بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ کی زمینی حقیقت

0
0

محمد ریاض ملک
منڈی، پونچھ، جموں وکشمیر
زندگی کی تمام مصروفیات سے نکل کرکچھ دیر کے لئے اگر سنجیدگی سے سوچا جائے کہ اگر اس دنیامیں بیٹیاں پیدا نہ ہوتیں تو کیاہوتا؟یہ زندگی کی بہاریں کیسے ممکن ہوتیں؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہر ذی شعور انسان صرف یہی دے گا کہ اگر سماج میں بیٹیاں نہ ہوتیں تو زندگی بے رونق اور بیکار ہوتی۔ مذکورہ سوالوں کے جوابات کے بعد اب اگر غور کریں کہ آج کے دور میں بیٹیوں کے حقوق اور ان کی ادائیگی کا کیا حال ہے تو آپ اس نتیجے پر پہونچیں گے کہ بیٹیوں کے ساتھ سماج دوہرہ اور دوغلا رویہ اپناتا ہے۔ در اصل انسان کا یہ مزاج رہا ہے کہ جو چیز اسے بغیر مانگے مل جاتی ہے اس کی قدر ومنزلت اس کے لیے بہت کم ہوتی ہے۔ یہی فارمولہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بیٹیوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اگر بیٹی کا وجود ہی نہ ہوتا تو یہ تخلیق انسانیت بیکار ہوتی، بیٹی نہ ہوتی تو زندگی کے ہر شعبہ میں خزاں ہی خزاں ہوتی۔
در حقیقت بیٹی قدرت کا لاجواب تحفہ ہے لیکن اس کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اوراس کے حقوق کی ادائیگی میں جس طرح کا کھلواڑ کیا جاتا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور بیٹیوں کے تئیں سماج کا یہ رویہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے، کیوں کہ ایک بیٹی اپنے والدین کے لئے رحمت کا باعث ہوتی ہے، بہن کے روپ میں وہ بھائی کے لئے عزت ہوتی ہے اور بیوی کی شکل میں وہ خاوند کی عزت و آبرو کی علمبردار ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وجود ِزن سے ہے کائنات میں رنگ ورنہ یہ بے چین تھا ساراچمن۔ مگر پھر بھی سماج ان کے ساتھ دوغلا رویہ اپناتا ہے۔ اسی سنگین مسئلہ کو لیکر مختلف تنظیمیں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرتی ہیں، متعدد سرکاری وغیرہ سرکاری تنظیمیں بیٹیوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کام کرتی ہیں اورریاستی و مرکزی حکومتیں ان کے مفادات کے لئے مختلف قوانین بناتی ہیں تاکہ بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے سوتیلے رویئے کو روکا جا سکے اور ان کو سماج میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں جو بیٹوں کو حاصل ہیں۔
سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کی تمام تر سرگرمیوں اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کے ذریعے بنائے گئے قوانین کے باجود اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ لاگانا مشکل نہیں ہوگا کہ حقیقت میں آج بھی بیٹیاں مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہیں اور آج بھی ان کے ساتھ وہی دوغلا اور دوہرہ رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ 67 سالہ اخلاق احمد کا کہنا ہے کہ ماضی کی بات تو درکنار حال میں بھی بیٹیوں کے حقوق کے ساتھ جس طرح سے کھلواڑ ہورہاہے ایک مہذب سماج کے لئے باعث شرم ہے۔ ضلع پونچھ کی97فیصد آبادی دیہی علاقوں پر محیط ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام دیہی علاقوں میں اسکول قائم کرکے وہاں مقامی اساتذہ کو تقرربھی کیا گیا تاکہ وہاں کے بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر خوشحالی کی زندگے بسر کرسکیں۔ لیکن ہوا اُس برعکس کیونکہ جن گھروں میں سرکاری نوکریاں آئیں وہ شہروں میں منتقل ہو گئے ہیں اور دیہی علاقوں کے غریب گھر کی بیٹیاں شہروں میں ان سرکاری ملازموں کے گھر پر ملازمت کرنے لگیں۔ ایک مقامی باشندے کی چار بچیاں سرکاری ملازمین کے یہاں نوکری کر رہی ہیں اور تعلیم سے کافی دور ہیں۔ انکی والدہ سے بات کی گئی تو وہ کافی غمگین ہوگئیں اور دبے لفظوں میں انہوں نے کہا کہ یہاں پڑھائی تو ہے نہیں اسکول کبھی کھلتے ہیں کبھی نہیں۔ داخلہ کے پیسے تک ہمارے پاس نہیں آخر کریں تو کیا کریں؟انہوں نے بتایا کہ ان کی ایک بیٹی پونچھ، ایک راجوری اور دو جموں میں نوکری کرکے اپناپیٹ پال رہی ہیں اوریہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے بلکہ قانون کے رکھوالے اور بیٹیوں کے حقوق کی باتیں کرنے والے بھی یہاں خاموش ہیں۔
ایسی ہزاروں بچیاں جموں وکشمیر اور لداخ کے بڑے گھرانوں میں اپنی بچپن کی زندگی ملازمت میں گزار رہی ہیں۔ملک بھر میں یہ وباء ہے جو کہ ایک مہلک مرض سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ حکومت کے ذریعے اس مہلک مرض کے خاتمہ کے لئے قوانین تو بنائے گئے ہیں لیکن ابھی تک وہ قوانین زمینی سطح پر پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ بیٹیوں کی اہمیت کو نہ صرف یہ کہ سمجھا جائے بلکہ ان کے حقوق کی ادائیگی بھی کی جائے۔ بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ کے نعرہ کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ صنف نازک کو تعلیم سے روشناس کروانے میں یہ نعرہ مددگار ثابت ہو۔ اسی طرح بیٹیوں اور بیٹوں کے درمیان عدل و انصاف کرنے کی ضرورت ہے۔ جہیزکی لعنت کو ختم کرکے بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح وراثت میں حصہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی سر اٹھا کر زندگی گزار سکیں۔ صرف قوانین بنانے اور متعدد اسکیموں کے اعلانات سے ہی بیٹیوں کی ترقی نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن قوانین اور اسکیموں کا نفاذ بھی زمینی سطح پر ایمانداری کے ساتھ کیا جائے۔ ملک کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے امراء اور سرکاری ملازمین کے گھر میں کام کرنے والے غریب گھر کی بیٹیوں کی نشاندہی کرکے ان غریب بچیوں کو بھی تعلیم گاہوں کے دروازوں تک لانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ خالی پروگرام کرنے ،ریلی نکالنے اور بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ پھر یہی سوال بنا رہے گا کہ بیٹیوں کو کب پڑھایا جائے گا اور انہیں کب بچایا جائے گا؟(چرخہ فچرس)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا