پانچ اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ بند،بازاروں میں تمام دکانیں بند رہیں
یواین آئی
سرینگر؍؍معروف حزب المجاہدین کمانڈر برہان مظفر وانی کی چوتھی برسی کے موقع پر بدھ کے روز وادی کشمیر میں کہیں مکمل تو کہیں جزوی ہڑتال رہی۔انتظامیہ نے برہان وانی کی برسی کے پیش نظر وادی کے تمام حساس علاقوں بالخصوص جنوبی کشمیر، سری نگر اور سوپور میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی تھی۔ یو این آئی اردو کو موصولہ اطلاعات کے مطابق موصوف کمانڈر کے آبائی وطن جنوبی کشمیر کے سبھی چار اضلاع میں مکمل ہڑتال رہی۔ بازاروں میں تمام دکانیں بند رہیں اور حکام نے بھی ان اضلاع کے تمام حساس علاقوں میں لوگوں کی نقل وحمل پر جزوی پابندی عائد کی تھی۔برہان وانی کی برسی کے پیش نظر جنوبی کشمیر اور شمالی کشمیر کے ایپل ٹاون سوپور میں بدھ کو موبائل انٹرنیٹ خدمات معطل رکھی گئیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ خدمات کو احتیاطی طور پر بند کردیا گیا ہے تاکہ امن قانون کی بحالی کو یقینی بنایا جاسکے۔موبائل انٹرنیٹ کی معطلی کی وجہ سے اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور دیگر تعلیمی اداروں کو آن لائن امتحانات ملتوی کرنا پڑے ہیں۔ وادی میں طلبا کا کہنا ہے کہ سست رفتار انٹرنیٹ خدمات اور اس کی بار بار معطلی سے ان کی تعلیم بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ سری نگر کے بیشتر علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار نے بتایا کہ سری نگر میں برہان وانی کی برسی کے موقع پر بغیر کسی ہڑتال کال کے مکمل ہڑتال ہے۔انہوں نے کہا کہ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کے گرد وپیش بشمول جامع مارکیٹ کو حکام نے بند کردیا ہے اور اس کی طرف جانے والے راستوں کو خار دار تار سے سیل کیا گیا ہے اور سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری کو تعینات کیا گیا ہے۔موصوف نے بتایا کہ بازاروں میں دکانیں بند ہیں اور سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے گذشتہ قریب چار ماہ سے بند ہی ہے تاہم نجی گاڑیوں کا رش برابر جاری ہے۔بتادیں کہ برہان وانی کی گذشتہ تین برسیوں کے موقعوں پر نہ صرف وادی بھر میں ہمہ گیر ہڑتال رہی بلکہ حکام کی طرف سے بھی سری نگر اور جنوبی کشمیر کے حساس علاقوں میں کرفیو بھی نافذ رہا۔ادھر روایت کے برعکس امسال موصوف کمانڈر کی برسی کے موقع پر کسی بھی علیحدگی پسند جماعت یا لیڈر کی طرف سے ہڑتال کی کال نہیں دی گئی۔ گذشتہ روز عمر رسیدہ علیحدگی پسند لیڈر سید علی گیلانی سے منسوب ایک پریس نوٹ وائرل ہوا جس میں برہان وانی کی برسی کے موقع پر ہڑتال کی کال دی گئی تھی لیکن پولیس نے اس پریس نوٹ کو فیملی ذرائع کا حوالہ دیکر جعلی قرار دیا تاہم گیلانی نے خود اس پریس نوٹ کے اصلی یا نقلی ہونے کے بارے میں لب کشائی کرنے سے احتراز ہی کیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ بیشتر علیحدگی پسند لیڈروں کی سال گذشتہ کے ماہ اگست سے مسلسل نظر بندی ہڑتال کال نہ دینے کی ایک وجہ ہے۔جنوبی کشمیر کے چار اضلاع کے علاوہ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے ایپل ٹاؤن سوپور میں بھی بدھ کو مکمل ہڑتال رہی۔وادی کے باقی علاقوں سے بھی جزوی ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ بازاروں میں دکانیں بند رہیں تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل جاری رہی۔قابل ذکر ہے کہ قصبہ ترال کے رہنے والے 22 سالہ برہان وانی کو 8 جولائی 2016 کو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے بم ڈورہ ککرناگ میں ایک مختصر جھڑپ کے دوران اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ہلاک کیا گیا تھا۔ ایچ ایم کا پوسٹر بوائے سمجھے جانے والے برہان کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی پوری وادی ابل پڑی تھی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجودگی کے باعث برہان وانی کشمیر میں ایک گھریلو نام بن چکے تھے۔وادی میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی مظاہروں کی لہر کے دوران سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں کم از کم 96 عام شہری ہلاک جبکہ 15 ہزار دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ پر مشتمل مزاحمتی قیادت نے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ مزاحمتی پسند قیادت کی ہی اپیل پر کم از کم 150 دنوں تک ہڑتال کی گئی تھی۔ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار لگاتار 133 دنوں تک ہڑتال کی گئی تھی۔برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پیلٹ گن یا چھرے والی بندوق کے سبب سینکڑوں کی تعداد میں عام شہری بالخصوص نوجوان اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے تھے جبکہ دیگر 14 کی موت واقع ہوئی تھی۔ اگرچہ پیلٹ گن کے خلاف عالمی سطح پر اٹھنے والی آوازوں کے درمیان اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ستمبر 2016 کے اوئل میں سری نگر میں یہ اعلان کیا تھا کہ ‘اب کشمیر میں چھرے والی بندوق کی جگہ پاوا شیلوں کا استعمال ہوگا’ جس سے کسی کی موت نہیں ہوگی، لیکن باوجود اْس اعلان کے وادی میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف چھرے والی بندوق کا استعمال بدستور جاری ہے۔سخت ترین کرفیو اور پابندیوں کے باوجود ایک محتاط اندازے کے مطابق 9 جولائی کو قریب 5 لاکھ لوگوں نے ترال پہنچ کر برہان وانی کے جلوس جنازہ میں شرکت کی تھی جبکہ نماز جنازہ کم از کم 4 بار ادا کی گئی تھی۔ اسی روز وادی کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔برہان وانی کی ہلاکت کے خلاف وادی بھر میں بھڑک اٹھنے والے شدید پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد سخت ترین کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا جس کو مختلف علاقوں میں 55 دنوں تک جاری رکھا گیا تھا۔ برہان کی ہلاکت کے بعد وادی میں 19 نومبر کو پہلی بار کوئی ہڑتال نہیں کی گئی تھی کیونکہ مزاحمتی قیادت نے اپنے ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر میں دو روزہ ڈھیل کا اعلان کیا تھا۔