ڈاکٹر اشتیاق احمد شاہ
عالم انسانیت جب سے وجود میں آیا اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کی رہبری کے لئے محتلف
زمانوں میں انبیاء و رسل علیہم السلام مبعوث فرمائے۔ظہور اسلام سے پہلے عالم انسانیت کی بات
کریں تو ہم صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا اجمالی جائزہ لیں گے،اللہ نے حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا قرآن گواہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایام طفولت میں
ہی اعلان کیا تھا "میں خدا نہیں، خدا کا بیٹا نہیں بلکہ میں اس کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا
فرمائی، اور مجھے نبی بنا کر مبعوث فرمایا" مگر انکی امت نے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے
ابن اللہ (اللہ کا بیٹا) کی تہمت لگا دی اور توحید کے نعرہ کو سرے سے ہی خارج کردیا۔
انسانی تاریخ کے محققین لکھتے ہیں کہ چھٹی صدی عیسوی میں انسانیت کی تباہ کاریوں
کی وجہ صرف خالق و مالک کی وحدانیت کا انکار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کائنات کے گوشہ گوشہ میں
اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی فسادات نمودار ہوئے ساری انسانیت پر لرزہ طاری تھا۔ در اصل
انسان اپنی حقیقت کو بھول چکا تھا کہ کس طرح اللہ تبارک وتعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کے
مجسمہ خاکی کو تیار فرماکر اپنی مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اشرف المخلوقات کے
انعام سے نوازہ، یہ لاشعور مخلوق اپنی گمراہیوں کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی کو بھول چکی تھی
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ گمراہی کسی ایک ملک، ریاست، قبیلہ، فرد میں نہیں تھی بلکہ عالم
انسانیت اس کا شکار تھا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ انسانیت کا کوئی پہلو ایسا نہیں تھا جس سے فساد و
عناد کی بو نہ آتی ہو۔
مگر اس رحیم و کریم ذات نے کبھی بھی انسان کو اپنے احسانات و کرامات سے فراموش نہیں
کیا بلکہ ظلمات کو مٹانے کے لئے ایک نئے سورج کا ظہور فرمایا۔ماہرین جغرافیہ لکھتے ہیں کہ
اس وقت کی معلوم شدہ دنیا کے نقشے کو اگر دیکھا جائے تو ہم پر یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ اس وقت
شہر مکہ کا وہی مقام تھا جو انسانی جسم کے اعضاء میں دل کا مقام ہے اور اسی شہر میں ساری
انسانیت کے ہادی و رہبر کو اللہ تبارک وتعالی نے مبعوث فرمایا۔
مکہ معظمہ میں انسانیت کا وہ علمبردار جلوہ افروز ہوا جس سے صرف جزیرہ عرب کا
نصیب نہیں جگمگایا بلکہ عالم انسانیت جو صدیوں سے درندگی، ظلم و ستم جبروتشدد، معاشی اور
سیاسی غلامی کے آہنی شکنجوں میں جکڑا ہوا تھا ان کی تشریف آوری سے ہر فرد، ہر قبیلہ کا
نصیب کھل گیا۔
اللہ تبارک و تعالی نے اپنے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما کر یہ
اعلان کر دیا کہ بشری لبادہ میں یہ خلق عظیم کا پیکر، یہ مساوات کا منبع ، علم و آگاہی کے
سمندروں میں غرقاب موتیوں کو عیاں کرنے والی ذات ، ایک بہترین ضابطہ حیات کا پیامبر ہے ۔ اس
کو اپنی زندگیوں کا مرکز و محور بنا لو اسی میں دارین کی بقا ہے اس کا حکم عالمی حکم نامہ ہوگا۔
محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جن حالات میں بعثت ہوئی ان کا اجمالی جائزہ ہم
لے چکے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے 23 سال کی کاوشوں کے بعد ایسی ریاست اور اس میں
ایسے معاشرہ کی بنیاد رکھی جو یقیناً قابل تقلید تھا۔ سارے عالم انسانیت کے لیے ایک ایسا عالمی حکم
نامہ جاری فرمایا جسے ہم "حجۃ الوداع" کے نام سے جانتے ہیں .آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے
فرمایا" لوگو! خبردار! پچھلا عالمی نظام جو استحصال, ظلم, ناانصافی اور جبر و تشدد پر مبنی تھا آج
وہ ختم ہو رہا ہے اسے میں اپنے قدموں تلے روند رہا ہوں اور کائنات انسانی کو ایک عالمی نظام عطا
کر رہا ہوں"۔ یہ 9 ذی الحجہ 10 ہجری میں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو عالمی حکم
نامہ جاری فرمایا ،اس میں یہ حقوق انسانی کے تحفظ کا عالم انسانیت کے لئے ایک مستند منشور تھا۔
اس عالمی حکم نامہ کے تحت عالمی امن کے قیام، عالمی انسانی مساوات کا قیام, معاشی و
اقتصادی استحصال کا خاتمہ،عورتوں کے حقوق کا تحفظ، اور افلاس زدہ انسانیت کے حقوق کا تحفظ
وغیرہ شامل تھے۔ یہ عالمی حکم نامہ آج سے چودہ سو سال قبل محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے رائج فرمایا آج اس پرآشوب دور میں بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ اجتماعی نظام عالم انسانیت
کے لئے تھا آج بھی جو اس نظام کو اپنائے گا وہ پوری عالم انسانیت میں منفرد مقام کا مالک ہوگا۔
عربی میں کہاوت ہے" الفضل ما شهدت به الأعداء" یعنی اصل کمال وہ ہے جس کا اعتراف
کرنے پر دشمن بھی مجبور ہو" چنانچہ یہاں میں H.G.WELLS کی کتاب "A short History of
the World" کے اقتباس کا مفہوم پیش کرتا ہوں، وہ لکھتا ہے" انسانی آزادی، بھائی چارگی اور
مساوات پر نوع انسانی کی تاریخ میں پہلی بار ان اصولوں پر مبنی نظام عملاً محمد (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) نے قائم کرکے دکھایا" یاد رہے H.G.WELLS وہ ہے جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ذاتی اور عائلی زندگی پر بغض و عداوت سے بھرے رکیک جملوں سے حملے بھی کیے
اور تعریف کرنے پر بھی مجبور ہوا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کو اللہ تبارک و تعالی نے ختمی مرتبت فرمایا
ہے ان کی سیرت پاک انسانی زندگی کے لئے رشد و ہدایت کا نمونہ ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے
نجی معاملات ہوں یامجموعی معاملات ، دونوں صورتوں میں عالم انسانیت کے لیے رہنمائی میسر
ہوتی ہے۔
آج اس پر آشوب دور میں چند ناقص العقل آقا علیہ الصلاۃوالسلام کاموازنہ دنیا کی مشہور
شخصیات سے کرتے پھرتےہیں اور اگر ان کےتقابلی جائزوں پرغورکریں تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام
کی شخصیت جامع نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر سکندر اعظم،نیپولین اور ہٹلر تین ایسی شخصیات
ہیں جنھیں دنیا مشہور فاتح اور سپہ سالار کی حیثیت سے جانتی ہے۔اگر ہم غور کریں تو ان کی
صرف کسی ایک شعبہ زندگی میں واضح کارفرمائیاںنظر آئیں گی۔ اسی طرح اگر ہم مذہبی شخصیات
پر بات کریں تو گوتم بودھ اور مہاویر سوامی وغیرہ اپنی عبادات و مجاہدات میں نمایاں حیثیت کے
حامل ہیں، اسی طرح افلاطون اور ارسطو فلسفہ اور صاحب حکمت کی فہرست میں آتے ہیں مگر
پیارے آقا الصلوٰۃ والسلام کا معاملہ ان سے بالکل مختلف ہے اگر آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات
مبارکہ کا بغور مطالعہ کریں گے توہمیں آپﷺکی ذات بابرکات کے مختلف پہلو جیسے نصب شریف،
اخلاق مبارکہ، ذاتی وخانگی معمول،ملکی وملی معاملات،اپنوں اور غیروں سے آپﷺ کا برتاؤ انفرادی
حیثیت میں نظرآئے گا حتی کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ زندگی کے ہر شعبہ میں آفتاب کی طرح روشن
ہے، اگر یوں کہا جائے تو جامعیت کا قدرے حق ادا ہوگا کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات مبارکہ
انسانی زندگی کے لیے مکمل انسانی انسائیکلوپیڈیا ہے۔
یہ ایسا انسائیکلوپیڈیاہے جوہر قبیلہ، شہری، شوہر ،ماں، باپ، تاجر ، جج، سیاستدان، حکیم،
فلسفی حتی کےہر مبلغ اخلاق ودین کے لئے مفید ہے الغرض ہر ضرورت مند کو کسی دوسرے کی
چوکھٹ پر ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں اللہ نے ایک ہی ذات میں سب کچھ مرتب کردیا ہے ۔ اس
انسائیکلوپیڈیا سے جنہوں نے استفادہ کیا وہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر،حضرت عثمان و حضرت
مولیٰ علی رضوان اللہ علیہم اجمعین بن گئے۔
چنانچہ عالم انسانیت کے لیے ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرکزومحور ہونا لازمی ہے
کیونکہ قیامت تک جو معاشرتی نظام محسن انسانیت نےقائم فرمایا وہ عرب و عجم ،بحر و بر، مسلم
و غیر مسلم سب کے لیے اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔