ولر اردو ادبی فورم۔۔۔۔ افسانہ ایونٹ 2020

0
0

افسانہ
لازم ملزوم
افسانہ نگارـ: راجہ یوسف
وہ روشنی کی شہزادی تھی۔ میں روئی جیسے گالوں سے بنے بادلوں کا باشندہ۔ میں اسے ہمیشہ روشنیوں کے سہارے ہی دیکھتا تھا۔ کبھی چاندنی کی نورانی کرنوں میں اس کا عکس ابھرآتا تھا تو کبھی سورج کی روشنی میں اس کے مدھم مدھم نقوش میری آنکھوں کو خیرہ کردیتے تھے۔ جب کبھی و ہ میری طرف اپنی مسکراہٹ کے پھول اچھال دیتی تھی تو وہ شام میرے لئے شام عشرت میں بدل جاتی تھی۔۔۔ ایک دن میرے نرم بادلوں کے دیس میں چاندنی کی برسات ہوئی تو میں نے دونوں ہاتھوں سے دامن پھیلا کر ساری چاندنی اپنی جھولی میں بھر لی۔ چاندنی کے ذرے ذرے میں شہزادی کا عکس منقش تھا۔ تب مجھ پر یہ راز منکشف ہوا کہ چاند کی اپنی کوئی رمق نہیں ہوتی۔ یہ تو روشنی کی شہزادی کا حسن ہے جس کا عکس چاند کی بے نور آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے اور وہ اپنے سارے ارد گرد کو اپنی نورانی چاندنی سے نہلاتا ہے۔۔۔
ایک مست شام کو چاندنی مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی کہ میرے سارے برفیلے وجود میں سورج جیسی گرمی بھر گئی۔ شہزادی کی باتیں مجھے اپنی حدت سے پگھلارہی تھیں اور اس کی سرگوشیاں الفاظ کے معنٰی کھورہی تھیں۔۔۔ اس کی محبت جیسے مدھر، مٹھاس، رس بھرے ساگر میں گھل رہی تھی اور بھاب بن کر ٹپ ٹپ میری بے باک سوچ پر گر رہی تھی۔ میرے ذہن و دل کو بس میں کرکے میرے سارے وجود کو سیراب کررہی تھی۔۔۔
روشنی کے دھاگوں سے کڑھاہوا شہزادی کا عکس اب روز مجھ سے باتیں کرنے لگا تھا۔
’’تم کب کب مجھے یاد کرتے ہو‘‘
’’یہ پوچھو کب یاد نہیں کرتا ہوں۔ تیری چاندنی تو جھلمل جھلمل کرتی میرے دل کے نہاں خانوں میں اجالا کئے ہوئے ہے۔ میرے وجود کے سارے اندھیرے تیری روشنیوں سے روشن ہیں۔ تیری یاد نہ آئے تو من کی ساری روشنیاں گل نہ ہوجائیں گی۔‘‘
’’اپنے دل میں کس کس کو بسا رکھا ہے۔‘‘
’’تصورات میں بسی مبہم اور غیر مانوس سی سیاہی جو کونوں کھدروں میں کائی کی طرح جمی تھی۔ تجلی کا تاب نہ لا سکی۔ سارے طور سور ہوگئے۔ سیاہی کے بت ریزہ ریزہ ہوگئے۔ عبادات کو ایک روشنی ملی۔ اب تو سارے راستے منور ہیں۔ روشنی میں کہاں الگ الگ خانوں میں الگ الگ خدا ٹک پاتے ہیں۔ ایک صورت، ایک مورت کے جوگی کے مصداق ہوکر رہ گئے ہیں۔‘‘
’’اففف۔۔۔۔‘‘ اس کی تاسف بھری پھنکار۔
’’یقین دلانے کے میرے پاس ہزار بہانے ہیں۔ پر وہ پیار ہی کیا جہاں حربے آزمائے جائیں۔۔۔ جتن کرنا بھلادو۔ دل کو گواہ کرلو۔ یقین کے دروازے وا ہوجائیں گے۔ نگاہوں کا ایک مرکز ہوجائے گا۔ تصورات پر ایک ہی صورت منعکس ہوجائے گی۔
’’مجھے چاند اور چاندنی سے جدا کرکے دیکھو گے تودل بھر جائے گا۔ نہ شہزادی کا بھرم رہے گا نہ اجالوں کے آفاقی تجلی کا تصورہی ہوگا۔ تم بھی بادلوں سے اتر آؤ گے تو زمینی حادثات میں دفن ہوکر رہ جاؤ گے۔‘‘
’’کیوں اتنی جلدی تخیل کے گہرے نیلے سمندر کو جلتی ریت سے پاٹ دینا چاہتی ہو۔ کیوں آکاش کی گہری وسعتوں کو کالے بادلوں سے ڈھک دینے کی متمنی ہو۔ زمینی سوچ میں دلدل ہوتے ہیں۔ خاردار راستے ہوتے ہیں۔ ریتیلے صحراؤں میں پیروں کے تلوے جلتے ہیں۔ تخیل کی وسعتیں لامحدود ہوتی ہیں۔۔۔ تصورات کے پر ہوتے ہیں، پیر نہیں۔ اڑانوں پر کوئی قید نہیں۔ کوئی قدغن نہیں ہوتی۔۔۔ آ۔ میری آفاقی سوچ میں بس جا۔ میرے بحر بیکراں جیسے سینے پر اپنا سر رکھ دے۔ میرے تخلیقی بازؤں میں سما جا۔ ایک نئی کہانی کو جنم دیں گے۔ جو امر ہو گی۔ لافانی ہوگی۔
’’میں تیرے فعل کی مرتکب گردانی جاؤں گی۔ تجھے جنت سے نکال باہر کردیا جائے گا۔ پھر مجھے تیرے ساتھ تیری خواہشوں کی تکمیل میں سرگرداں رہناہوگا۔۔۔ نہیں نہیں میں کبھی تیرے قریب بھی نہیں پھٹکوں گی۔ تیرے تصور میں بھی نہیں۔۔۔ تیرے تخیل میں بھی نہیں‘‘
’’میں تخلیق کار ہوں۔ اولاد ا ٓدم ہوکر بھی وہ حرکات نہیں دہراؤں گا جن سے تم بے زار ہو۔ مجھ سے بدظن ہو۔ تجھے تراش خراش کر من موہک بنادؤں گا۔ ایک تخلیق کار کی امر پریمیکا۔ جس کی بس پوجا ہوگی۔‘‘
’’اففف۔۔۔۔۔۔۔ ھاھاھاااا‘‘
’’تیرا یہ تاسف اور اس تحقیر کو کس معنٰی میں لوں میں۔۔۔‘‘
’’کہانیاں گھڑنے والے صورت کو مورت بنانے کی فکر میں خود کو کرداروں میں گم کرجاتے ہیں۔ اپنی ساری حرارت خیالی اپسراؤں کے بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ چاشنی سے لبالب سارا جوش تراشیدہ پیکروں میں انڈیل دیتے ہیں۔ جذبات میں شدت اورشریر میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو جنون کے ہتھے چڑ جاتے ہیں۔ جنوں کے بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں۔ تیز بہاؤ جب کنارے پر اچھال دیتا ہے تو ٹھنڈے پسینے میں تر بترہوتے ہیں۔۔۔ تم سوچو ں میں الجھے لوگ ظاہری رچاؤ بساؤ میں بہت پھیکے ہوتے ہو۔‘‘
میں جلدی جلدی مسینجر سے لاگ آوٹ ہوگیا۔ پھر گھبراہٹ میں کمپیوٹر ہی شٹ ڈاون کردیا۔ کافی دیر تک انگلیاں بالوں میں پھرتا رہا۔ قوت ارادی یکجا کرنے میں مجھے کافی دیر لگی۔ اس نے میری تخلیقی صلاحیت کا مذاق اڑایا تھا۔ میری قوت بشری کو چلینج کیا تھا۔۔۔ میں کافی دیر تک اس بات پر غور کرتا رہا کہ کیا واقعی ایک تخلیق کار خیالی دنیا کا باشندہ ہوتا ہے جس کا ظاہری رچاؤ بساؤ پھیکا ہوتا ہے۔ ہم تو کرداروں کو فاتح بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ خود کیسے کاغذی گھوڑے ثابت ہوسکتے ہیں۔ چاہے میدان عملی ہو یا تخلیقی۔
میں نے اداسیوں کے سمندر پر عارضی خوشی کا برش پھیر دیا اورسر پر کالے بادلوں کا سائبان پھیلا دیا۔ اب نہ چاندنی ہی جھلمل جھلمل کرتی میرے وجود سے ٹکراتی تھی اور نہ شہزادی کا عکس ہی میرا مذاق اڑانے کے لئے سامنے آتا تھا۔
لیکن میرا یہ عارضی سکون تب درہم برہم ہوگیاجب اچانک بادلوں نے مجھے اپنے دیش سے باہر اچھال دیا۔۔۔ میں ہوا میں ہچکولے کھاتا رہا۔۔۔ لیکن یہ نہ جان پایا کہ گر رہا ہوں کہ تیر رہا ہوں۔۔۔ شہزادی سے چھپا رہنے کا یہ عارضی خول میرا شکنجہ بنا۔جس میں میرا سارا وجود جکڑا گیا۔۔۔ مجھے وسوسوں اور اندیشوں نے گھیر لیا۔۔۔ مجھے لگا دور کہیں چاندنی اب بھی چھن چھن برس رہی ہے۔۔۔ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شام کو منور کررہی ہے۔۔۔۔۔ شہزادی کہیں اور راتوں کو رنگین بنارہی ہے۔۔۔۔۔ بس اک میں ہوں جس کی کوئی بھی شام تب سے شامِ عشرت نہ بن پائی تھی۔۔۔۔ میری ہر شام اب۔۔۔ شام غم بنی ہوئی تھی۔۔۔۔
تنہائی اور بے اعتنائی کی یہ سیاہ اور وحشت زدہ رات بہت مختصر رہی۔ شہزادی نے بھی یہ دن بڑی بے قراری میں گذارے تھے۔ مجھ سے دور رہ کر وہ بھی خوش نہیں تھی۔۔۔ وہ بھی جذبات کی بھٹی میں سلگتی رہی تھی۔ اس کا وجود بھی میری گرم سانسوں کا متلاشی تھا۔۔۔ ہجر و جدائی کا یہ موسم اس کے لئے بھی جان لیوا بن چکاتھا۔۔۔ آخر چاندنی کالے بادلوں میں روزن تلاشنے میں کامیاب رہی۔ اور میری آنکھوں کو خیرہ سر کرگئی۔۔۔
جب میری بے قراری حد سے بڑھ گئی اور شہزادی کو بھی کسی کروٹ چین نہ آرہا تھا توہم نے اس سائنسی طلسماتی چکرویو سے باہر آنے کا فیصلہ کیا۔۔۔
شہزادی نے میرے بازو پر زور سے کاٹا۔۔۔ میں نے دزدیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ اس کی آنکھو ں کے ا سکرین پر بے ترتیب مدوجزر کا ابال تھا۔۔۔ کچھ دھندلا دھندلا سا عکس ابھر رہا تھا۔۔۔ آدم کا خلد سے نکالے جانے کامنظر کبھی ابھرتا اور کبھی ڈوبتا ہوا نظر آرہا تھا۔۔۔ شہزادی کے چہرے پر ہلکی ہلکی سی شرمیلی مسکراہٹ ابھرکرآرہی تھی اور اوپری ہونٹ پر ننھی ننھی سی شبنمی بوندیں پھوٹ رہی تھیں۔ آنکھوں کا تجسس اور ہاتھوں کی بے چینی اسے بے قرار بنائے ہوئے تھی۔ وہ بار باراپنی مٹھی بند اور کھول رہی تھی جیسے اپنا دہکتا وجود اپنے ہاتھوں میں بھر کر مٹھی بند کرنا چاہتی تھی۔۔۔ میں جو کرداروں کو فاتح بنانے کا ہنر جانتا تھا۔۔۔ میں ایک تخلیق کار ایک نئی کہانی کونیا آکار دینے کی سعی کررہا تھا۔۔۔ ہاتھ بڑھایا تو حوا کی بیٹی ساری کی ساری میرے وجود کا حصہ ہوگئی۔۔۔ ہمارا ملن ناگزیر تھا۔۔۔ ہمارا فعل ناقابل تنسیخ تھا۔۔۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا