افسانہ: نفرت از ڈاکٹر نذیر مشتاق
ترتیب و تہذیب: غلام نبی کمار
غلام نبی کمار(کشمیر)
ڈاکٹر نذیر مشتاق ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کے موضوعات عموماً سماجی مسائل ہی پر مبنی ہوتے ہیں۔ زیر نظر افسانہ میں بھی ہماری توجہ کو سماجی مسائل کی طرف مرکوز کیا گیا ہے۔ جس کا احاطہ افسانہ نگار نے بہت عمدگی کے ساتھ کیا ہے۔ یہ افسانہ انسانی خصلت و جبلت اور اس کے برتاؤ کو نمایاں کرتا ہے۔ نذیر مشتاق صاحب کے افسانوں کی یہی انفرادیت انھیں دیگر افسانہ نگاروں سے منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ آج کے انسانی کارناموں کو دیکھ کر ایک وحشی جانور کی طبیعت بھی دہل جاتی ہے۔ وہ کریہہ اور ہیبت ناک منظر جو ببر شیر نے دیکھا، وہ قطعی نامناسب نہیں لگتا۔ ایسے واقعات اب ہمارے سماج میں روز رونما ہونے لگے ہیں۔ ایک وحشی جانور جب آدم زاد کو خود سے زیادہ وحشت ناک پاتا ہے تو اس کو بھی انسان سے وحشت ہونے لگتی ہے۔ وہ تو خود شکار کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے، پھر اس کے چُنگل میں انسان پھنسے یا جانور۔ لیکن جب وہ آدم زاد کی حرکت دیکھتا ہے تو اس کے دل میں انسانوں کے لیے مزید نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس کا جوش لاوے کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ لاوا زہر کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ جس کے شکار آدم زاد ہونے لگتے ہیں۔
افسانہ نگار کی انفرادیت دیکھیے کہ یہ زہر ایسا ہے جس کی شکل و شباہت کورونا وائس جیسی ہے۔درحقیقت آج کا انسان ایک دوسرے کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھنے لگا ہے۔ انسانی قدروں کی ان کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رہی۔ انھیں انسان سے درندہ بننے میں بھی وقت نہیں لگتا۔ آج انسانی قدریں روبہ زوال ہیں اس لیے قدرتی آفتوں اور آزمائشوں کا سامنا اسے ہر صورت میں کرنا ہی ہے۔
نذیر مشتاق کے اس افسانے کی علامتیں بہت سی حقیقتوں کا پردہ فاش کرتی ہیں۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اسے وہ صفتیں عطا کیں جن سے ایک حیوان کو محروم کو رکھا گیا۔ لیکن آج کا انسان ان صفتوں اور انسانی قدروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے درندگی اختیار کرنے لگا ہے۔ یہیں سے اس کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ انسانیت سے اس قدر گر گیا ہے کہ بے زبان و وحشی جانور بھی اسے حقارت آمیز نظروں سے دیکھتا ہے۔انسانوں اور حیوانوں کی نسلی کش مکش کو ابھارتا اور اخلاقی درس دیتا ہوا ایک اچھا افسانہ۔۔۔۔موضوع کے پس پردہ عصری کرب ناکی اور حیققت افشاں ہوتی ہے۔
1) اس افسانے کی ایک خوبی اس کا تسلسل ہے۔
2) دوسری خوبی قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رکھتا ہے۔
3) تیسری خوبی افسانے کا ایک ہی نشست میں برخاست ہونا
4) چوتھی خوبی اس کا کلائمکس ہے۔
اس کے بہت سارے پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔ خوبیوں کی نشاندہی بھی کی گئی اور کچھ کمیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا۔ میں بات کو طول نہیں دینا چاہتا۔ البتہ یہاں افسانہ نگار کی چند باتوں کی طرف توجہ چاہتا ہوں
1) کہ آج شیر دو ٹانگوں پر چلنے والے آدم زاد کے متعلق کچھ باتیں سنانے والا تھا”
اس جملے میں ”تھا” کی جگہ ”ہے” ہونا چاہیے۔
2) اس لیے میں ایک ایسی جگہ چلا گیا جہاں میں آدم زاد کا شکار کر کے یعنی اس کا پورا خون چوس کر آدم خور کے نام سے مشہور ہو جاؤں”
یہ جملہ مزید توجہ چاہتا ہے اس کی زبان مزید بہتر ہو سکتی ہے۔
3) ہم ایسا کریں گے کہ ہمارے جنگل کے شمالی ویران حصے میں چمگادڑوں کی***بستی ہے۔
”ہم ایسا کریں گے کہ ” کی بجائے ”بات یہ ہے کہ”۔۔۔۔ ایک بستی ہے۔
ناظم نذیر(کشمیر)
ڈاکٹر مشتاق نذیر نے” نفرت ”کے عنوان سے جو افسانہ زیر ایونٹ لایا ہے اس کا ابتدائیہ پڑھ کر مجھے اپنے بچپن میں بزرگوں کی سنی سنائی کہانیاں یاد آئیں لیکن اس افسانے کے دوسرے متن میں جس انداز سے افسانہ نگار نے موجودہ وبائی بیماری کوروناوائرس کو جوڑا ہے وہ فنِ کمال ہے کس طرح سے انسانوں کی خصلت اور ان میں بدلتے رویہ کا پردہ فادہ فاش کیاہے افسانہ ”عبرت ”سے واقعی یہ محسوس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب جس طرح معالج ہوکر انسانوں کا تشخیص مرض کرنے میں ماہر ہیں اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے زمانے کے حالات کی تشخیص کرکے افسانے کے ذریعے اس کے بنیادی محرکات اور وجوہات کو منظرعام پر لانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے اس تخلیق کاری کو سلام اور خراج تحسین ہے میرے خیال میں کوئی تاریخ دان موجودہ حالات کو اس طرح واضح انداز میں بیان کرنے سے قاصر رہ سکتا ہے ۔ایک پیشہ ور معالج کے اس سخن،فن اور تخلیق کاری کو دیکھ کر مجھے یہ احساس ہورا ہے کہ وقت نکال کر انکے تلمذ میں کر رہ ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہوجاوں۔۔۔۔۔۔۔۔کاش!ڈاکٹر صاحب موقعہ فراہم۔کرتے۔۔۔۔اس تبصرے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ اس افسانے نے میرے دل کے تاروں کو حرکت دی ہے۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی(کشمیر)
افسانہ ”نفرت” از: ڈاکٹر نذیر مشتاق کا افسانہ ”نفرت” فیبل (Fable) کے زمرے میں آتا ہے۔ فکشن میں کہانی کہنے یا لکھنے کے کئی اسالیب ہیں ‘جن میں فیبل اور پیرابل (Parable) کی اپنی خاص اہمیت ہے۔ پیرابل میں انسانی کرداروں کے توسط سے کوئی حکایتی انداز کی کہانی تمثیلی اسلوب میں پیش کی جاتی ہے جس کا مارل کوئی اخلاقی پیغام ہوتا ہے جبکہ فیبل میں بھی کوئی اخلاقی پیغام ہوتا ہے لیکن اس کے کردار حیوانات’نباتات یا کبھی کبھی مافوق الفطرت داستانوں مخلوق ہوتی ہے۔ جس کی کہانی میں یہ بطورکردار شامل ہوتے ہیں اور انسانوں کی طرح بولتے یا حرکت کرتے ہیں۔ اس میں عام طور خیر و شر کا تصادم دکھایا جاتا ہے اور آخر پر نصیحت آموز اخلاقی پیغام بھی ہوتا ہے۔ اس قسم کی کہانیاں”پنچ تنتر”(سنسکرت) ”’ کلیلہ ودمنہ(عربی) جاتک کہانیاں(بدھ مت) ایسوپ کی کہانیاں(انگریزی) اور مثنوی روم ‘ ایمل فارم(جارج آرویل)وغیرہ کتابوں میں نظر آتی ہیں۔ چونکہ ان سب کتابوں کے ترجمے میرے کتب خانے میں موجود ہیں ‘اس لئے انہیں کتابوں کا ذکر کیا۔
پیش نظر افسانے کی کہانی بھی فیبل کے دائرے میں آتی ہے۔
افسانہ پڑھ کر کسی شاعر کا شعر یاد آیا:
خوں خوار درندوں کے فقط نام الگ ہیں
انسان میں حیوان یہاں بھی ہے وہاں بھی
افسانے کی کہانی فیبل تکنیک(Fable (Techniqueمیں عبرت انگیز پیام دے رہی ہے۔علامتی و تمثیلی اسلوب کیا حامل یہ افسانہ عنوان” نفرت ”کی عمدہ عکاسی کررہا ہے۔ آج واقعی انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوتے جارہا ہے اور پھر اپنی بداعمالیوں کو کبھی جدید دور کی ضرورت یا اپنی چالاکی سمجھتا ہے۔ لیکن جب فطرت کی پھٹکار پڑتی ہے تو بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ افسانے کا پلاٹ اچھا ہے۔ کہانی کو بڑی ہوشمندی سے انسان کی بداعمالی اور پھر اس کے نتائج بصورت چمکادڑں کی پھیلائی ہوئی وبا یا کرونا وغیرہ جیسے لوازمات پر مکمل کیا گیا ہے۔۔ عمدہ اخلاقی پیام کا حامل افسانہ ہے۔۔ اب تھوڑا بہت افسانے کی پلاٹ سازی پر توجہ دیں تو پلاٹ میں کہانی کو جانوروں کے کردار پر استوار کیا گیا ہے اور مرکزی کردار کا رول شیر نبھا رہا ہے۔ ویسے سبھی کردار اور ماجرا اپنی جگہ ٹھیک ہے’ تاہم فنی اور تکنیکی طور پر افسانے کی کردار نگاری میں تھوڑا بہت تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔ شیر کا کردار اگرچہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے’ لیکن سب کچھ شیر کی زبان سے تقریر کی صورت میں پیش کرنا افسانے کی ہئیت اور کردار نگاری کو غیر موثر بنا رہا ہے۔ اس کے برعکس انسانوں کی پھیلائی ہوئی تباہی یا فساد کو مختلف کردار کی زبان سے بیان کرنا بہتر رہتا جیسے لومڑی کے کردار میں انسانوں کی چاپلوسی اور مکاری وغیرہ اور شیر بحیثیت بادشاہ یا جج سبھوں کی سنتا رہتا اور اپنے مشاہدات پیش کرنے کے بعد انسانوں کی حیوانیت پر افسوس اور تشویش کااظہار کردیتا۔۔ یہ سب ایک طرح سے ڈرامائی تکنیک میں بھی پیش کرنا بہتر ہوتا۔
کئی جملوں پر اگر دوبارہ غور کریں تو شاید اور بھی خوبصورت بن سکتے ہیں۔۔چند یوں ہے:
ہلکی ہلکی ہوا(دھیمی دھیمی ہوا لکھنا بہتر رہے گا۔ معنی اگرچہ دونوں کا ایک ہے تاہم اطلاق میں فرق ہے۔ جیسے۔ ہلکا یا بھاری عام طور پر کسی ٹھوس یا وزن دار شئے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بھاری پتھر)
جنگل میں بسنے والے تمام پرندوں۔۔۔(جنگل کے سبھی پرندوں۔۔۔ بسنا کا تعلق بستی اور بستی گاؤں’قصبہ’آباد جگہ اور بسنا گھر بنانا’ٹھہرنا۔۔ رہنا بھی تو ہے لیکن انسانوں کے لئے زیادہ مناسب رہتا ہے۔)
وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم نہیں کرتے(یہ شیر کے الفاظ ہے۔ اس کے برعکس زیادہ اچھا یوں ہوتا۔۔۔ انسان وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہم میں بیشتر کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہم حیوان ہیں’درندے ہیں۔۔۔ وغیرہ۔۔۔)
بہرحال مجموعی طور پر افسانہ قابل مطالعہ اور قابل غور ہے۔۔۔یہ تنقیدی جائزہ حتمی نہیں ہے افسانہ نگار اسے پسندیا ناپسند کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔۔۔کیونکہ کسی کو گلہ نہ رہے کہ اردو تحریر پر بات کرنے والے صرف واہ واہ کرتے رہتے ہی۔
مشتاق مہدی(کشمیر)
یہ ایک فیبل کہانی ہے جو لاطینی زباں کے لفظ (fibula) سے نکلا ہے۔جسکا مطلب ہے بیان کرنا، کہنا۔فیبل کہانی وہ کہانی ہے جس میں ہم جانور پرندے حشراتالارض نباتات وبے جان اشیا کو نشان بنا کر انسانی سماج کی بات کرتے ہیں ۔اسکی پرتیں کھولتے ہیں۔اور اسمیں اخلاقی درس کا موجود ہوناضروری قرار دیا گیا ہے۔گوتم بدھ کی جاتک کہانیاں، پنج تنتر، اور عربی اساطیر سے ماخوذ الف لیلیٰ منطق الطیور وغیرہ اسی ذیل میں آتی ہیں۔ ہر ملک کے ادب میں یہ صنف موجود ہے۔ نذیر مشتاق کے افسانے نفرت میں بڑی خوبی اور عمدگی سے موجودہ صورت حال کو درشایا گیا ہے۔ کہ انسان اپنا حقیقی منصب بھو ل کر۔۔کس قدر گر چکا ہے کہ جانور بھی اسکی درندگی کمینگی ظلم وجبر اور بربریت پر حیران و نالان ہیں۔اور اسکو مٹانے کے لئے صلاح مشورہ کرنے کے بعد چمگاڈروں کی فوج بھیج دیتے ہیں۔جو اپنے زہر سے انکو مار ڈالنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ بلکہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ہر طرف خوف و دہشت کا عالم ہے۔اور اسی افراتفری میں عالمی طاقتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگ گئے ہیںاور ایک دوسرے پر گولیاں بھی بر سارہے ہیں۔جو اس افسانے کا کلائمیکس بھی ہے۔اور خوب۔۔ ایک اچھی فیبل کہانی کے لئے صاحب قلم داد کا مستحق ہے۔
رومانہ تبسم(بہار)
افسانہ نفرت میں محترم ڈاکٹر نزیر مشتاق نے حالات حاضرہ کی عمدہ تصویر کشی کی ہے۔معاشرے کا روز افزاں گرتا اخلاق و کردار اس قدر آج گہرایء می دفن ہوتا جا رہا ہے ۔انسان کی انسانیت کھایء میں گرتا جا رہا ہے۔قدم قدم پر بربریت ہے۔انسان سوز واقعات میں خواتین کی بے حرمتی۔انسانوں کا ٹکڑے کرنا اور لاشوں کے ساتھ غیر انسانی عمل۔ہر طرف ایسا موحول چھایا ہوا ہے کہ جانور بھی انسان کی درندگی دیکھ کر شرمسار ہو گیا ہے۔آج جانور بھی انسان کا خون چوسنا نہیں چاہتا ہے۔بڑے جانور بھی جب تک بھوکے نہ ہوں یہ کسی چھوٹے جانوروں پر حملہ نہیں کرتے لیکن نہ جانے کس سمت سے کوئی انسان آجائے اپنی قاب بھر لے۔۔۔۔۔محترم ڈاکٹر نزیر مشتاق نے حقیقت کو پیش نظر رکھ جو ہمیں انسانی زندگی اور انسانی فطرت سے رو برو کرایا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ فرحین (گلبرگہ، کرناٹک)
افسانہ نفرت انسان کی انسان سے نفرت کی تصویر پیش کرتا ہے ۔انسانوں کی ایک دوسرے سے نفرت،مار پیٹ کو جانوروں کی زبانی سنانا،انسانوں کو شرمندہ کرانے کی عمدہ کوشش ہے۔جانور میں درندگی اور وحشی پن فطری ہے۔لیکن انسان جیسے اشرف المخلوقات کا اعلی درجہ عطا کیا گیا وہ درندگی پر اتر آیا جس پر جانور بھی شرمندہ ہیں اور انھیں سبق سکھانے کے لیے ایک اجلاس میں چمگاڈر کے زہر کے ذریعے انسانوں کو ختم کرنیکی تجویز رکھی جاتی ہے۔جس پر عمل بھی کیا جاتا ہے اور کامیابی پر خوشیاں بھی مناء جاتی ہیں۔فی الحال جو کرونا کا قہر ہر طرف ہے اس کی وجہ یہی چمگاڈر کا زہر ہے۔حالانکہ یہ وبا ہم انسانوں کے اپنے اعمال اور سماجی برائیوں کی وجہ سے آئی ہے۔جس کی طرف فاضل افسانہ نگار نے توجہ دلانے کہ کی مکمل سعی کی ہے۔یہ افسانہ حالات حاضرہ اور حدیث شریف کی عمدہ عکاسی ہے۔حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب بھی کسی قوم میں کھلم کھلابے حیائی ہونے لگتی ہے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے لوگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔‘‘ (ابن ماجہ)معلوم ہوا کہ معاشرے میں بے حیائی اور گناہوں کے پھیلنے کی وجہ سے نت نئی اور خوفناک بیماریاں پھیلتی ہیں، جن سے معاشرے کا ہر طبقہ متاثر ہوتا ہے۔مسلمانوں کے لئے سبق!اس افسانے میں اسی بات کو بہترین اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔آغاز میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہانی کا موضوع صرف انسانی نفرت ہے لیکن آہستہ آہستہ فاضل افسانہ نگار نے کہانی کے موضوع کو حالات حاضرہ سے جوڑ کر نفرت اور آدم خاکی کی سماجی برائیوں کی تصویر بھی پیش کی ہے۔
اشہر اشرف(کشمیر)
پیشِ نظر افسانہ حقیقت پر مبنی ہے۔تخلیق کار نے عصرِ حاضر کے وبا زدہ حالات جس میں آدم زاد بنا کسی مذہبی و سماجی تفرق کے مبتلا ئے مرض ہے،و خون آلود تاریخِ انسانی کو علامات و تمثیل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔افسانے میں آدم زاد کے شیطان صفت کرتوت، جنگ و جدّل، خون آلود وجود، درندنُما خصّلت، قتل و غارت، زنا بلجبر جیسے سیاہ کارنامے بیان کئے گئے، جن کی پاداش میں جنگل کے درندے بھی ان سے شرماتے ہیں اور نفرت کرتے ہیں۔بقولِ راوی: جنگل کے بادشاہ شیر جنگل کے باسیوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
” کچھ روز قبل میرے دل میں ایک خیل پیدا ہوا۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے خاندانی بزرگوں کی طرح آدم خور شیر بن جائوں اور اس طرح اپنے آباء و اجداد کا نام روشن کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
اس طرح شیر جنگل باسیوں کو ایک لڑکی کے سفاکانہ قتل و عصمت دری کا انسایت سوز وقع سناتا ہے۔۔ جس پر حاضرِ مجلس۔۔ شرم شرم کے نارے بلند کرتے ہیں۔اور انسان سے نفرت کرنے کا عہد کرتے ہوئے آدم زاد سے اعلانِ جنگ کرتے ہیں۔ آگے چل کر افسانہ نگار موجودہ وبائی بیماری (COVID-19)کے پسِ پردہ محرکات کا ذکر کرتے ہوئے طبعی ماہرین کی جانچ سے اتفاق کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کرونا وباء کے پیچھے چمگادڑ BATکے جسم سے نکلنے والے جراثیم ہیں۔ یہاں موصوف موجودہ تباہ کن COVID-19کا زمہ دار آدم زاد کو ٹھہراتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آدم زاد کی گناہ بھری زندگی اور قدرت کے قانون میں مداخلت کی وجہ سے آدم زاد پر عذاب کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔ اس لئے دورِ روا میں آدم زاد پر جو بھی مصائب و الم آئے روز ٹوٹ پڑتے ہیں یہ اسے کئے درے کا نتیجہ ہیں۔اس طرح افسانہ نگار اپنے خیالات کی ترسیل ایک موثر انداز میں کرنے میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا افسانے نفرت کو جدید خیالات پر مبنی افسانوں کے ذمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
**افسانے کی تکنیک۔افسانے میں منظر نگاری بہترین پیرائے میں کی گئی اور سادہ اسلوب و بیان اختیار کیا گیا جو قاری کو آخر تک افسانے کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔
پلاٹ۔ کردار نگاری اور واقعات بیانی بہترین انداز میں کی گئی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار فنِ افسانہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔
چند گزارشات۔۔ افسانے کے متن و اسلوب کے حوالے سے۔ کہیں کہیں غیر موزون الفاظ و بے ترتیب جملوں کا انتخاب کیا گیا۔جیسے: (اچانک شیر آگیا) یہ کسی خطرے کو درشاتا ہے۔ نہ کہ کسی انتظار کے اختتام کو۔متبادل: ” وہ سب بے صبری سے انتظار کر رہے تھے تو اسی اثنا میں شیر نمودار ہوا” (شیر ایک بہت بڑے درخت کی موٹی شاخ پر چڑھا)اگر شیر سے جنسِ ببر شیر لی مراد جائے تو وہ بڑے اور تن آور درختوں پر چڑنے سے قاصر ہے۔
مناسب و متبادل” میرے دماغ میں ایک خیال آیا” لفظ ایک حذف کر دیا جائے تو جملے میں روانی آجاتی ہے۔(اگر آدم زاد نظر آئے تو اس کو پکڑ کر اس کا گلہ دبا دیا جائے کسی دور دراز۔۔سڑک پر اُس کی لاش پھینک دی جائے۔جانور کے ہاتھوں گلہ دبانہ۔۔ غیر فطری ہے۔۔ فکشن کے لہاز سے بھی مناسب نہیں ہے۔ مناسب و متبادل: ” اگر آج کے بعد آدم زاد نظر آئے تو اُسے پکڑ کر جنگل سے دور لیجا کر کسی سڑکے پاس چیر پھاڑ دیا جائے گا۔
راجہ یوسف(کشمیر)
یہ دو ٹانگوں والا (جس کو رب کی طرف سے اعزاز ملا تھا کہ تم اشرف المخلوقات ہو) جانور ہر دور میں بد سے بدتر تھا لیکن عصر حاضر میں اس کی ذہنی خرافات سے شیطان بھی پناہ مانگ رہا ہے۔ ایک طرف اس کی موشگافیاں عروج پر ہیں تو دوسری طرف یہ پستیوں میں گرتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے افسانے میں اس دو ٹانگوں والے جانور کا وہ شرم ناک واقعہ بیان کیا ہے وہ اور اس طرح کے کتنے واقعات ہمارے سامنے ہوئے ۔ جنہیں سنتے دیکھتے ہماری آنکھیں نم ناک ہوئیں۔ ہمارے سر شرم سے جھک گئے۔ لیکن ایسے ہیبتناک واقعے رکے نہیں بلکہ اب بھی جاری ہیں۔ بہترین افسانہ جسے مختصرلکھا گیا ہے لیکن اتنا مدلل ہے کہ کوزے میں سمندر بند کیا گیا ہے۔
حلیم سوپوری(کشمیر)
اس افسانے کو سائنس فکشن کا نام دیا جا سکتا ہے۔افسانہ نگار کو زبان پر خاصی قدرت حاصل ہے۔اور اسلوب بیان بھی خاصا دلچسپ ہے۔افسانے کا اختتام اچھا ہے۔میری طرف سے افسانہ نگار کو ایسا کامیاب افسانہ لکھنے کے لئے مبارکباد اور اس کے ساتھ یہ گزارش بھی کہ اردو ادب میں سائنس فکشن کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ایسے افسانے لکھنے کی مشق جاری رکھی جائے۔
ڈاکٹر فریدہ بیگم(کشمیر)
زیر نظر افسانہ ”نفرت” کی اصل یہ کہ انسان اپنی انسانیت سے گر کر ایسی وحشیانہ اور گھانا جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس سے وحشی جانور بھی شرمندہ ہیں ۔عالم انسانیت کے لئے اس سے بڑی شر مندگی کیا ہوگی۔اپنے انہی اعمال کی وجہ سے خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ اس افسانہ میں تین کہانیوں کو ایکجا کر کے ایسے واقعات پیش کئے گئے ہیں کہ خود بہ خود تجسس بڑھنے لگتا ہے۔زبان و بیان ربط و تسلسل اس کا تجسس قاری کو باندھے رکھتا ہے۔سماج کے ان انسانوں کی نقاب کشائی ہے۔ جو عقل و دانش رکھتے ہیں جبکہ جانور اس سے مبرا ہیں اس باوجود ان حرکتوں سے جنگل کا ہر جانور کو شرم محسوس ہورہی اور انسان سے دور بھاگتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ اس گھناؤنے فعل کا شکار ایک معصوم نابالغ لڑکی ہے پھر اس پر ظالمانہ وحشیانہ حملہ کر کے قتل کر دیا جاتاہے۔ اس افسانہ کے ذریعہ یہی درس دیا گیا ہے کہ اس جرم کی اجازت کوئی مذہب نہیں دیتا حتی کہ وحشی جانور بھی اس کے خلاف ہیں۔اس لئے لومڑی کی ترکیب سے انسانوں کو سبق سیکھایا جارہا ہے۔ایک معنوں میں خدا کے غضب کو خود انسان نے دعوت دی ہے جب وہ نازل ہوگئی تو اب پچھتا رہاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنا احتساب بھول گئے احساس ختم ہوگیا۔ اسلام کی تعلیمات جس کا پہلا درس ہی انسانیت اور اخلاق ہے۔جب یہی باقی نہیں رہا تو سماج میں ایسی کئی برائیاں جنم لیں گی۔ جس سے انسانیت بھی شرمندہ ہو۔اگر اس جرم پر قد غن نہ لگایا گیا تو مستبقل قریب میں یہ دنیا انسانی درندوں اور وحشیوں کی بستی بن جائے گی۔ جس پرشیطان بھی خوشی سیجیت کا پرچم لہرایے گا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالی جب کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ اپنی بد کرداریوں کی وجہ سے خود ہلاک ہوجائے۔ برنگ ایشو پر سماج کی بہترین عکاسی کی گئی ہے ۔
جاوید احمد نجار(کشمیر)
افسانہ نفرت میں ڈاکٹر مشتاق نے بنی نوح انسان کے وحشی پن کے خصلت کو اس قدر عیاں کیا – جس سے حیوانات بھی خوب ذدہ ہورہے ہیں اور انسان جب انسانیت کے درجے سے گرجاتا ہے تووہ نسان سے حیوان بن جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ افسانہ عصرِحاضر کے حالات سے مشابت رکھتا ہے جن سے آج کل ہم گزر رہے ہیں –
شگفتہ یاسمین
انسان جب اخلاقیات کے درجے سے گرجاتا ہے تو وہ انسان نہیں بلکہ حیوان بن جاتا ہے.ایسا حیوان جس کی زندگی کا کوئی قائدہ قانون نہیں ہوتا،پھر جانور بھی اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں جیسا کہ اس افسانے میں ہوتا ہے۔انسان ایسا جانور ہے کہ حیوان بھی اس سے پناہ مانگتے ہیں یہ دنیا کی ہر چیز کو اپنے قابو میں کرلینے کا ہنر جانتا ہے بس نہیں جانتا تو صرف اپنے نفس کو قابو کرنے کا ہنر نہیں جانتا۔اور یہاں آکر یہ انسانیت کے درجے سر گر جاتا ہے کہ جنگل کے جانور بھی توبہ تائب ہوتے ہیں اور اس سے خوف کھاتے ہیں۔جانوروں کی سازش انسان کو سدھارنے کی کہ چمکادڑوں کو بھیجا تا کہ کرونا کی صورت ایسی وبا پھیلا دیں کہ انسان کو اپنی اوقات یاد آجائے جو وہ کب کی بھول چکا تھااور پھر کرونا کی صورت ایک ننھّے دے وائرس نے انسان کو خدا کی یاد دلادی اور وہ اپنے نصیب پر رونے دھونے بیٹھ گیا۔بہت اچھا افسانہ انسان کو انسانیت کا درجہ یاد دلانے کے ساتھ ایک سائنسی فکشن بھی بن گیا بہت خوبصورتی کے ساتھ موضوع کو نبھایا گیا۔
محمد احسان الاسلام(بہار)
انسان نے مہر و ماہ کی راہیں تو دیکھ لیں خود اپنی انجمن میں چراغاں نہ کر سکا ۔ انسان اشرف المخلوقات سے ارذل المخلوقات ہی نہیں بلکہ عفریت میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ شاید فرشتوں نے صحیح طور پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا ۔ جانور معصوم ہیں ۔اسلئے افسانے کے اختتام پر ہنس رہے ہیں ۔ ان کی ہنسی تب تک قائم ہے جب تک انسان آپس میں گولیوں کے تبادلے تک محدود ہیں ۔ بات اگر اس حد سے آگے بڑھ گء تو پھر کوئی محفوظ نہیں ۔ لہذا تمام معصوموں کو بارگاہِ ایزدی میں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگنی چاہئے کہ دنیا میں امن و امان قائم رہے ، ورنہ پھر کسی کی خیر نہیں ۔
مقبول فیروزی(کشمیر)
یہ افسانہ لکھ کر آپ نے دو کام کیے ہیں۔ایک یہ کہ دین کا فرمان ہے کہ تم ظلم کے خلاف لڑو اگر لڑنے کی طاقت نہ ہو تو کم از کم آواز تو اٹھاؤ ۔لہٰذا روزِ محشر وہ اس ذمہ داری سے بری ہوجائیں گے۔دوسری بات یہ کہ اس افسانے میں سماج کی ایسی برائیوں کا ذکر ہے جس نے انسان سے اشرف المخلوقات کہلانے کا حق چھین لیا ہے۔کبھی انسان محترم سمجھا جاتا تھا اور اگر کبھی معمولی غلطی کرتا تو وحشی اور درندہ جیسے القاب سے نوازا جاتا تھا لیکن اب درندے اور جانور بھی انسان کے افعال سے شرمندہ ہوجاتے ہیں کیونکہ شیر جو ایک خون خوار درندہ تسلیم کیا جاتا تھا،وہ بھی اب انسانوں کا خون پینا اور گوشت کھانا اپنے اوپر حرام کرتا ہے۔ جب اس نے ایک عورت اور چار نوجوانوں کو ایک لڑکی کے ساتھ بلاتکار کرتے دیکھا جسکو بعد میں قتل بھی کیا گیا۔شیر کی زبانی افسانہ نگار کا یہ جملہ کہلوانا بہت ہی معنی خیز اور عالم انسانیت پر گہری طنز ہے ’’اپنے آپکو انسانو ست بچاؤ‘‘ اسی لئے مولانا رومی نے کہا ہے،ایسے جرائم آجکل عام ہیں اور اب حالت یہ ہے کہ انکو اب ہم جرم ہی نہیں سمجھتے ہیں۔بوڑھی لومڑی کی یہ تجویز کہ چمگادڈوں کو بھیج کر انسانوں کو انکے زہر سے ماریینگے بھی بہت معنی خیز ہے۔شیر کا ابتدا میں ہی یہ کہنا کہ وہ اپنے آپکو انسان کہتے ہیں والا جملہ کتنا طنز بھرا اور سمِ قاتل سے بھرا جملہ ہے۔۔ ہائے انسان شرم کر۔اسی لئے مولانا رومی انسان کو ’’حیوانِ ناطق‘‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے۔دوسری بات یہ کہ اب شیر جنگلی جانوروں کو گولیوں کی آواز سے نہ ڈرنے کا مشورہ دیتا ہے کیونکہ اب گولیاں درندوں کو مارنے کے لئے نہیں بلکہ انسان انسان کو مارنے کے لئے چلاتا ہے۔افسانہ نگار نے دو Burning issues کو اپنی کہانی کا موضوع بنایا ہے جن پر ہمیں غور کرنے کے لئے اکسارہا ہے۔جہاں تک افسانے کی زبان اور فنی لوازمات کا تعلق ہے دونوں باتیں افسانے میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔یہاں یہ بات بھی بتاتے چلوں کہ افسانہ نگار نے دبے لفظوں ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ انسان جب خدا کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹکتا ہے تو انسان سے ایسے اعمال ظہور پزیر ہوتے ہیں جن سے شیطان ہی نہیں بلکہ درندے بھی شرماتے ہیں۔
الندوی عبدالباری عابدین
زیر نظر افسانہ میں بنی نوع انسانی کے منفی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے، اور جنگل کے جانوروں کو انسانوں پر یک گونہ فضیلت عطا کی گئی ہے، نیز یہ مبارک پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کو انسان رہنا چاہیے جانور نہیں بننا چاہیے، اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ آج انسانوں نے اپنے سیاہ کارناموں سے انسانیت کو داغدار و شرمسار کردیا ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہ تصویر کا ایک دھندلا رخ ہے پوری تصویر ہرگز نہیں، المیہ یہ ہے کہ خود انسانوں نے اپنی برادری کے منفی اور تاریک پہلوؤں کو اس طرح سے پیش کیا ہے کہ جانورتو جانور خود انسانوں کو اپنے انسان ہونے پر شرم آنے لگی ہے، اب ایک انسان دوسرے کے ساتھ بھلائی کرنے، اس کی فریاد رسی کرنے سے قبل سو بار سوچنے لگتا ہے، اب ایک انسان کسی اجنبی کو دیکھ کر سب سے پہلے اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے، ہم انسانوں کی تذلیل کرتے ہوئے یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ آج پانی کی سبیل پر گلاس کو زنجیر سے باندھ کر رکھا جاتا ہے کہ مبادا اسے کوئی اٹھا کر نہ لے جائے، لیکن یہ بیان کرنا بھول جاتے ہیں کہ پانی کا یہ نلکا یا سبیل لگانے والا بھی تو کوئی انسان ہی تھا، کسی دوسری دنیا کا تو آدمی نہیں تھا، اسی طرح ہم آستیں چڑھا کر گلا پھاڑ کر کہتے ہیں کہ آج لوگ مسجدوں سے چپل چرا لیتے ہیں لیکن یہ بیان کرنا بھول جاتے ہیں کہ اسی مسجد کی تعمیر کے لئے لوگوں نے کس طرح دل کھول کر مدد فراہم کی، انسانیت کواس مقام تک پہنچانے کے لئے ہمارے فنکار وتخلیق کار اور واعظ وخطیب سب ذمہ دار وقصوروار ہیں، خواہ وہ منٹو ہویا عصمت چغتائی، یا بعد کے ادوار کے افسانہ نگار وتخلیق کار جنھوں نے انسانیت کے شرمناک پہلوؤں کو کہانی بنا کر اپنے قارئین کے دل ودماغ میں وہی جراثیم داخل کئے جو انسانیت کے پیرہن کو تار تار کرنے والے ہیں، اس لئے کہ منفی چیزوں کو پڑھ کر انسان منفی کام ہی کرے گا، انسانیت پر سے اس کا یقین اٹھ جائے گا، اسے ہر انسان بھیڑیا،چیتا یا گدھ ہی نظر آئے گا، جس طرح کی بالی ووڈ فلموں نے ہماری نئی نسل کو بے راہ روی کے راستے پر لگا دیا ہے۔انسانیت ابھی زندہ وتابندہ ہے، جنگل کے جانور انسانوں کی برابری وہمسری کا دعوی کبھی نہیں کرسکتے، انسان بہر حال انسان ہے، اب ہمیں انسانوں کے روشن کارناموں کو موضوع بنانا چاہیے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریکی کا ذکر سنتے سنتے ہم روشنی کی کرن کوبھی تاریکی کی کوئی لکیر نہ سمجھنے لگیں۔
شوبی زہرا نقوی
ڈاکٹر نزیر مشتاق کا افسانہ ”نفرت”حقیقت میں حالات حاضرہ کا نمائندہ افسانہ ہے۔یہ افسانہ نہ صرف کرونا کے پھیلنے کا درد بیان کر رہا ہے بلکہ مٹتی ہوئی انسانیت کا نوحہ پڑھ رہا ہے۔آج کے مکینیکل دور میں انسانیت حقیقت میں نام کو رہ گئے ہے لوگ انسانی خصوصیت کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھ رہے ہیں۔تمثیلی پیرائے میں لکھا گیا یہ افسانہ اخلاقی درس دیتا ہے۔موضوع زبان و بیان کے اعتبار سے اچھا افسانہ ہے۔
شفیع احمد ڈار
نفرت، کے موضوع کو چن کر ڈاکٹر صاحب نے انسانی بستیوں کا خوفناک منظر پیش کرکے غور وفکر کی دعوت دی ہے۔پلاٹ کا چناو اور پلاٹ پر کرافٹنگ ،تکنیک کا بہترین ثبوت دی دہی ہے۔علامتوں اور ذبان کا سادہ استعمال قاری کیلئے پکڑ کا سامان پیدا کر رہا ہے۔افسانے کی قرات کے دوران قاری خود کو جنگل میں ہی محسوس کرتا ہے جس کو میں افسانے کی کامیابی سمجھتا ہوں۔مکالموں کو بہترین کاریگری سے تراشا گیا ہے جس سے افسانہ ترسیل کا ذریعہ بن گیا ہے۔افسانہ نگار چونکہ پاکیزہ خیالات کے مالک ہے اس لئے وہ پاکیزگی افسانے میں خوب جھلک رہی ہے۔افسانے کے بیچ بیچ میں تسلسل ٹوٹ رہا ہے اور یہ کہ پھر ایک عورت نے اس لڑکی کا سر کاٹا میرے سمجھ سے بعید ہے۔آگے چل کرلومڑی چمگادڑوں کی رہنمائی کر رہی ہے یہ غیر منطقی اور عقل کے خلاف ہے۔چمگادڑوں میں ایک قسم کا زہر ہوتا ہے اوریہ بھی ساینسی دریافت کا ابھی حصہ نہیں ہے محض ایک افواہ ہے۔باقی ڈاکٹر صاحب نے ایک بہترین موضوع کا چناو کیا ہے اور ہمیں بحثیت انسان آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔جس میں وہ قدرے کامیاب رہے۔