*پیٹ کی پکار……!!*

0
0

شاداب راہی محمدی
7376254435
*آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں*
*کوچ کر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں*
بھوک نے عزت لی۔جان لیا۔پاکی لی۔ایمان لیا۔ذلت دی۔ناپاک کیا۔باپ نے بھوک کے خاطر بیٹی کو درگور کیا۔زندوں نے مردوں کے کفن چرائے۔نفس نے اپنے اور پرائے کا تمیز نہ کیا۔جہاں سے جو ملا بھوک مٹایا۔آنکھ کی اہمیت وافادیت اندھے بتاتے ہیں بھوک کی قمیت طوائف بتائینگی۔بھوک نے گھر بار۔ماں۔باپ۔ بہن اور بیوی بچوں کا پیار لیا۔ایک یہی تو ہے جس پر سب کچھ قربان کیا اور اس نے ہمیں دو وقت کی روٹی دی۔
ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ترجمہ پیشِ خدمت ہے
"بلاشبہ غریبی(بھوک) وہ لعنت ہے جو عقل کو ششدر اور اچھے اچھوں کو بے دین بنا دیتی ہے”
منور رانا کی رعنائ انداز کا کیا کہنا۔
بچوں کی فیس،ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں،اسکول چبھ گیا۔

اور صاحب جناب والا وزیر اعظم ہندوستان نے بھوک کو سیل کرنے کی سازش رچی ہے۔ڈھونگ کیا ہے۔انجام گلستاں کی پرواہ کئے بغیر ہر شاخ پہ الو بٹھانے کی پہل اور ضد کی ہے۔جس بھوک نے ہزاروں ہندوستانی عورتوں کو جسم بیچنے پر مجبور کیا۔ہر شہر کی ہر گلی نکڑ پہ ایک نئ امیدِ رزق کی سیج سجی ہے اس وطن کے 30 کروڑ کی بھوکی۔ننگی۔غریب وقلاش عوام کو لاک ڈاون کا تحفہِ عظیم سے نوازا ہے۔جہاں دولت کی فراوانی ہے وہاں بھی حالت بد سے بدتر مقام کو پہونچ چکی ہے۔وہاں کی جفاکش اور محنتی عوام لا محالہ ہزاروں انواع واقسام کی تکالیف کی زد میں ہے پھر ہم بے روزگار۔کا کیا۔ہم پر کیا خوب احسان کیا ہمارے محسن نے ہم مفلس ومحتاج شہریوں سے فٹ پاتھ بھی چھین لی؟؟؟؟
دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
زخم بھر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں
کوچ کر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

آپ ہی بتائیں؟ اور اہل وطن سوچیں کیا ہم نے بھوک کے خاطر دین نہ بیچا؟سیرت کا بے دام سودا نہ کیا؟ناداری اور افلاس کے ہاتھوں ہماری آج بھی ہزاروں بہنیں اور مائیں اپنے عزت وآبرو کو ذبح نہیں کرتی ہیں؟جسے نہ عقلِ سلیم اور نا ہی شرافت ومروت پسند کرے؟یاد رکھیں مشہور کہاوت ہے "پیٹ کی پکار کے آگے ضمیر کی آواز دب جاتی ہے”۔
غربت و بھوک نے افکار وخیالات کو کھا لیا۔خاندانی نظام کو لوٹ لیا۔عصمت وناموس کو زخمی کیا۔عفت کی چادر چھین لی۔خودداری کا پہناوا چھین لیا۔امانت ودیانت کی بھینٹ لے لی۔اس بھوک کا علاج بتائے بغیر جناب والا نے اعلان کر دیا سب "چنگا سی”……..؟؟

اس نادانی کا کیا نام ہو۔بھوک کی قہر نے پیٹ کو زخم دیا۔سفر کی تھکان نے کمر توڑی۔اب کتنا احسان اور صاحب۔؟
جس عوام کی آپ بات کرتے ہیں شاید اس گنتی میں یہ عوام ہے ہی نہیں ورنہ تشہیر رزق رسانی کا کوئ نام ونشان کیوں نہیں؟بے کس و بھوکے لوگوں کی فکر آپ کو کیوں دامن گیر نہیں؟

یہ جرم،گناہ۔بغیر سوچی سمجھی تدبیر۔ناسمجھی کی اعلی مثال ہے۔جھوٹی تسلی ہے۔ اور عظمت انسانیت پر ایک بدنما داغ ہے۔رو پوش چہرے کی پول حیاء سوز حرکت نے سر عام کھول کر رکھ دیا ہے۔آپ کس کے کتنے ہمدرد وہمنوا ہیں جگ ظاہر ہے۔
اور تو اور این آرسی اور این پی آر والے ہوم منسٹری والے تو دکھنا ہی بند کردئے۔انکی نگاہ میں تو یہ 30 کروڑ کب کے ہی گھسپیٹئے ہوچکے ہیں۔آج بھی گھر کی ذمہ داری کی پوچھ تاچھ اور تفتیش والد سے ہوتی ہو۔اور یہ تو اتنا بڑا جسم وبدن لئے چاند بن گئے۔من کیا نکلے ورنہ چھپے رہیں۔یہ سوغات ہے اور اس وطن کے بھائیو بہنوں کے لئے جو انہیں اپنا در ودیوار سمجھ بیٹھے تھے۔
‏عجیب قحطِ مسیحائی ہے کہ یہاں …..!
اپنے بھی اپنوں کو چھُو لیں گے تو مر جائیں گے

یہ تو انسانی کردار اور روابط پر کلنک ہے۔یہ رامائن اور مہا بھارت دیکھ رہے ہونگے۔بیٹے کی BCC والی کمائ اور ہوم منسٹر والی کرسی ایک گاڑھی اور دوسری موٹی دونوں جب ساتھ مل گئ تو دوسروں کا ٹینشن کیونکر لیں؟اچھا سبق دیا ہے چچا نے جتنا ان کا نام جپو اتنا ہی بھگتو اے بھکتو!!!
یہ سب کے سب وطن اور اہل وطن کے لئے خطرہ نہیں خطرات ہے۔جو سماج کی سلامتی۔غریب کی قدر ومنفعت کو بالائے طاق رکھ چکی ہے۔یہ تہی دست اور فاقوں اور سفر کے ماروں کا کچھ نہیں کر سکتے۔انہیں صرف جذبات اور مذہبیت میں لڑانا آتا ہے۔………وقت مدد کے آئے تو انکا ہاتھ اتنا لمبا ہے یہ کسی کو دے سکتے ہیں۔۔۔۔دیکھئے اور سوچئے آگے کیا کرنا ہے۔

رو کے جینے میں بھلا کون سی شیرینی ہے
ہنس کے مر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
نکل آئے ہیں عدمؔ سے تو جھجھکنا کیسا
در بدر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا