ان دنوں جموں و کشمیر میں بجلی کو لیکر کئی طرح کی مشکلات مستقبل قریب میں دکھائی دے رہی ہیں ۔ایک جانب محکمہ بجلی میںکام کر رہے ملازمین ان خدشات کا سامنا کر رہے ہیں کہ بجلی کی نجکاری ہونے کی وجہ سے کہیں انہیں گھر کا راستہ نہ دکھا یا جائے ۔وہیں دوسری جانب بجلی کی نجکاری سے صارفین بھی پریشا ن ہیں کہ ان کی کمر پہلے سے کرونا نے توڑ رکھی ہے اور اب نہ جانے کتنے بڑے بل ادا کرنے پڑیں گے لیکن ان سب معاملات کے مابین ایک نئی مصیبت عوام کو دکھائی دے رہی ہے اوروہ جموں و کشمیر میں اسمارٹ الکٹری سٹی میٹر کی تنصیب ہے ۔خبروں کے مطابق جموں و کشمیر میں ایک لاکھ پندرہ ہزار میٹر نصب کئے جانیں ہیں ۔وہیں جموں اور کشمیر کے مابین ان میٹرس کی تنصیب کو لیکر چہ مگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ جموں میں اسی ہزار میٹر نصب کئے جائیں گے اور کشمیر میں پینتیس ہزار میٹر کی تنصیب ہونی ہے ۔کرونا وائرس کی وجہ سے ملک گیر لاک ڈائون کا پانچواں مرحلہ ہے جس میں کئی سرگرمیوں کی اجازت بھی دی گئی ہے لیکن اس سب کے بیچ سماج کا غریب اور پسماندہ طبقہ کافی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ ان کے کام کاج میں ایک بریک سی لگ گئی ہے اور آئے روز ان کی مشکلات میں اضا فہ ہو رہا ہے ۔عوامی حلقوں کی جانب سے حکومت سے مطالبات کئے جا رہے ہیں کہ لاک ڈائون کے چلتے بجلی اور پانی کے کرائے کو معاف کیا جائے لیکن اسی وقت اسمارٹ بجلی میٹر کی تنصیب کا فیصلہ کسی مصیبت سے کم نہیں ہے ۔اسی سلسلے میں کئی سیاسی جماعتیں اور کارکنان احتجاجی مظاہرے کر تے ہوئے اسمارٹ میٹرس کی تنصیب کی مخالفت کر رہے ہیں ۔وہیں یوتھ کانگریس کی جانب سے جموں میں ایک احتجاج میں مظاہرین نے کہا کہ غریب عوام بجلی کے بڑے بڑے بل کہاں سے ادا کرے گی ،مظاہرین نے کہا کہ ہم مرکزی سرکار سے اپیل کر رہے تھے کہ لاک ڈائون کی وجہ سے سماج کا ہر ایک طبقہ متاثر ہوا ہے ،اسلئے لاک ڈائون کی مدت کے دوران بجلی اور پانی کا کرایہ معاف کیا جائے ۔عوامی حلقوں کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ لاک ڈائون کے دوران ہم کرونا جیسی وبائی مرض کے ساتھ لڑائی لڑیں یا حکومتی سطح پر آرہے نئے فیصلوں اور پالیسیوں سے لڑائی لڑیں ۔حکومتی سطح پر عوامی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کم از کم بجلی اورپانی کا کرایہ معاف کرنے کیلئے ایک موثر پالیسی مرتب کی جانی چاہئے تاکہ مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ اس بوجھ سے بچ سکے اور دو وقت کی روٹی اپنے اہل خانہ کو فراہم کر سکے۔