خطہ لداخ پر کرونا وائرس اور لاک ڈاون کے اثرات

0
0

 

شبیر احمد مصباحی
دراس کرگل لداخ
8082713692

کرونا وائرس ایک وبائی مرض ہے جو خدا کی مرضی سے جس کو چاہے اپنی آغوش میں لے لے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس وبائی مرض سے بچائے۔ اس کے بعد لاک ڈاون جیسی غیر جمہوری اصطلاح سے ہم متعارف و متاثر ہوئے۔ اگر اس کی جگہ اسے "ضروری بندی” یا "برائے صحت بندی” جیسی کسی جمہوری اصطلاح سے متعارف کرایا جاتا تو اور بہتر تھا۔
بہرحال مجھے لداخ پر کرونا وائرس کے چلتے ضروری صحتمند بندی کے اثرات پر گفتگو کرنی ہے۔ لداخ یوٹی میں اگر چہ لوگوں پر کوئی زیادہ اثر خود کرونا وائرس کا نہیں ہوا مگر اس بندی سے دوسری جگہ کے لوگوں کی بنسبت یہاں کے لوگوں کی زندگی پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ۔یہاں کے مزدور طبقہ کا واحد زریعہ معاش آرمی کا کام تھا وہ مکمل بند ہو گیا جس کی وجہ سے یہ طبقہ بہت بری طرح متاثر ہوگیا۔ دوسرا طبقہ ہمارے ڈرائیور بھائی جو اپنی گاڑیوں کے ذریعے کچھ کمائی کرتے تھے ان کے روزگار کو گہری ضرب لگی ہے۔ لداخیوں کو زوجیلہ درہ کھلنے پر کسی عید کا سا سماں محسوس ہوتا تھا اس بار زوجیلہ اگر چہ وقت سے کافی پہلے کھلا مگر لداخیوں کو اس کی کوئی خوشی نہیں ہوئی کیونکہ کرونا وائرس اور لاک ڈاون کے چلتے یہ سڑک آمد و رفت کےلیے ہنوز بند ہی پڑی ہے۔ ابھی بھی لوگ ڈھنگ سے تازہ سبزیوں اورپھل فروٹ کی شکلیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔ تھوڑا بہت سبزی و پھل آتا ضرور ہے مگروہ ایسے گاؤں گاؤں تقسیم ہورہا ہے جیسے حاجیوں کا تبرک ہو۔ گھروں میں بندی کے چلتے تمام دنیا کی طرح لداخیوں کو بھی پریشانی ہے بس کرونا کا قہر نہیں ہے جس کی وجہ سے کچھ راحت کی سانس لینے میں لوگ کامیاب ہوئے ہیں۔ دوسری طرف کچھ اچھی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جو کرونا وائرس کی ہی دین ہیں۔ جیسے لداخی لوگ پہلے زمانے میں زمین سے قدرتی سبزیاں جنہیں ہماری زبان میں لکنڑی، شیلوشاہ اور شینٹیلی کہتے ہیں نکال کر کھاتے تھےلیکن اب یہ رواج کم ہوا تھا کیونکہ نئی نسل بازاری سبزیوں کو زیادہ پسند کرتی ہے۔ لیکن اس بار جیسے ہی اپریل کا مہینہ شروع ہوا بچے بچیاں مخصوص آلات لے کر حشرات الارض کی طرح زمین پرپھیل پھیل کر قدرتی سبزی نکالتے نظر آئے۔ اب یہ حالت ہے کہ زمین سے لکنڑی عنقا ہے۔ اور اس کے علاوہ کافی تعداد میں لوگ مشروم اور "شیلو شاہ” (پہاڑی سبزی) لانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔یہ دونوں سبزیاں لداخ میں قدرتی طور نکلتی اور اپنی اہمیت وافادیت میں عالمی شہرت یافتہ ہیں۔اس کے علاوہ پہلے لداخی لوگ زوجیلہ بند ہونے سے پہلے سبزیاں سوکھا کر رکھتےتاکہ بعد میں کام آئے گا اس بار اس کام کی اہمیت بھی نئی نسل پر اشکار ہوئی۔ لداخ کا امیر طبقہ سردی شروع ہوتے جموں و سری نگر کا رخ کرتا تھا اس بار ان لوگوں کو بہت دھچکا لگا ہے آئندہ اس پر بھی کافی حد تک قد غن لگ سکتا ہے۔ پہلے لداخی بیھڑ بکریاں کثرت سے پالتے تھے مگر اب یہ رواج کمیاب ہے اس بار کرونا وائرس کی وجہ سے زوجیلہ سے آمد ورفت میں پابندی کی وجہ سے بیھڑ بکریاں در آمد کرنے میں تاخیر کی وجہ سے گوشت کی نایابی سے تمام اہل لداخ پریشان ہوئے ہیں اس لیے توقع ہے کہ اب لوگ اس جانب بھی دوبارہ مائل ہوسکتے ہیں۔
گاؤں میں واقع پذیر دکانوں کی اہمیت پہلے کم تھی اب لوگوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا۔ لوگوں کے درمیان خیر سگالی کا جذبہ بھی بڑھ گیا لداخی لوگ، مذہبی تنظیمیں و ادارے، سماجی فلاح وبہبود کی مقامی تنظیموں نے کرونا کی وجہ سے پیدا شدہ حالات میں لوگوں کی امداد باہمی کے لیے دل کھول کر لوگوں کی مدد کی۔ بہت دنوں کے بعد گاؤں میں بزرگوں کی محفلیں پھر سجی ہیں ہر گاؤں میں چار چار پانچ پانچ کی تعداد میں بزرگ افراد کی ٹولیاں ضرور لگتی ہیں جو زمین پر بیٹھ کر گپیں ہانکتے ہیں یہ منظر بہت حسین لگتا ہے۔ پھر اس سے تھوڑی دور چند خواتین بھی مجلس لگاتی ہیں۔ گاؤں کے جوان بھی بہت دنوں کے بعد ایک جگہ جمع ہوکر گپ شپ کرتے نظر آئے اگر چہ ان کی گفتگو گیم و نیٹ پر ہی زیادہ منحصر رہتی ہے۔محلے والوں میں تال میل پیدا ہوا ہے یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو اس وبائی مرض سے جہاں ہمیں بہت سارے نقصانات ہوئے ہیں وہی پر اس کے چند مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔لداخ کی طرز زندگی پہلے سے ہی بڑی پر اسرار رہی ہے اس لیے اس موضوع پر مزید لکھا جاسکتا ہے۔ بہرحال کرونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے اہل لداخ کی طرز زندگی دوسری جگہوں کی بنسبت مزید پیچیدہ بنی ہوئی ہے۔ کیونکہ ہم پہلے سے ہی چھ ماہ کے قدرتی لاک ڈاون میں ہوتے ہیں۔ برف باری اور کڑاکے کی ٹھنڈ سے درہ زوجیلہ بند ہوتے ہی لداخ کا رابطہ زمینی طور پوری دنیا سے منقطع رہتا ہے۔ ایسے میں زوجیلہ کھلنے کے بعد بھی پابندیاں لگ جائیں تو ہم لداخیوں پر کیا گزرتی ہوگی اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا