سپریم کورٹ نے فوری راحت نہ دیتے ہوئے پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنانے کاحکم دیا

0
0

یواین آئی

نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے تبلیغی جماعت کے معاملے میں میڈیا کے خلاف فرقہ پرستی پھیلانے کے الزام پر کوئی بھی تبصرہ کرنے یا میڈیا پر پابندی عائد کرنے سے پیر کو انکار کر دیا۔تاہم آج کی قانونی پیش رفت پر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی عدالت کے حکم کے مطابق پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنایاجائے گا۔چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے کی صدارت والی تین رکنی بینچ نے مسلم علماء کی تنظیم جمعیتہ علمائے ہند کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اس معاملے میں میڈیا پر کوئی پابندی لگانے سے انکار کر دیا۔جسٹس بوبڈے نے کہا، ’’ہم پریس پر پابندی نہیں لگا سکتے‘‘۔ جسٹس بوبڈے نے اعجاز مقبول کی دلیلوں کو ٹھکراتے ہوئے انہیں پریس کونسل جانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا، ’’آپ پریس کونسل کو فریق بنائیے پھر ہم دو ہفتے بعد اس پر سماعت کریں گے‘‘۔درخواست گزار کے جمعیتہ علمائے ہند کے وکیل اعجاز مقبول نے اپنا موقف رکھتے ہوئے میڈیا پر فرقہ واریت پھیلانے کا الزام لگایا۔انہوں نے کہا کہ نظام الدین مرکز معاملے میں میڈیا فرقہ واریت پھیلا رہا ہے اور اسے روکا جانا چاہئے، لیکن جمعیت علماء ہند نے مرکز میں تبلیغی جماعت معاملے میں میڈیا کوریج کو بدنیتی پرمبنی قرار دیتے ہوئے عدالت میں ایک عرضی دائر کی ہے۔قبل ازیں مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں چلاکر مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار،ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃعلماء ہند کی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی،ویڈوکانفرنسنگ کے ذریعہ ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا ودیگر دوججوں کے سامنے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول ایڈوکیٹ نے مضبوطی سے اپنے دلائل رکھے اور کہا کہ تبلیغی مرکزکو بنیادبناکر پچھلے دنوں میڈیا نے جس طرح اشتعال انگیز مہم شروع کی یہاں تک کہ اس کوشش میں صحافت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا گیا اس سے مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ سخت دلآزاری ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف پورے ملک میں منافرت میں اضافہ ہوا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک عام سے واقعہ کو میڈیا کے بڑے حلقے نے غیر معمولی واقعہ بناکر پیش کیا اور اس کے لئے جھوٹ کو بنیادبنایا گیا یہاں تک کہ کورونا وائرس کی وباء کو کورونا جہاد سے تعبیر کرکے یہ تاثردینے کی مجرمانہ کوشش کی گئی کہ ملک میں اس وباکو مسلمانوں نے پھیلایا ہے اس سے عوام کی اکثریت نہ صرف گمراہ ہوئی بلکہ عام مسلمانوں کو لوگ شک کی نظرسے دیکھنے لگے۔جمعیتہ کی پریس ریلیز کے مطابق اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مسٹراعجازمقبول نے چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے، جسٹس ناگیشورراؤ اورجسٹس شانتانوگورا کے بینچ سے کہا کہ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ عدالت میڈیا کے لئے شرائط اور حدودطے کرے اور اسے آئندہ اس طرح کی اشتعال انگریزی سے روکے کیونکہ ایک ایسے وقت میں کہ لوگ ایک ساتھ مل کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہیں بے لگام میڈیا کا ایک بڑاطبقہ معاشرے میں انتشاروتفریق پید اکرکے لوگوں کو مذہبی طورپر تقسیم کرنے کی خطرناک سازشیں کررہا ہے اور اس کے لئے دھڑلے سے جھوٹی خبریں اور فرضی ویڈیوزکاسہارالیا جارہا ہے جو قانونی طورپر انتہائی قابل گرفت بات ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافتی اصول کا تو یہ تقاضہ ہے کہ کوئی بھی خبر شائع یا نشرکرنے سے پہلے اس بات کی باضابطہ طورپر تصدیق کی جائے کہ آیا خبر میں جو کچھ کہا گیا ہے صحیح ہے یاغلط مگر میڈیا ایسانہیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماراقانون یہ بھی کہتاہے کہ اس طرح کی کوئی خبر شائع یا نشرنہیں کی جانی چاہئے جس سے کسی شخص یا فرقہ کی بدنامی یا دل آزاری ہویا جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں، مسٹراعجازمقبول نے عدالت کے سامنے 98اخبارات کے تراشے اور ویڈیوز بطورثبوت پیش کئے۔انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ WHO، بی جے پی کے قومی صدر،وکلاء اورڈاکٹروں کی ٹیموں اور دوسرے کئی اہم اداروں نے میڈیا کی اس غیر ذمہ دارانہ اورخطرناک رپورٹنگ پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے۔مولانا سید ارشد مدنی نے عدالت کی آج سماعت کے بعد ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا شروع سے یہ اصول رہا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ سیاسی طور حل نہیں ہوتاتو ہم اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت جاتے ہیں اور ہمیں وہاں سے انصاف بھی ملتاہے اس معاملہ میں بھی ہمارے تمام ترمطالبوں اور گزارشات پر جب کوئی کاروائی نہیں ہوئی اورفرقہ پرست میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ رپورٹنگ کی روش ترک نہیں کی تو ہمیں عدالت کا رخ کرنے پر مجبورہونا پڑا ہم اپنی اس جدوجہد کو آخر آخر تک جاری رکھیں گے اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے معاملوں کی طرح اس اہم معاملہ میں بھی ہمیں انصاف ملے گا کیونکہ یہ معاملہ محض مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے اتحاد اور قومی یکجہتی سے جڑاہوا معاملہ ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا