کروناوائرس کے چلتے لاک ڈائون کیساتھ ہی حکومت نے غریب کنبو ں کوتین ماہ کامفت راشن دینے کااعلان کیا،یہ فیصلہ مرکز ی سرکارکاتھاجس نے یہ قدم اس لئے اُٹھایاکہ لاک ڈائون اور کرونا وائرس کے قہر کے چلتے خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کنبے فاقہ کشی کاشکار نہ ہوجائیں ،لیکن بی پی ایل خاندانوں کو تین ماہ کا راشن مفت فراہم کرنے کے مرکزی حکومت کے دعوے کے باوجود ، جموں و کشمیر یوٹی میں قریب ساٹھ فیصد لوگوں کودو مہینے سے بی پی ایل کے تحت آج تک تین روپے فی کلوگرام کی شرح کاعام راشن حاصل نہیں ہوا،متعلقہ محکمہ وہی گھسے پِٹے جواز پیش کرنے میں مشغول ہے، کہیں انٹرنیٹ نہیں ، کہیں راشن کارڈوں میں اغلاط ہیں تو کہیں ریکارڈ میں ہیراپھیری کے الزاما ت عائیدکئے جارہے ہیں، کئی مقامات پرڈیلرحضرات پر کالابازاری کرنے کے الزامات بھی لگ رہے ہیں،حکومت نے بی پی ایل اور غیرترجیحی ہاؤس ہولڈ اسکیم کے تحت جموں وکشمیر یوٹی کے لوگوں کے لئے مارچ اور اپریل کے مہینوں کے لئے راشن کا اعلان کیا تھا لیکن یہ صرف جموں کے علاقے میں اب تک چالیس فیصد اور وادی کشمیر میں سترفیصد خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکرنے والے کنبوں کے لئے تین ماہ کی مفت راشن کی فراہمی کا اعلان کیاگیاتھا۔محکمہ فوڈ ، سول سپلائی اینڈ کنزیومر افیئرز ڈیپارٹمنٹ (ایف سی ایس اور سی اے) نے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی قدم نہیں تک نہیں اٹھایا ہے ، اس کے نتیجے میں متعدد غریب خاندان جن میں مزدور طبقہ شامل ہے،‘ فاقہ کشی کے دہانے پرپہنچاہواہے۔ ان غریب خاندانوں کے لئے صورتحال بدترین ہوسکتی تھی اگر کچھ غیرسرکاری رضاکار تنظیمیں گذشتہ ایک ہفتہ سے ان میں مفت راشن کی تقسیم کے لئے آگے نہ آئی ہوتیں۔ لیکن پھر بھی جموں خطے کے بہت سارے لوگوں ایسے ہیں جنہیں ابھی تک حکومت یا کسی رضاکارادارے نے راشن فراہم نہیں کیا ہے۔جھگی جھونپڑیوں میں مقیم طبقہ بھی فاقہ کشی کاشکارہے، گذشتہ روز چھنی پولیس ہائوسنگ کمپلیکس کے سامنے بسنے والے جھگی جھونپڑی والوں نے ایک ویڈیوپیغام میں اپنی بے بسی کااِظہارکرتے ہوئے انکشاف کیاکہ وہ کئی دِنوں سے بھوکے ہیں،جس سے ظاہرہوتاہے کہ انتظامیہ کے ہرکسی تک پہنچنے کے دعوے کتنے کھوکھلے ہیں،ڈپٹی کمشنرجموں نے چند ایک مقامات کے فوٹوسرکاری ٹویٹرہینڈلرپر ضرور اپ لوڈکرکے شاباشی لینی چاہی لیکن زمینی سطح پروہ مکمل طورپرناکام ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی فلاحی اِدار ے واین جی اوز وائٹس ایپ گروپ بناکرلوگوں کی مددکیلئے آگے آرہی ہیں لیکن یہ غریب لوگ جن کے پاس موبائل تک بھی نہ ہو،چھت نہ ہو،جھگی میں رہتاہووہ بھلاوائٹس ایپ کے ذریعے مددکرنے والوں کوکہاں تلاشے گا، یہاں زیادہ ذمہ داری انتظامیہ کی بنتی ہے کیونکہ انتظامیہ کو بخوبی معلوم ہے کہ کہاں کہاں جھگی جھونپڑی والے بستے ہیں، دوسری طرف محکمہ فوڈ ، سول سپلائی اینڈ کنزیومر افیئرز ڈیپارٹمنٹ (ایف سی ایس اور سی اے) کارویہ بھی افسوسناک ہے،دیہی علاقہ جات میں راشن نہیں پہنچ پارہاہے، مرکزی سرکارسے غلہ حاصل کرنے کے باوجوداگر یہ اس مشکل گھڑی میں ضرورت مندوں کونہ ملے تویقینایہ روایتی کالابازاری کرنے والوں کیلئے ایک بہترین موقع بن سکتاہے اور غریبوں کانیوالاچھِن سکتاہے،خدشات لاحق ہیں کہ لاک ڈاؤن میں مزید دنوں کی توسیع کی صورت میں مسئلہ اور بڑھ سکتا ہے کیونکہ عوام کے پاس جو بھی راشن باقی رہ جائے گا وہ ختم ہوجائے گا اور ان حالات میں حکومت کو ایسے بی پی ایل کنبوں کے لئے راشن کے انتظام میں اضافی غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جموں کے متعدد اضلاع جیسے سانبہ ، کٹھوعہ ، ریاسی ، ادھم پور ، راجوری ، پونچھ ،رام بن ،کشتواڑ، ڈوڈہ وغیرہ میں بی پی ایل کے تحت رہنے والے ہر خاندان ابھی تک راشن فراہم نہیں کیا گیا ہے۔حکومت ،ضلع انتظامیہ اورمتعلقہ محکمہ کودیانتداری سے کام لیناہوگاکیونکہ اس وقت صورتحال بھیانک ہے،ہم جنگ جیسی صورتحال سے دوچارہیں،ایک خاموش قاتل دُنیاکویرغمال بنائے ہوئے ہے۔