مسجد ایا صوفیہ کی بازیافت اور عالمی طاقتوں کا دہرا رویہ

0
0

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

قومیں جب سیاسی،معاشی اور عسکری لحاظ سے پستی میں ہوتی ہیں تو اس کا قانونی طرزِ عمل بھی دنیا کی نگاہوں میں قابل مذمت قرار پاتا ہے ان کے ہر روئیے پر انگلی اٹھتی ہے’وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کوئی اقدام کرتی ہیں تب بھی مخالفتوں کا طوفان کھڑا ہوتا ہے اور عدل وانصاف کے معیار پر اپنے حقوق کے حصول میں سرگرم ہوتی ہیں تو بھی آواز اٹھتی ہے، اس کے برعکس آلات ووسائل اور معاشی قوتوں سے آراستہ اقوام کی وحشیانہ وارداتیں، غیر منصفانہ حرکتیں بھی لائق تحسین۔

 

10/جولائی 2020/کو عالم اسلام کے تاریخی ملک ترکی میں قومی عدالت کے ذریعے مسجد ایا صوفیہ جسے 1936/میں انگیریزی قوتوں کی خوشنودی کے لیے اسلام بیزار اور ملحدانہ ذہنیت کے حامل اتاترک مصطفی کمال پاشا نے اسلامی عناد کے نتیجے میں میوزیم میں بدل دیا تھا،دوبارہ اس کی حیثیت مسجد کی شکل میں بحال کی گئی تو ہر چند یہ اقدام بین الاقوامی لحاظ سے بھی اور قومی حقوق کی پاسداری کے اعتبار سے بھی عین انصاف تھا مگر عالمی طاقتوں نے اس پر اعتراض کرنا اپنا حق سمجھا اور ہر طرف سے اس کی مذمت شروع کردی،اور اس عمل کو نامناسب اور جمہوریت کے خلاف قرار دینے میں سرگرم ہو گئیں، آفرین ہو رجب طیب اردوغان پر کہ انھوں نے ان صداؤں پر ذرا بھی نوٹس نہیں لیا اور برملا اعلان کیا کہ اس حوالے سے کسی بھی ملک کی طرف سے بیان بازی ہماری ملک کی سالمیت پر حملہ تصور کیا جائے گا اس لیے کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے،

شوشل میڈیا پر اس تاریخی مسجد کی بازیافت پر تائید ومخالفت کا ایک ہنگامہ ہے’، حالانکہ یہ دونوں باتیں اور طرز عمل نامناسب اور اخلاقیات کے خلاف ہے’،یہ تو طے تھا اس مسجد کے حصول کی صورت میں اسلام مخالف قوتیں واویلا مچائیں گی اور اسے عالمی قانون کے خلاف ثابت کرنے کی پوری کوشش کریں گی اور توقع کے مطابق یہ صورت حال ظاہر بھی ہوئی،لیکن اہل اسلام کو بھی ایسے حالات میں جذبات کی رو میں بہہ جانے سے اجتناب کرنا چاہیے تھا اور تایئید کے نام پر مبارکبادیوں اور اظہار مسرت کے ہنگاموں سے دور رہنا چاہیے تھا،اللہ کے گھر کی آزادی یقیناً مسرتوں کا باعث ہے لیکن فتنہ وفساد سے بچنے کے لئے معتدل طرز عمل کا تقاضا تھا کہ اس پر خاموشی سے سجدہ شکر بجا لایا جائے تاکہ جذباتی نعروں سے مخالفت کے طوفانوں کو نفرتوں کی چنگاریاں فراہم نہ ہوں۔
عالمی سطح پر اس حوالے سے مخالفت وموافقت کا اثر بھارت میں بھی نظر آیا جس میں ایک طرف اس فیصلے کا پر جوش خیر مقدم ہے تو دوسری طرف اس کی مخالفت بھی زوروں پر ہے’اور فرقہ پرست ذہنیت اس فیصلے کو بابری مسجد کے ظالمانہ وجابرانہ قبضے کو درست قرار دینے میں دلیل جواز کی حیثیت سے دیکھ رہی ہے’اور یہ کہا جارہا ہے’کہ اگر ترکی میں چرچ کی جگہ کو مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے تو یہاں مندر کی جگہ تعمیر شدہ مسجد کو اگر مندر بنانے کی کوشش جاری ہے’اور اس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے’تو اس پر مخالفت کیوں؟ ترکی میں جو چیز حق ہے’یہاں وہی چیز ناحق کیسے ہوگئی؟ درحقیقت یہ سوال اور اعتراض نہایت غیر معقول اور انتہا پسندی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے’ورنہ انصاف پسند کی نگاہوں میں مذکورہ دونوں فیصلوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے’وہاں ایک مسجد جس میں چار سو سالوں سے پابندی سے نماز ہورہی تھی اسے انگریزی استعماریت کے تحت بند کرکے میوزیم بنادیا گیا اب عدالت کے فیصلے نے اسی مسجد کو بحال کیا ہے’، یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ صدیوں سے ایک مسجد جس کی تعمیر مسجد کی ہی ملکیت پر ہوئی تھی اور ابتدا ہی سے اس میں نماز ادا کی جارہی تھی طاقت کے زور پر اسے مسمار کرکے مندر کے لئے خاص کردیا گیا، مسجد کی تعمیر کسی مندر کی جگہ پر یا اسے منہدم کر کے ہوئی ہو اس کا پہلے بھی کوئی ثبوت نہیں تھا آج بھی عدالت عالیہ کی نظروں میں کوئی ثبوت نہیں ہے،
عیسائی دنیا نے ہمیشہ اسلام کے خلاف دہرا رویہ اختیار کیا ہے ہر وہ عمل جو خود ان کی نظروں میں انصاف ہے وہی طرز عمل عالم اسلام کے یہاں حقوق کی پامالیوں کے زمرے میں آجاتا ہے، اگر وہ انصاف کے ساتھ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایاصوفیہ کے متعلق عدالت کے فیصلے میں انہیں کوئی خرابی نظر نہیں آئے گی، مگر تعصب ہے کہ ہر مرحلے میں حقائق کو پوشیدہ رکھتا ہے،یہ تاریخ بالکل عیاں اور روشن ہے کہ جس وقت سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا تو اس میں مصالحت کی کہیں کوئی رمق نہیں تھی اہل شہر نے اس کے خلاف آخری دم تک مزاحمت کی تھی تفصیل اس اجمال کی یہ ہے’کہ،،ایا صوفیہ سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ ہونے تک مسیحیوں کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز رہا ہے،تقریبا پانچویں صدی عیسوی سے مسیحی دنیا دو بڑی سلطنتوں میں تقسیم ہوگئی تھی ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا اور اس میں بلقان،یونان،ایشائے کوچک،شام ،مصر ،اور حبشہ شامل تھے اور وہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بطریرک کہلاتا تھا اور دوسری بڑی سلطنت مغرب میں تھی، جس کا مرکز روم (اٹلی)تھا ۔یورپ کا بیشتر علاقہ اسی کے زیر نگیں تھا اور یہاں کا مذہبی پیشوا پوپ یا پاپا کہلاتا تھا ان دونوں سلطنتوں میں ہمیشہ سیاسی اختلافات مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات جاری رہے،مغربی سلطنت جس کا مرکز روم تھا وہ رومن کیتھولک کلیسا فرقہ کی تھی اور مشرقی سلطنت آرتھوڈوکس کلیسا فرقہ کی تھی ایا صوفیہ کا چرچ یہ آرتھوڈوکس کلیسا کا عالمی مرکز تھا (جہان دیدہ مفتی تقی عثمانی)

اس کلیسا کے متعلق اہل شہر کا عقیدہ تھا کہ یہ کسی طاقت کے ذریعے مفتوح نہیں ہوسکتا، اگر حملہ آور اس شہر پر قبضہ بھی کر لیں تب بھی ایا صوفیہ کا علاقہ اور عمارت حملہ آوروں سے محفوظ رہے گی اس میں داخل ہونے والوں پر آسمان کے فرشتے موت کا پیغام بن کر اتریں گے 1453/میں جب سلطان محمد فاتح نے اس شہر پر فتح حاصل کی تو اہل شہر سے یہ چرچ اور اس کے تمام حصے بھر گئے تھے اور فاتحین کی عبرت ناک بربادی کا تماشا دیکھنے کے لئے منتظر تھے،لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور پورے خطے پر عثمانی فوج نے کنٹرول سنبھال لیا ایک انگریز مؤرخ ایڈورڈ گبن لکھتا ہے،، گرجا کی تمام زمینی اور بالائی گیلریاں،پاپوں ،شوہروں،عورتوں،بچوں،پادریوں،راہبوں،اور کنواری ننوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھیں،کلیسا کے دروازوں کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ ان میں داخلہ ممکن ہی نہیں تھا،یہ سب لوگ اس مقدس گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کررہے تھے جسے وہ زمانہ دراز سے ایک ملاء اعلٰی کی لاہوتی عمارت سمجھ رہے تھے
یہ سب ایک افترا برداز الہام کی وجہ سے تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس ستون یعنی قسطنطین ستون تک پہونچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لئے نازل ہوگا اور اس آسمانی تلوار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کردیگا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا (the Decline And Fall of the Roman empire,697,696) لیکن ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہونچ گئے نہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا،اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی،کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔بالآخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوگئے اور سب کے جان ومال اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی (برقی میڈیا ضیاء الرحمن چترالی)

تاریخ کی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اس خطہ کے ایک اک ذرے کو سلطان محمد فاتح نے بزور قوت حاصل کیا تھا ایسی صورت میں بین الاقوامی اصول کے تحت اسے پورا اختیار تھا کہ عبادت گاہوں کو باقی رکھے یا مسمار کردے، لیکن اس نے مذہبی رواداری اور وسعت ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا نہیں کیا بلکہ اس عظیم الشان عمارت کو آرتھوڈوکس عیسائی پیشواؤں کی مرضی کے مطابق خطیر رقم جو اس کی ذاتی ملکیت تھی کے ذریعے اسے خریدا اس کے بعد اس نے اسے مسجد کی شکل دی، اس معاملہ خرید وفروخت کے کاغذات آج بھی موجود ہیں اور اس کی نقلیں اب تو شوشل میڈیا پر بھی گردش کررہی ہیں، اس ضمن میں یہ تحفظ اور اندیشے کہ عثمانیوں کی طاقت کے آگے مجبور ہو کر اہل کلیسا نے سودا کیا تھا درست اس لیے نہیں ہے کہ عیسائی دنیا میں چرچ وکلیسا کی عمارتوں اور زمینوں کو فروخت کردینا عام بات ہے، ماضی قریب میں کتنے کلیسا ؤں کو امریکہ سے یورپ تک میں فروخت کرکے ذاتی رہائش،تجارتی مال،اور میوزیم کی صورت میں بدل دیا گیا ہے، اگر ایا صوفیہ کو اس کے ذمہ داروں نے اہل اسلام کے ہاتھوں موٹی رقم کے عوض بیچ ڈالا تو اس میں سلطان یا فرمانروا کا قصور نہیں بلکہ مذہب کے علمبرداروں کا ہے۔

اس فیصلے سے اگر مسیحی دنیا کو تکلیف ہے’تو جائے تعجب نہیں قیامت یہ ہے’کہ قوم مسلم کے ان بہت سے افراد کو رنج وغم ہے’اور اس پر انھوں نے اظہار افسوس بھی کیا ہے’ انہیں مسیحی آوازوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے تاریخ پر ایک نظر ڈالنی چاہیے کہ اس قوم نے اسپین کی بے شمار عبادت گاہوں کے انہدام کے علاوہ تاریخی اور حسن وجمال کی شاہ کار مسجد قرطبہ کے ساتھ کیا کیا ہے، ایاصوفیہ سے پہلے اسپین پر جب عیسائیوں کا قبضہ ہوا تو اس کے مشہور شہر (Seville) کی جامع مسجد جو اسلامی تاریخ کا ایک نشان اور اسلامی ثقافت کی ایک شان تھی 1228/میں اس کی حیثیت تبدیل کر کے اسے چرچ بنا ڈالا آج بھی اس تاریخی عمارت میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح اس ملک کے تاریخی شہر قرطبہ میں دنیا بھر حسن وجمال اور وسعت کے لحاظ سے بے نظیر شمار کی جانے والی جامع قرطبہ جس کی تعمیر وتزئین میں اموی خلفاء عبدالرحمن داخل،عبدالرحمن ثانی اور عبد الرحمن ثالث نے اپنی صلاحیتیں جھونک دی تھیں، اسے وہاں کی حکومت نے چرچ میں بدل ڈالا، اسی فرانس کی جامع مسجد جسے سولہویں صدی عیسوی میں عثمانیوں نے بنایا تھا کلیسا کی صورت دے دی، انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلے مذکورہ مسجدوں پر بات ہو جنہیں بالجبر اور طاقت کے زور پر کلیساؤں میں بدل دیا گیا، مگر
ایسی صورت میں کون انصاف ودیانت کے تقاضوں کے مطابق تاریخ کی روشنی میں ان حقائق کا اظہار کرکے جرأت مندی کا مظاہرہ کرے، جہاں اغیار کی آنکھوں پر تعصب وعناد
کی عینک ہو اور اپنوں کے ذہن ودماغ پر روشن خیالی کا خمار۔۔۔
یہاں یہ مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں کہ چرچ کو مسجد میں بدل دیا گیا ہے بلکہ قانون کے مطابق خرید وفروخت کے نظام کے مطابق ایک مسجد جس میں چار سو سالوں سے نماز ہورہی تھی 1931میں اسے بند کرکے اس کی عمارت
کو طاقت کے زور پر میوزیم بنادکر اسلام دشمنی کا بدترین ثبوت پیش کیا گیا تھا، آج پھر قانون ہی کے مطابق اس کی اصل حیثیت کو واضح کرکے اس کے مقام کو بحال کیا گیا ہے، جو مذہبی حقوق اور انصاف کی ایک عرصے سے آواز تھی۔

مسجد انوار گوونڈی ممبئی
رابطہ نمبر 8767438283

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا