہیں اور ایک مخصوص طبقہ میں ان لوگوں کا اچھا خاصا اثر و رسوخ بھی ہے ، سیاست کے اعلی ایوانوں تک ان کی رسائی ہے ۔ اور جب سیاست دانوں پر آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے تو وہ سرمایہ دار طبقہ مالی امداد تو بلا لحاظ ذات ، جماعت ، رنگ و نسل و بنا کسی سیاسی وابستگی دل کھول کے ہر ایک کی کرتے ہیں اور سیاسی طور پر بھی جس کی چاہتے ہیں چپکے سے مدد کر دیتے ہیں۔ خیر میرا مقصد کسی پیچیدہ مسلے سے الجھنا بالکل نہیں ہے اور نہ ہی مجھے کسی کی ذاتی زندگی سے کچھ لینا دینا ہے۔ صرف نمایندگاں کے فرض منصبی سے جڑے ہوے معملات پر ان کی آراء کا شدت سے انتظار کرونگا۔
۱۔میڈیکل کالج راجوری سے منسلک ضلح ہسپتال میں کروڑوں روپے مالیت کی مشینیں اکثر خراب رہتیں ہیں ، کیوں؟
۲۔ دور دراز سے جو غریب مریض اخری امید لے کے اس شفاء خانے میں پہنچتا ہے اس کو پرائیویٹ نرسنگ ہوم یا جموں کا راستہ کیوں دکھایا جاتا ہے ؟
۳۔ راجوری ضلح میں پورے خطے کا میڈیکل کالج موجود ہے۔ بخار ، سانپ کاٹنے، زہر زنی، زچگی، اور معمولی سرجری کے مریضوں کو جموں ریفر کیوں کیا جاتا ہے ؟ جبکہ جموں بھی میڈیکل کالج ہے۔ ایک میڈیکل کالج سے دوسرے میڈیکل کالج میں مریض منتقل کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟
۴ اعلی تعلیم یافتہ ، پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے لیس فیکلٹی کی موجودگی اور مرکزی اہمیت رکھنے والے شفا خانے کے مقابلے میں عام کلینکوں اور نرسنگ ہوسوں میں او پی ڈی ، بڑی اور عام سرجری ،پلستر اور ڈریسنگ زیادہ تعداد میں کیوں ہوتی ہے ؟
۵۔ ضلح شفاء خانے سے منسلک سٹاف کی خدمات ہسپتال کیلئے کم اور پرائویٹ سیکٹر میں زیادہ کیوں استمال ہو رہیں ہیں؟
۶۔ ضلح شفا خانے کے اندر اور باہر آے دن عملے کی لاپرواہی، غیر شایستگی اور بے رخی کے ساتھ دواوں کی عدم دستیابی کے شکوے اور مظاہرے و احتجاج کیوں ہوتے ہیں؟
۷۔ میڈیکل کالج کا درجہ ملنے کے بعد بھی ہر شعبہ میں پیشہ ورانہ سٹاف کی کمی کی وجہ کیا ہے ؟
۹۔ روگی کلیان سمیتی اور ہسپتال کے دیگر غیر سرکاری رکن عوامی نمایندگاں کو احتجاجٗ استعفے کیوں دینے پڑ رہے ہیں ؟
۱۰۔ دیگر ملازموں کی طرح اس شفاء خانے سے منسلک سٹاف مخصوص عرصے کے بعد ٹرانسفر کے زمرے میں کیوں نہیں آتے؟ کیا کچھ لوگ شفاء خانے کے لائف لانگ ممبر مقرر کیے ہوے ہیں ؟
۱۱۔غرباء و مساکیں زیرے علاج مریضوں کیلئے مفت دوائیوں کی سہولیات کا فقدان کیوں ہے ؟
۱۲۔ میڈیکل کالج کے پروٹوکال کے اور ملازمیں کی سینگشن سٹرینتھ کے مطابق ملازمیں کی تعداد اور ضرورت کے مطابق تمام طر مشینری کی عدم دستیابی کیوں ہے؟
عام شہریوں اور دانشور طبقہ کیلئے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جیسا شعبہ تعلیم میں سرکاری سکولوں کی ایک منظم سوچ کے تحت حوصلہ شکنی اور پرایئویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائ کا سماج میں روجھان پیدا ہوا اور نتیجاتاٗ تعلیمی میداں میں بہت ساری اصطلاحات اور بہتری کے باوجود ایک منفی پہلو بھی رونما ہوا جس سے کہیں نہ کہیں غریب کا بچہ ضرور متاثر ہوا ۔ آج اساتذہ اکرام سے لیکر بڑے سے بڑے سرکاری افسر ، سیاست داں اور سرمایہ دار طبقہ پرائیوٹ نظام تعلیم کو ترجیح دیتا ہے۔۔ اور تمام طر سہولیات اور اعلی تعلیم یافتہ پیشہ ور سٹاف ہونے کے باوجود غریب کا بچہ سرکاری اداروں میں اکثر احساس کمتری کا شکار رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ شعبہ صحت میں بھی سرکاری اداروں کی افادیت کمزور پڑ جاے اور غریب طبقہ آپنی موت آپ مر جاے۔ تمام سیاسی، سماجی ، مذہبی اور غریب پرور رضاکار تنظیموں کے ساتھ ساتھ سماج کے دانشوروں کی آراء کا منتظر ہوں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا