از:ڈاکٹر مفتی محمد ساجد احمد
ہر دور میں اسلام اور تقدسات اسلام کو طرح طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے ،تاریخ کے اوراق بہ بانگ دہل یہ اعلان کر رہے ہیں اہل حق پر ہوئے ظلم وستم کیبرہنہ تصویر دیکھنی ہے تو میرے دامن میں پناہ لو !میں تمہیں ایک بڑھ کر ایک کی تفصیلی تاریخ بتاؤں گی ،ہر دور میں فتنوں نے جنم لیا ہےلیکن ہر دور میں اہل حق نے جہاد سے منہ نہیں موڑا اس جہاد کی نوعیت خواہ کوئی بھی رہی ہو ،انبیاے سابقین سے لے امت محمدیہ کےوفادا ر علما تک کوئی بھی ایسا نہ ملے گا جو فتنوں سے اتفاق رکھے ،حضرت موسیٰ کے دور میں فرعون کا فتنہ ،حضرت ابراہیم کے دور میں نمرود،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دامن عصمت کو داغ دار کرنے کا فتنہ ،حضور نبی کریم ﷺکے دور نزول اجلال میں بے شمار ولاتعداد فتنوں کا ظہور ہوا اور ہر فتنہ کا سد باب آپ نے فرمایا،چاہے کہ وہ بت پرستی کا فتنہ ہو،یا نو پید بچیوں کے قتل وغارت گری کا فتنہ یا یہ کہ عورتوں کو منحوس سمجھے جانے کا ،انسانی وقعت کے تحفظات کا خطرہ ہو یا کہ عظمت نسواں کوتارتار کرنے کا،تعدد الٰہ کا تصور ہو یا کہ عصبیت و اونچ نیچ کا فتنہ ہو ،ہر طرح کے چیلنج کا جواب آپﷺنے کھل کر دیا اور جواب بھی ایسا دیا کہ اسی جواب پر آخری مہر لگ گئی کہ اب اس سے بہتر جواب ہو ہی نہیں سکتا،آخری نبی حضور نبی مکرم ﷺکی امت کی خاصیت بن گئی کہ زمانہ کیسے ہی رنگ بدلے ہر محاذ پر دین کی حفاظت ،معمولات اور عزت وعصمت کا تحفظ کرنا ہمارے ایمان کا جزء لاینفک رہا ہے ،اصحاب کرام سے لے کر تا دم تحریر اہل حق کے جہاد کا مختصر تاریخی جائزہ پیش خدمت ہے ،جب ابو علی جبائی نےاسلام کے بنیادی نقطہ نظر کو چیلنج کیا اور ایک نئے عقیدہ ”پرہیز گار کو جنت ،گناہ گار کو دوزخ اور جو دونوں نہ ہو اس کو جنت ودوذخ دونوں میں نہ رکھنا اللہ تعاالیٰ پر لازم ہے “کی بنیاد رکھی ،اس وقت امام اشعری نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ جبائی آپ کا استاذ ہے بھر پور مخالفت کی اور اسلام کے صحیح نظریہ کی تائید وتشہیر فرمائی،یہیں سے ”اہل سنت “کا لاحقہ اہل اسلام کے ساتھ شروع ہوا ،زمانہ کی کروٹیں بدلتی رہیں ،حالات کی تبدیلیاں ہوتی رہیں ،چنوتیوں کے رنگ وروپ بدلتے رہے ایک زمانہ اماماحمد بن حنبل کا آیا ،حکومت کے بل بوتے ،طاقت کے زور پر ،قوت کے دباؤ سے بہتوں کی زبانیں بند کرائی گئیں ،بہتوں سے تائید تو ثیق حاصل کی گئی لیکن جب ”خلق قرآن “کا مسئلہ امام احمد بن حنبل سے دریافت کیا گیا تو نہ ماقبل کے لوگوں کی طرح تائید کی اور نہ سکوت اختیار کیا بلکہ خدا داد صلاحیت کو بروے کار لاکر اسلام کی صحیح ترجمانی کی ،بے خوف وخطر ،حکومت کے لاہ ولشکر سےبے پرواہ ہوکر احقا حق اور بطال باطل کا مجاہدانہ کردار ادا کیا ،جس کی پاداش میں آپ کو کتنے کوڑے کھانے پڑے ،حکومتی کارندے اصرار پر اصرار کر،رہے تھے کہ اگرآپ میرے منشا کے مطابق اپنا جواب کرلیں تو یہ مصیبت رفع ہوجائے گی لیکن دین کے اس عظیم محافظ نے کوڑے تو کھا لیے لیکن اسلام کی اشاعت و صحیح شبیہ کی تشہر وتوضیح کو آنچ نہ آنے دیا ،اسی طرح سے امام بخاری وامام مسلم نے بھیمجاہدانہ کردار اد کیا ۔۔۔۔۔۱۸۵۷ءمیں علامہ فضل حق خیر آبادی نے جب فتوی جہاد صادر فرمایا اس وقت آپ پر کتنے ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑےگئے تاریخ کے آنکھوں خونی سطور کو آگ برساتی حکومتی کاکردگی کو دیکھا جاسکتا ہے،اس پر حد تو اس وقت ہوگئی صاحب جب خاندان شاہ عبدالحق محدث دہلوی کے چشم وچراغ بھی علامہ موصوف کے باغی ہوگئے،اصحاب جبہ ودستار،ساکنان ممبر محراب،قائلین قال اللہ وقال الرسول،درس وتدریس کے شیوخ بھی آپ کی مخالفت میں اتر آئے اور فتوی جہاد کی سخت ترین مخالفت کی ،اس مخالفت پر ان کو انعام واکرام ،دعوت ،پارٹی شارٹی ،نذرانہ وشکرانہ سےخوب خوب نوازا گیا ،علامہ موصوف کے خلاف کتابیں لکھوائیں گئیں ،علامہ کےمعمولات ونظریات کی مخالفت میں جلسے جلوس خطبات وتقاریر ،کتب ورسائل کی بھر مار کردی گئی لیکن وہ مرد آہن صرف ایک چیز جانتا تھا وہ یہ تھی کہ ”اسلام کی عظمت پر اگر آنچ آئی یا نظام اسلام سے کسی بد بخت نے کھیلنے کی کوشش کی فضل حق کا قلم قہر بن کر ٹوٹےگا“عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے ،وکلا نے آپ کو پیش کش کی ”آپ صرف ایک بار کہہ دیں کہ فتوی میں نے نہیں صادر کیا ہے بس“بچانا میرا کام ہے ،یہی بات عدالت میں پیشی کے وقت جب آپ کٹ گھرے میں تھے دہرائی گئی اس وقت بھی اسلام کا یہ شیر نردہاڑتےہوئے باطل پرستوں کے حوصلہ پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا کہ ”فتوی فضل حق نے ہی صادر کیا ہے ان سفید چمڑی ملک وملت کے دشمنوں سے جہاد فرض ”جس کی پاداش میں آپ کو “کالاپانیکی سزا ہوئیاور وہاں کی مسموم فضاؤں نے آپ کے طبع ناز کو بہت نقصان پہنچایا حتی کہ آخری سانس بھی اسی کالا پانی میں لی اور واصل الی الحق ہوئے ۔۔یہ دور بھی دور خیرآبادی سے کچھ مختلف نہیں معلوم ہوتا ہے ،وہاں پر چیلنج اسلام وکفر کے ساتھ نام نہاد جبہ ودستار کے حاملین مولویوں سے تھا یہاں ببھی چیلنج اسلام کے ساتھ کفر کا تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ قادیانیت،رافضیت وشعیت و دیگرمذاہبباطلہ حق اور اہلیان حق کی مخالفتب میں بہ ارادہ فاسد طرح طرح کے حربے آزمائی کیے جارہے ہیں، لیکن ہر دور کی طرح اس دور میں بھی ایسے افراد ہیں جو امام اشعری کی نیابت کا فریضہ انجام دینا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں ،جن کو امام احمد بن حنبل کی تاریخ زندگی سے ایک حوصلہ ملتا ہے ،علامہ فضل حق خیرآبادی کے کردار سے اظہار حق واحقاق حق میں جرأت و بہادری کو ایک نئی سمت ملتی ہے،اہلیان پاکستان خوش قسمت ہیں کہ اتنی مضبوط فکر ،محنت وجفا کش ہستی ،جواں مرد وبے باک ،فولادی ارادے کا مالک ،چٹانی قوت کا علم بردار ،فکر رضا کا سچا وارث،قائد ملت ،کنزالعلما،مفتی عدیم المثال،ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب قبلہ دام ظلہ علینا کو آپ کے درمیان رہ کر آپ کے ایمان کی حفاظت کا علم بردار بنایا اور یہ حوصلہ بخشا کہ اہل باطل جتنا جی چاہے رگڑتے رہیں ہم کہیں گے وہی جو حق ہے ،ہم ترجمانی مذہب صحیحہ کی ہی کریں گے ،اگر کوئی مولیٰ علی کی عظمت پر انگلی اٹھائے گا تو بھی خیر نہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کردار کشی کی کوشش کرے گا تو اس کی بھی شامت آنی ہے ،نہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت پر آنچ آنے دیں گے نہ ہی حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عظمت کو پامال ہونے دیں گے ،ہمارا وجود ہی اسی لیے ہوا ہے کہ ہم اپنے اکابرین کی عزت وعظمت کا تحفظ کریں ،دین کی حفاظت کریں ،اللہ عمر دراز عطا فرمائے قبلہ جلالی صاحب کو جنہوں نے رافضیت وشعییت کی انیٹ سے اینٹ بجا دی ،غیر مقلدین ودیابنہ اور ملحدین کا ناطقہ بند کردیا ،فکر رضا کی ترجمانی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی اور ”سر بکف تیار ہیں ہم“کا نعرہ اپنے ذہن وفکر کےصفحہ پر رکھا،ہر میدان کو ایک نئی جہت عطا کی مثلا ”خطابت“روایتی انداز انداز سے ہٹ کر علمی وتحقیقی بیان کو نشأۃ ثانیہ بخشی ،طرز تحریر،جس دور میں چھوٹے چھوٹے عنوانات پر اپنی صلاحیت و علمی کاٹھ دکھانے والےبلا ضرورت کئی کئی سو صفحات کو کالا کرجاتے تھے وہیں پر آپ نے بہت ہی اہم اہم موضوعات پر اپنے تحقیق بیانات کو ہی کتابچہ کی شکل دے کر عوام کے درمیان نہایت ہی مختصر تعداد صفحات میں پیش کیا،قبلہ جلالی صاحب کے خطاب میں نہایت ہی سنجیدگی اور دلائل کی کثرت ہوتی ہے جو بھی موقف اختیار کرتے ہیں وہ بزرگوں کی کتابوں سے ہی ماخوذ ہوتے ہیں اسی کی تائید میں دلائل کی کثرت سے مسئلہ کی نوعیت کو پیش کرتے ہیں ،استحضار اتنا معیاری ہے کہ ماشاء اللہ صبح فتنہ اٹھتا ہے اور شام کو ہی اس عنوان پر ایک طویل بحث پر مشتمل مدلل گفتگو کا اعلان کردیتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے بعض دفعہ تو ۲۴؍ گھنٹہ ہی میں اٹھنے والے فتنے کو کچلنے میں کام یاب ہوتے ہیں ،دور اندیشی بھی کیا خوب ہے ،اللہ نظر بد اور حاسدوں کی حسد سے بچائے ،ابھی حالیہ معاملات پر رافضیوں نے جگر گوشہ رسول ،ملکہ جنت ،حضرت سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آڑ میں حضرت سیدنا صدیق اکبر پر طعن وتشنیع کا ارادہ فاسد کرنا چاہا،اس پر اس مرد آہن نے خوب سے خوب تر دلائل کی روشنی میں مریدان باطلہ کا رد بلیغ فرماتے ہوئے مسئلہ باغ فدک پر نہایت ہی شان دار گفتگو فرمائی ،ہاں یہ اور بات ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں ”جب فدک مانگ رہی تھیں خطا پر تھیں“کا استعمال فرمایا جو کہ موقع ومحل کے اعتبار سے زیادہ سے زیادہ خلاف انسب تھا بس لیکن کیا تھا ایرانی روپیوں کے پلے ہوئے رافضیوں اور شیعوں نے اور کچھ اہل سنت کے بھی علما ان کے دام فریب میں آ کر ہوش حواس کھو بیٹھے اور بلا وجہ سر پر آسمان اٹھا لیا اور دھڑاک سے گستاخی کا لیبل چسپاں کردیالیکن جب شیر نر نے دہاڑ لگائی کہ گستاخی کا فتویٰ لگانے والے مفتیان کرام سامنے آئیں تو مباہلے کی دعوت دینے والے بھی گھر کے برآمدے سے ہی غائب ہوگئے گویا کہ گدھے کی سینگ ہی نہ تھی ۔اللہ تعالیٰ امیر کشور علم وفن ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب قبلہ کی حفاظت فرمائے۔آمین۔ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم ”تحریک تحفظ عقائڈ“اپنی پوری ٹیم کے ساتھ آپ کی تائید وتوثیق اور حمایت کرتے ہیں اور علمائے پاکستان اور رافضیت زدہ ٹٹوں کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ ”کلنہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا“اگر شریعت اسلامیہ کی روشنی میں کوئی خطا کسی سے سرزد ہوجائےتو بالکل اصول کی روشنی میں مواخذہ کریں لیکن کسی کی عظمت کا آڑ لے کر کسی کی عظمت سے کھیلنے والے کے ہم راہ نہ بنیں !
مضمون نگار:تحریک تحفظ عقاید کے نگراں ہیں