کورونا وائرس کی تباہ کاریاں اور حالات کی سنگینی

0
0

معمولات زندگی مفلوج ،معیشت پر شدید اثرارت مرتب ،بے روزگاری میں اضافہ
کے این ایس

سرینگر؍؍؍وادی کشمیر میں جہاں حالات کی سنگینی کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات ومسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،وہیں کورونا لاک ڈائون نے عوامی مشکلات و مسائل میں کافی اضافہ کیا ہے ۔گذشتہ52روز سے جاری کورونا لاک کے سبب کے معمولات زندگی مکمل طور پر مفلوج ہیں جبکہ کشمیر کی معیشت پر شدید اثرات مرتب ہورہے ہیں اور بے روزگاری میں حد درجہ اضافہ ہورہا ہے ۔کشمیر نیوز سروس کے مطابقکشمیر میں مرکزی حکومت نے اگست 2019 میں سیکیورٹی لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں لایا تھا۔ اس لاک ڈاؤن کے کئی مہینوں کے بعد مرکزی حکومت نے جب اس میں نرمی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو کورونا وائرس کی وبا پھیلنا شروع ہو گئی اور یوں پہلے سے لاک ڈاؤن کو مزید طوالت مل گئی۔ادھرکشمیر میں لاک ڈاؤن سختی کیساتھ نافذ اور اب مجموعی طور پر9 مہینے ہو چکے ہیں، اس لاک ڈاؤن کی سختیوں کی وجہ سے رمضان کی رونقیں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔ایک شہری بشیر احمد زرگر نے بتایا’جہاں تک لاک ڈاؤن کی بات ہے وہ تو ہم کب سے جھیل رہے ہیں، ہمیں اس کی عادت پڑ گئی ہے،’تاہم پہلے رمضان کے مہینے میں کافی رونق ہوتی تھی۔ بازاروں کے ساتھ ساتھ مسجدوں میں بھی، لوگ عبادت کرتے تھے، پانچوں وقت کی نمازیں پڑھتے تھے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ اب انتظامیہ اور علما کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بیٹھیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں 800سے زیادہ کرونا وائرس کے کیس سامنے آ چکے ہیں جبکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔طویل ترین لاک ڈائون کی وجہ سے شہر ودیہات میں ہر طرح کے دکان ،کاروباری مراکز اور تجارتی ادارے بند ہیں جسکی وجہ سے کشمیر کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔طویل ترین لاک ڈائون سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے جسکی وجہ سے نفسیاتی مریضوں کی فوج تیار ہورہی ہے ۔ایک اقتصادی رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے روزانہ 270کروڑ روپے خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ گزشتہ9ماہ سے صورتحال جوں کی توں ہے ۔سیکیورٹی لاک دائون کے بعد کورونا ڈائون نے کشمیر کی معیشت کو تباہ کردیا جبکہ کشمیر کی اقتصادیات میں کلیدی اہمیت کے حامل شعبے جن میں سیاحت ،زراعت ،باغبانی ،صنعت وحرفت شامل ہے ،مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔سیاحتی شعبے نے گزشتہ9ماہ کے دوران کسی بھی ایک مہینے میں تسلی بخش کاروبا نہیں ہوا ۔اسی طرح انڈسٹری سیکٹر بھی تباہ ہوگیا ۔مقامی صنعتی ادارے بند کی وجہ سے مکمل طور بند ہونے کی کگار پر ہیں ۔ ادھرعالمی وبا کورونا وائرس کے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد میں اضافے کے ساتھ وادی کشمیر میں جہاں انتظامیہ کی طرف سے نافذ لاک ڈاون ہر گذرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہورہا ہے وہیں لوگوں میں پھیل رہے تشویش و خوف کی لہر انہیں گھروں سے باہر قدم رکھنے نہیں دے رہی ہے۔وادی میںسنیچرکو مسلسل52 ویں روز بھی مکمل لاک ڈاؤن جاری رہتے ہوئے ہر سو خوف وخاموشی کا ماحول طاری رہا۔ لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لئے سڑکوں اور گلی کوچوں میں لگائی گئی پابندیاں سخت ترین کرفیو کا منظر پیش کررہی ہیں تاہم لوگ بھی وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے خود بھی گھروں تک ہی محدود ہیں اور دوسروں کو بھی گھروں میں ہی بیٹھنے کی تاکید کررہے ہیں۔وادی میں اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ 8 افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔ وادی میں ہر سو خوف وخاموشی کا ماحول چھایا ہوا ہے، کرفیو جیسی پابندیاں برابر نافذ ہیں، سیکورٹی فورسز اہلکاروں نے جگہ جگہ ناکے بٹھائے ہیں جہاں پر آنے جانے والوں خواہ ہوں یا موٹر سائیکل پر سوار ہوں یا گاڑی میں ہوں، کو روکا جارہا اور ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔کورونا لاک ڈائون بدھ سے اور زیادہ سخت ہوگیا ہے ،کیونکہ اس روز بیگ پورہ اونتی پورہ پلوامہ میں حزب المجاہدین کے اعلیٰ ترین کمانڈر ریاض نائیکو کو ساتھی سمیت ایک جھڑپ کے دوران جاں بحق کردیا گیا تھا ۔اس کے بعد پلوامہ اور بڈگام کے کئی علاقوں میں پرتشدد جھڑپیں ہوئی جن میں ایک نوجوان جاں بحق جبکہ پولیس کے افسر سمیت کئی اہلکاروں اور درجنوں مظاہرین بھی زخمی ہوئے جسکی وجہ سے پیدا شدہ تشویشناک صورتحال کو کنٹرول میں کرنے اور امن وقانون کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے بندشوں اور پابندیوں میں مزید شدت لائی گئی ۔ وادی کے تمام ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹروں سے بھی مکمل لاک ڈائون کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ کئی علاقوں میں لوگوں کی شکایت ہے کہ لازمی اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں کو بھی بند کرارہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی علاقوں میں پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے۔ وادی کے ضلع و تحصیل صدر مقامات میں بھی پابندیاں جاری ہیں اور لوگوں کو گھروں میں میں بند رکھنے کے لئے دفعہ144 نافذ ہے۔ لوگوں کو گھروں میں ہی بیٹھنے اور دیگر احتیاطی تدابیر اپنانے پر مسلسل زور دیا جارہا ہے۔ پیشہ ور لوگوں اور طلبا کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت گھروں میں ہی بیٹھ کر کام کرنے کو کہتی ہے جبکہ دوسری طرف جموں و کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ خدمات منقطع ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ 2۔جی رفتار سے کسی حد تک ’ورک فرام ہوم ‘ کو عملایا جاتا تھا ،لیکن اب گزشتہ 4روز سے ورک فرام ہوم بھی متاثر ہوگیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ انٹر نیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیشہ ور لوگ اپنا کام کاج نہیں کرپارہے ہیں اور طلبا گھر بیٹھے پڑھائی کرنے سے محروم ہورہے ہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا