ٹرانسپورٹرس دیوالیہ ہونے کے دہانے پر

0
0

پانچ اگست کے بعد جموں وکشمیرمیں زندگی کی رفتارکواچانک یایوں کہیں ایمرجنسی بریک لگی اوروہ زائد ازسات ماہ جاری رہی، ابھی اس سناٹے اورویرانی کاراج قائم تھا کہ پوری دُنیاکروناکے قہرسے کشمیرہوگئی، کشمیرسے مرادلاک ڈاﺅن ہے کیونکہ دھرتی پرلاک ڈاﺅن کو طویل تجربہ شائید کشمیرکے پاس ہی ہے،اہلیانِ کشمیرکیلئے لاک ڈاﺅن زندگی کاایک حصہ ہے ایک بچپن ،ایک جوانی ،ایک بڑھاپااس لاک ڈاﺅن نے ہضم کرلیاہے،اس تباہ کن ویرانگی نے ہرکسی کی کمرتوڑدی،جموں وکشمیرکی اقتصادیات میں سب سے اہم کردارسیاحتی شعبے کاہے، جو بُری طرح تباہ ہوگیاہے ، اس کے بعد ٹرانسپورٹ کاشعبہ متاثر ہونے سے ٹرانسپورٹرنہ صرف مالی بلکہ ذہنی طورپربھی کشمکش کاشکارہیں کیونکہ اکثریت ایسے چھوٹے ٹرانسپورٹرز کی ہوتی ہے جو بنکوں سے قرضہ لیکر، یا کسی سرکاری اسکیم کے تحت قرضہ لیکر خود روزگارکی تلاش میں کوئی ٹرانسپورٹ گاڑی خریدتے ہیں جس کیلئے اُسے ایک بڑی رقم ماہانہ قسط کے طورپربنک کو اداکرناہوتی ہے،سات ماہ کی خاموشی کے بعد جونہی پبلک ٹرانسپورٹ کاسلسلہ بحالی کی جانب بڑھنے ہی والاتھاکہ کروناقائرس کے اژدھے نے اِن اُمیدوں کو بھی نگل لیا،جاری لاک ڈاو¿ن کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ کلی طور پر بند ہونے سے ٹرانسپورٹرس دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔پہلے مرکزی حکومت کے سال گذشتہ کے پانچ اگست کے جموں وکشمیر کو دفعہ370 و دفعہ35اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور سابق ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلوں کے بعد وادی میں کئی ماہ تک پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل معطل رہ گئی تھی۔ گاڑیاں گھروں میں ہی پڑے رہنے سے جہاں بنک قرضے کا بوجھ ہر گذرتے دن کے ساتھ بھاری سے بھاری تر ہوتا جارہا ہے وہیں دوسرے خرچہ جات کا پورا کرنا بھی مشکل سے مشکل تر بن رہا ہے۔ٹرانسپورٹروں کاکہناہے کہ گاڑی چلا کر بنک کا قرضہ بھی ادا کیاجاتاتھا اور گھر بھی چلتا تھا لیکن پچھلے برس اگست کے بعد بنک کا قرضہ کافی بھاری ہوگیا اور اب امسال اس کو پورا کرنے کی ا مید تھی کہ کورونا وائرس پھوٹ گیا اور ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل ایک بار پھر بند ہوگئی۔ایک ٹرانسپورٹر آج گھر کا خرچہ پورا نہیں کر پار ،بنک کا قرضہ ادا کرنے کی بات ہی نہیں ہے۔ گاڑیاں بند ہونے کے باوجود بھی روڈ ٹیکس برابر ادا کرنا پڑتا ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے ٹیکس بھرنے پڑتے ہیں چاہے گاڑیاں بند ہی کیوں رہ جائیں۔ٹرانسپورٹر مسلسل حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ کم سے کم وبا ءکے چلتے انہیں کچھ ٹیکسوں کی ادائیگی اور بنک قرضوں کی ادائیگی میں راحت دیں۔ساتھ ہی ٹرانسپورٹروں کی مانگ ہے کہ صرف شاہراہ پرگاڑیوں کی مرمت کی ورکشاپس کھولنے سے مسئلہ حل ہونے والانہیں بلکہ جموں کے سب سے بڑی نقل وحمل کے مرکز ٹرانسپورٹ نگر نروال میں سپیئرپارٹس کی دُکانیں کھولی جانی چاہئے،جو گاڑیاں ٹرانسپورٹ نگر سے منتقل کرناممکن نہیں وہ مرمت کے لئے شاہراہ پر کیسے لیجائی جاسکتی ہیں،اور نہ ہی وہ ٹرانسپورٹ نگر تک میکینک کا انتظام کرسکتی ہیں ۔حکومت کوچاہئے کہ معاشرتی فاصلے کے احتیاط ودیگر صحت دوست ماحول کے ساتھ ٹرانسپورٹ نگر میں اسپیئر پارٹس اور مرمت کرنے والی دکانوں کوکھولنے کی اجازت دی جائے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا