والدین رحمت ہے زحمت نہیں

0
0

ذاکرالرحمٰن
7006576424
والدین، جیسی عظیم الشان عظمت کو کتابوں یا مکالموں میں نوشت کرنا فقط اہل دنیا کے بس کی بات نہیں۔لیکن اپنی محبت کو دلاسہ اور دلجوئی کی خاطر کانپتے ہاتھوں سے قلم کو ہاتھ میں تھام کر کچھ الفاظ تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں ایک صاحب عقل انسان کے لیے سب زیادہ مخلص سچے،باوفا چہرے اس کے والدین ہوتے ہیں جو کہ خود سارے دکھ اور پریشانیاں جھیلتے ہوئے نہ صرف اولاد کی پرورش کرتے ہیں بلکہ اسے ترقی اور خوشحالی کے اعلیٰ منازل پر دیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے والدین کی عظمت پر خصوصی زور دیا جاتا ہے لیکن دنیا بھر کی اقوام و مذاہب میں والدین کے سب سے زیادہ حقوق اور والدین کی سب سے زیادہ عظمت اسلام نے بیان کی ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کتنا حق ہے؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔ یعنی یہ کہ اگر تم ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرو گے اور ان کو راضی رکھو گے تو جنت پالوگے اور اس کے برعکس اگر ان کی نافرمانی اور ایذا ء رسانی کرکے انہیں ناراض کرو گے اور ان کا دل دکھاؤ گے تو پھر تمہارا گھر دوزخ میں ہو گا۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔اس حدیث مبارکہ کا مطلب اور مدعا یہ ہے کہ جو اپنے مالک و خالق کو راضی رکھنا چاہے وہ اپنے والد کو راضی اور خوش رکھے۔

اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہونے کیلئے والد کی رضا جوئی شرط ہے اور والد کی ناراضگی کا لازمی نتیجہ اللہ کی ناراضگی ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ والد اگر شریعت کے خلاف حکم دے تو اولاد کے لئے اس حکم کا ماننا ضروری نہیں تاہم اس وقت بھی یہ ضروری ہے کہ والد کا احترام اور ان کی خدمت کرتے رہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری ماں، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں، پھر میں کہتا ہوں تمہاری ماں، اس کے بعد تمہارے باپ کا حق ہے، اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ دار ہوں۔

یہی حدیث مبارکہ جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں بھی مذکور ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خدمت اور حسن سلوک کے بارے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے، کیونکہ کئی جگہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے ساتھ خاص طور سے ماں کی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو حمل اور ولادت میں اور پھر دودھ پلانے اور پالنے میں خصوصیت کے ساتھ ماں کو اٹھانی پڑتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا وہ آدمی ذلیل ہو، وہ خوار ہو، وہ رسوا ہو۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون؟ یعنی کس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے؟ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا وہ بدنصیب جو ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر ان کی خدمت او ر ان کا دل خوش کرکے جنت حاصل نہ کر سکے۔

بلاشبہ ماں، باپ قدرت کی عظیم نعمت ہیں وہ بچے کو پیدائش سے لے کر اس کی تعلیم وتربیت اور معاشرے میں زندہ رہنے کے قابل بنانے تک اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس کی ہر ہر قدم پر رہنمائی کرتے ہیں، اسے زمانے کے ہر سردوگرم سے بچاتے ہیں، گویا اس کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیتے ہیں، لیکن افسوس کہ جب وہی اولاد بڑی ہوجاتی ہے تو والدین کو اکیلا چھوڑ دیتی ہے۔آج کل اس دور میں خاص کر میں میری حال زندگی میں،میں نے ایسے بہت سارے واقعات دیکھے بھی اور سنے ہیں کی والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو اولاد والدین کو ایک بوجھ سمجھنے لگتی ہے اکثر اولاد والدین کی ہر بات کو نظرانداز یا پھر یہ کہے کر ٹوک دیتے ہیں تمہیں کیا معلوم ہیں آپ تو جانتے ہی نہیں کچھ لیکن یہ اولاد نہیں سمجھتی کی اسی والد یا والدہ نے تمہیں اس قابل بنایا۔اگر ان باتوں سے اولاد گریز کرے اس برعکس والدین کو خوش کرنے میں پہل کرے۔ہمارے مذاہب کے مطابق ماں باپ کی خدمت اور انہیں سکون پہنچانا جنت حاصل کرنے کا خاص وسیلہ ہے اور اس کے برعکس ان کی نافرمانی اور ایذاء رسانی آدمی کو دوزخی بنا دیتی ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب ماں باپ بڑھاپے کو پہنچیں تو اس وقت وہ خدمت اور سکون کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں اور اس حالت میں ان کی خدمت اللہ کے نزدیک نہایت محبوب اور مقبول عمل اور جنت تک پہنچنے کا سیدھا وسیلہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جس بندے کو اس کا موقع میسر فرمائے اور وہ ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا بڑھاپا پائے اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت تک نہ پہنچ سکے بلاشبہ وہ بڑا بدنصیب اور محروم ہے اور ایسوں کے حق میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمانا ہے کہ وہ نامراد ہوں، ذلیل و خوار ہوں، رسوا ہوں۔

ایک کہاوت ہے "جیسا بؤ گے ویسا کاٹو گے۔

اس موقع پر میرے والد صاحب کا بتایا ہوا مشہور واقعہ یاد آیا ہے ایک شخص اپنے والدین کو بہت ستاتا تھا یہاں تک کہ والدہ فوت ہو گئی اور والد بوڑھا ہو گیا اور کسی خطرناک بیماری کا شکار ہو گیا۔یہ شخص اس وقت والد کو ستانے سے باز نہ آیا اور اس سے جان چھڑانے کی سوچ لی اور بیمار والد کو اٹھا کر ایک دریا میں پھینکنے کیلئے چل پڑا جب یہ شخص دریا کے کنارے پہنچا تو والد نے کہا بیٹا کچھ دیر ٹھہر جاؤ خود بھی آرام کر لو اور میری ایک بات بھی سن لو چنانچہ اس نے بیمار والد کو زمین پر بٹھایا تو والد نے کہا کہ بیٹا میں بھی اپنے والد یعنی تمہارے دادا کو اسی دریا میں پھینک آیا تھا وہ وقت مجھے پوری طرح یاد ہے جب تمہارے مرحوم دادا چلا چلا کر کہتے تھے بیٹا اپنے بیٹوں سے کہنا کی وہ تمہیں اس دریا میں یہاں سے نہیں بلکہ تھوڑا نیچے سے پھینکیں یہاں صرف پتھر ہی پتھر ہیں ۔ یہ سن کر نوجوان کو حیرت ہوئی اور غور وفکر کیا تو کانپ اٹھا اور اپنا انجام بھی نظر آ گیا۔ نوجوان نے وہیں توبہ کی اور والد کو لے کر واپس گھر آگیا اور اس کی زندگی تک اس کی خدمت میں لگا رہا۔اولیا ئے کاملین کے نزدیک اپنے ماں باپ کا چہرہ محبت سے دیکھنا اولاد کے لئے عبادت ہے چنانچہ جو اولاد اپنے ماں باپ کا چہرہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کیلئے دیکھتے ہیں تو انہیں ایک حج کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ساری نافرمانیاں بخش دیتا ہے۔آج کل کے ترکی آفتا موجودہ دور میں بہت سی جگہوں پر اولاد والدین کے معاملہ میں بڑا سخت رویہ رکھتی ہے، ماں باپ اگر نصیحت کریں تو قطعاً نہیں مانا جاتا۔ ایسے نافرمان افراد کو اپنی پیدائش کے مراحل کو یاد کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ والدین نے کس طرح اسے چلنا سکھایا، بولنا سکھایا، اس کی پرورش کی اور والدین کی عظیم خدمات کی بدولت آج اسے یہ مقام و مرتبہ ملا ہے۔
کہیں جگہوں پر یہ دیکھا گیا ہے کی اولاد والدہ کو ہی محبت کا مستحق سمجھتے ہیں جبکہ ﷲ تعالیٰ نے دونوں کے مرتبے کو اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔ والدہ کے پاؤں تلے اگر جنت ہے تو والد جنت کا دروازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی خدمت ان کی دلجوئی اور حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا