دہلی فسادات،مسلمانوں کوکمزورکرنے کی ایک منظم سازش!

0
0

حنیف ترین
کٹ جائیں پر جھکیں نہ جھوٹوں کے آگے
ایسے سر اور دھیر، میں سوچا کرتا ہوں
ایک پڑھالکھا عقل مندآدمی چاہے وہ کسی بھی برادری یا فرقے سے تعلق رکھتا ہو اور ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں رہتاہو، ملک کے حالات کو دیکھ کر اتنا زیادہ پریشان ہے، جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکے خلاف جواحجاج ملک بھر میں خاص طور پر دہلی میں ہو رہے ہیں،اسے ختم کرانے کے لیے ایک سازش کے تحت اس علاقے میں یہ فسادکرائے گئے جہاں ہندومسلمان برسوں سے ساتھ رہتے آئے تھے۔ باہری غنڈوںاورایک خاص ذہنیت کے لوگوںکوبلاکر باقاعدہ’ٹارگیٹ کلنگ‘ کی گئی،یہ منظردیکھ کردل دہل جاتاہے۔ اس حملے میں بڑی تعداد میں ایک کمیونٹی کے لوگ مار دیے گئے، ان کے گھراوردکانیںلوٹ لی گئیں۔ ان کے گھرجلادیے گئے، مگر80فیصدمقدمات بھی ان ہی پرقائم کیے جارہے ہیں۔حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ فسادکرانے والے لوگ کون تھے؟ اس کی شروعات چاندباغ کے دھرنے کے مقام پر باقاعدہ پتھراؤکراکے کرایاگیا۔مظاہرین کو اُکسانے کے لیے شامیانے تک اُکھاڑدیے گئے۔ بی جے پی کے ایک لیڈر نے پولیس کے سامنے چیلنج کیاکہ اگر یہاں سے یہ دھرنے نہیںاُٹھائے گئے توپھرہمیں ان کوخودہی ہٹاناہوگا۔
ہندوستان میںآزادی کے بعد اب تک 50ہزار سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں اوران سب میں پولیس ان ہی لوگوں کے خلاف رہی ہے، جن کو ماراگیا، لوٹاگیا۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ فساد مسلمانوں کی اقتصادیات کوتباہ کرنے کاہتھیارپہلے بھی تھااور آج بھی ہے،کیوں کہ آزادی کے بعدمسلمان اس وقت اچھی پوزیشن میں تھے۔ دہلی اورممبئی میں توخاص طورپر مسلمان اچھی حالت میں تھے۔اس کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ ملک کے بٹوارے کے بعد سردارپٹیل نے جب مسلمانوں کو 10فیصد ریزرویشن دینے کی بات کی تو اس وقت کے مسلم رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئے ریزرویشن لینے سے انکار کردیا تھا کہ مسلمانوں کواس کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر فسادات کے ذریعہ ان کو آج اس حالت میں پہنچادیاگیا ہے کہ یہ ہندوستان کی اقلیتوں میں سب سے غریب اورنچلے پائیدان پرہیں۔میں شکرگزارہوں آرایس ایس اور بی جے پی کا اس نے سوتی ہوئی قوم کو ایک طرح سے جگانے کا کام کیاہے حالانکہ اب بھی بہت سارے مسلمانوں کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا وجود خطرے میں آچکاہے۔ مگربھلاہو قوم کے دانشوروں اور ملک وقوم سے بے انتہا محبت کرنے والی ماؤںکاجنھوںنے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے ساتھ کی گئی زیادتی کے بعدسی اے اے، این آرسی اوراین پی آرکے خلاف شاہین باغ سے ایسی تحریک چھیڑدی،جس نے حکومت کوہلا دیا۔ میں ان ماؤں،بہنوں اور بچوں کو سلام پیش کرتاہوں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ان نوجوانوں کو بھی میںسلام پیش کرتاہوںجنھوں نے اپنی قومی حمیت کاثبوت دیتے ہوئے یوگی حکومت کی زیادتیوں کاسامناکیا۔اس طرح اس تحریک میںجان پڑگئی۔پھر کیا تھا اس میں مزید شدت آتی گئی اور ملک بھر میں عوام کاغصہ پھوٹ پڑا اور ہندوستان کا نوجوان طبقہ بلاتفریق مذہب وملت اس تحریک کاحصہ بن گیا۔
جس ملک میں عدل وانصاف ختم ہوجائے اورقانون کے محافظ حکومت کے اشاروں پرمعصوموں پر ظلم کرنے لگیں تووہ قوم زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ اٹلی پرقبضہ سے پہلے مسولینی نے ’بلیک شرٹ‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی،جس میں زیادہ تر متشدد نوجوان شامل تھے اورجو سوشلسٹوں کو نشانہ بناکرسماج کوتقسیم کررہے تھے۔ کہاجاتاہے کہ اس زمانے میں مسولینی سے اچھا مقرر کوئی نہیں تھا۔ وہ دوران تقریر جب اپنے سینے پرہاتھ مارتاتھاتولوگوں میں اس قدرجوش بھرجاتاتھا کہ لوگ کھڑے ہوجاتے اوراس کے نام کے فلک شگاف نعرے لگانے لگتے تھے۔مگر1919کاانتخاب وہ ہارگیا۔شکست کے بعد مسولینی نے ہار نہیں مانی اورمسلسل اپنی کوششوں میں لگارہا اورعوام کے ذہنوں کواپنی زہریلی تقریروں سے مسموم کرتارہا ۔1924کے انتخاب میں اس نے عوام سے وعدہ کیا کہ اگر ہماری حکومت اقتدارمیں آئی تووہ عوام کے مفاد میں کام کرے گی، لوگوں کونوکریاں ملیں گی اور بہترطبی خدمات مہیاکرائی جائیں گی۔ اس طرح ہمارا ملک سب سے آگے ہوجائے گا۔اس طرح کے جھوٹے وعدوں اور دھاندلیوں سے جب اس نے 1924کا انتخاب جیت لیا تواٹلی کابادشاہ جواس کا ہم نواتھا، اسے اپناہیروتسلیم کرلیا اور پولیس وفوج بھی اس کے ساتھ ہوگئی۔اقتدارملنے کے بعد سب سے پہلے اس نے پارلیمنٹ کو معطل کیا اور اپنے احکام کوملک کے قوانین میںتبدیل کردیا۔ 8سے 18سال کے نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کی تربیت کے لیے اسکولوں اورکالجوں میں نطشے کے فلسفے اور وطن پرستی کی تعلیم دی جانے لگی۔ ہندوستان کی فرقہ پسند طاقتیںمسولینی کی ان پالیسیوں سے بہت متاثرتھیں۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ مسولینی کی حکومت کے طریق کارکو قریب سے دیکھنے کے لیے ڈاکٹرمونجے اٹلی گئے تھے۔ وہاں جاکر انھوں نے پورے سسٹم کوسمجھااورمسولینی سے ملاقات بھی کی بھی۔ ہندوستان کے تازہ حالات وواقعات کودیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سی اے اے، این آرسی اوراین پی آرکے ذریعہ ہماراملک بھی اسی راہ پرچل پڑا ہے۔ عوام بھی اس بات کوسمجھ رہے ہیں تبھی پورے ملک میں ہنگامہ برپاہے اورجگہ جگہ لوگ دھرنوں پربیٹھ گئے ہیں۔لوگ جمہوریت کی بقا اور آئین کے تحفظ کے لیے سڑکوں پراُترآئے ہیں ۔
ملک کے اتحاد کو توڑنے کی کوشش برسوں سے ہورہی ہے۔1925 سے ہی لوگوں میں نفرت اور تعصب کے بیج بوئے جارہے ہیں۔وطن پرستی کے نام پرعوام کے ذہنوںمیں زہر گھولا جارہاہے اور ہندومسلمان کے درمیان خلیج کو مزیدبڑھانے کی مسلسل کوشش ہورہی ہے تاکہ لوگ ہندومسلم کے خانے میںبٹ جائیں اور اصل موضوع پران کادھیان نہ جائے۔اس طرح ایک خاص ذہنیت کے لوگوں کاحکومت پرقبضہ بنارہے۔ذرا غورکیجیے کہ آج جب ملک معاشی طورپر بہت پیچھے چلاگیاہے، لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں ہے،جب کہ معیشت اورامن کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔پچھلے کئی سالوں میں ملک اورعوام کے مفادمیںکوئی قابل ذکر کام نہیںہوا، البتہ نفرت کازہر پورے ملک میںخوب پھیلایا گیا اورچندبزنس مین امیرلوگوں کوخوب پھلنے پھولنے کا موقع دیاگیا۔ تبھی توآج حالت یہ ہوگئی ہے کہ ملک کی 75.6فیصد دولت صرف11لوگوں کے پاس ہے۔ باقی ماندہ دولت میں135کروڑلوگ حصے دار ہیں۔
تازہ صورت حال یہ ہے کہ آئے دن نئے نئے بینک گھوٹالے سامنے آرہے ہیں۔ ابھی چنددن پہلے ’یس بینک‘ کاگھوٹالہ سامنے آیاہے۔ اس میںکروڑوںکانقصان ہواہے۔اس سے ملک کی اقتصادیات جوپہلے سے ہی آئی سی یو میں تھی ،مزید پیچھے چلی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گھوٹالے میں شامل کم ازکم 10افراد ایسے ہیں جنھوں نے ’یس بینک‘ سے پیسے لے کر بی جے پی کو چندادیاہے۔اس بات سے ڈرامے کی پوری کہانی خودبخودواضح ہوجاتی ہے۔ اناہزارے اوران کی ٹیم اب کہاںہے ؟2014میںجو گھوٹالے پرہنگامے کرائے گئے تھے، کیاموجودہ گھوٹالے اس زمرے میں نہیں آتے!حالانکہ 2014میں اسی گھوٹالے کوبنیادبناکر کانگریس کے خلاف ماحول کھڑاکیاگیااورعام انتخابات بھی اسی گھوٹالے پرہی لڑا گیا تھا، جس میں کجریوال خوب پیش پیش تھے،مگر آج ان کو یہ گھوٹالے نظر نہیںآ رہے ہیں؟ آج وہ خوداقتدارمیںہیں، انھیں اس کے خلاف بھی آوازاٹھانی چاہیے، نہیں تو عوام انھیںکبھی معاف نہیں کریں گے، کیوں کہ زیادہ دنوں تک لوگوںکوبے وقوف نہیں بنایاجاسکتاہے!قومی میڈیا بھی اس ایشو سے اپنادامن بچاتارہاہے۔ گودی میڈیا کوتوان گھوٹالوں سے کوئی لینادیناہی نہیں ہے اورنہ ہی اسے ملک کی معیشت کی کوئی فکرہے۔مذہبی ایشوز سے اسے فرصت ہی کب ملتی ہے جو ملک کی بہتری کے بارے میں سوچے ! ابھی پچھلے دنوںگودی میڈیا نے جہاد کی نئی ’پریبھاشا‘ اورنئی قسمیں گھڑی ہے۔ بڑی دیدہ دلیری سے اس نے جھوٹ کے ذریعہ عوام کو گمراہ کیاہے۔ یہ اس وقت جب ملک میں پہلے سے ہی نفرت کا بازارکافی گرم ہے۔اگربھولے بھالے عوام جنھیں اسلام اورجہاد کے بارے میںنہیں معلوم، وہ ان کی باتوں میںآکر نفرت پرآمادہ ہوجاتے ہیں تو پھرکیاہوگا!
گودی میڈیاذرایہ بتائے کہ کون سادھرم سکھاتاہے کہ کوئی شخص اگرکسی پرجان لیواحملہ کرے، اس کی دولت کو نقصان پہنچائے، اس کی عزت کوتارتارکرے یااس کی جان کاپیاساصرف اس لیے ہوجائے کہ وہ کسی خاص مذہب پرعمل کرتاہے توکیااُسے چپ چاپ کھڑے ہوکرتماشہ دیکھناچاہیے اور اسے اپنے بچاؤ کے لیے کوشش نہیںکرنی چاہیے؟ ہرگزنہیں،کوئی دھرم یہ تعلیم نہیں دیتا !ہردھرم کایہی کہتاہے کہ اسے اپنے بچاؤ کی کوشش کرنی چاہیے، یہ اس کا حق ہے۔اسلام نے بھی یہی تعلیم دی ہے، ’جہاد‘ کے معنی بھی یہی ہیں۔’جہاد‘عربی کا لفظ ہے، جس کے معنی ’کوشش‘ ہی کے ہیں۔اس کا ثبوت اسلام کی جنگیں ہیں۔یہ جنگیںدفاع میں لڑی گئی ہیں،کسی میں پہل نہیں کی گئی ہے۔ بھگت اورگوڈی میڈیادونوں کو چاہیے کہ پہلے اسلام اوراسلامی جنگوں کوکھلے دل ودماغ سے مطالعہ کریں، پھراسلام اورجہاد پربات کریں۔اسلام میں موجود ’جہاد‘کامطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کسی معصوم، بے گناہ کوصرف اس بناپرماردیاجائے کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔حتیٰ کہ اسلام کی تبلیغ یاتوسیع کے لیے بھی نہیں۔ قرآن میںسورئہ’الکافرون‘ اس کی دلیل ہے۔ اس سورت میں واضح طورپرکہاگیاہے’ لکم دینکم ولی دین‘(تمہارے لیے تمہارادین اور میرے لیے میرادین ہے) گویا اسلام دوسرے مذہب کا احترام کرتا ہے اور آزادی فراہم کرتاہے ۔اسلام میںجبر نہیں ہے۔ قرآن ہی میں ایک دوسرے مقام پریہ پیغام بھی موجودہے کہ ایک بے گناہ کاناحق قتل،پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اس قدرواضح احکامات کے بعد بھی اگرکوئی یہ کہے کہ ’جہاد‘ غیرمسلموں کوجان سے مارنے کانام ہے،تویہ سراسراسلام کے ساتھ انصافی ہوگی!
صبر بنے جاگیر، میں سوچا کرتا ہوں
درد نہ ہو زنجیر، میں سوچا کرتا ہوں
¡¡
Dr. Hanif Tarin
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
# : 9971730422
tarinhanif@gmail.com

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا