قدیم و جدیدادبیات :ایک تجزیاتی مطالعہ

0
0

قسط اول
غلام نبی کمار وادیٔ کشمیر کی زرخیز سر زمین سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے سپوت ہیں جنھوں نے اپنی بے پناہ محنت ، لگن اور ذوق و شوق کی بدولت نہایت ہی کم و قلیل مدت میں اردو کی ادبی کائنات میں ایسی شہرت و مقبولیت بٹوری کہ جو کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔آج کے اس مصروف ترین دور میں وہ جس قدر اردو زبان و ادب کی ہرقدم اور سطح پر تشہیر و تبلیغ میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں وہ ان ہی کا خاصا ہے ۔ایک ایسے مقام پر ،جب دوسرے طالب علم اپنی مخصوص سند کی تکمیل اور ہر صورت میں اس کی حصولیابی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں ، کمار صاحب کی اردو زبان و ادب کی ترقی کے تئیں اس قدر سرگرم ِ عملی کا مظاہرہ کرنا یقیناً قابل داد ہے۔پورے ملک میں شاید ہی کوئی علمی و ادبی تقریب ،سیمنار ، کانفرنس ، مشاعرہ وغیرہ ایسا ہوتا ہوگا جس میں وہ اپنی شرکت کو یقینی نہیں بناتے ہوں گے ۔کئی ایک ادبی رسائل و جرائد سے منسلک ہونے کے باوجود قومی و ملکی نہج پر شائع ہورہے دوسرے اعلیٰ و معیاری رسائل و جرائد کو اپنی تحقیقی و تنقیدی تحریرات تفویض کرنا اُن کی وسیع النظری ہی کی مثال ہے۔آپ کسی مخصوص ادبی دائرے (ادبی صنف) کے گرد ہی رقصاں نظر نہیں آتے ہیں بلکہ کم وبیش ہر ایک موضوع اور ہر ایک صنفِ ادب کو وہ اپنے حیطۂ تحریر میں لاتے ہیں ۔یوں اُن کی تحقیقی و تنقیدی تخلیقات ہمہ جہت موضوعات کو محیط رہتی ہیں ۔موصوف نے اگرچہ آج تک بے شمار مضامین تحریر کیے ہیں جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے اور جو اردو کے ادبی سرمائے میں ایک اہم اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہاں محض اُن گنے چنے تحقیقی مضامین کا ہی مختصراً تجزیہ پیش کیا جائے گا جو ان کی شائع شدہ تصنیف بعنوان’’قدیم و جدید ادبیات:تحقیقی و تنقیدی مضامین‘‘ میں شامل ہیں ۔یہ آپ کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے جو کتابی صورت میں منظرِ عام پر آگیا ہے ۔یہ کتاب سامنے آتے ہی ادبی حلقوں میں بحث و مباحثہ کا حصہ بن گئی ۔اس میں کل ملاکر بیس (۲۰)مضامین شامل ہیں جو بقولِ مصنف کے ’’نہ کسی کی ستائش میں لکھے گئے ہیں اور نہ کسی کی فرمائش پر ۔‘‘ یہ تمام مشمولہ مضامین یا تو اس سے قبل رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں یا قومی و ریاستی سطح پر منعقد ہوئے سیمناروں میں پڑھے گئے ہیں۔یہ مضامین مختلف موضوعات یا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ متفرق اصناف کو محیط ہیں ۔بعض مضامین جہاں غزل ، نظم ، مثنوی اور رُ باعی جیسی منظوم اصناف کے مختلف گوشوں کو وا کرتے ہیں تو وہیںبعض تحقیق ، شخصیات اورادبی صحافت کے منفرد خانوں سے متعلق ہیں ۔یہ تمام مضامین اپنے آپ میں نہایت معلوماتی اور اعلیٰ مقام کے حامل ہیں جو قارئین سے سنجیدہ مطالعے اور غور و فکر کا تقاضاکرتے ہیں ۔
زیرِ تجزیہ کتاب میں شامل مضامین سے پہلے مصنف کا تحریر کردہ ’’پیش لفظ ِ ‘‘ شامل ِ اشاعت ہے جس میں مصنف نے اپنے تعلیمی سلسلے ، ادبی سرگرمیوں کے آغاز ، اردو زبان و ادب سے دلچسپی کے بنیادی اسباب ،کتاب میں شامل مضامین تحریر کرنے کے پسِ پشت اہم محرکات اور مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئے علمی و ادبی نوعیت کے مضامین کو یکجا کرکے کتابی صورت عطا کرنے کے فائدے وغیرہ جیسے اہم نکات کو اُبھارا ہے اور اختصاراً ان تمام نکات سے متعلق برملا اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے ۔اس کے مطالعے سے بچپن سے ہی اُن کے اردو زبان و ادب کے حوالے سے ذوق و شوق اور دلچسپی کا بخوبی احساس ہوتا ہے اور یہ بات ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ ابتداء سے ہی اردو کے ساتھ وابستہ ہونے پر موصوف کو بڑا فخر رہا ہے۔ ’’امیرِ خسروؔ کی غزلیہ شاعری ‘‘ اس کتاب میں شامل اوّلین تحقیقی مقالہ ہے ۔امیر خسروؔ جن کا شمار نہ صرف اردو ادب کے ابتدائی اور باکمال شعرا میں ہوتا ہے بلکہ فارسی زبان و ادب میں بھی جنھیں ایک الگ اور اونچا مقام حاصل ہے ، کی حیات ، شخصیت اور ہمہ جہت تخلیقی صلاحیتوں پر مبنی یہ مقالہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔امیرخسروؔ کی غزلیہ شاعری کی مختلف جہتوں کو روشن کرنے کے حوالے سے مصنف خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے بعض رسائل و جرائد کے شائع شدہ خصوصی شماروں کے ساتھ ساتھ بعض فارسی غزلیات کے اردو تراجم سے بھی اچھا خاصا استفادہ کیا ہے جو امیر خسروؔ کے حوالے سے موصوف کے قائم کردہ تصورات کو استدلال فراہم کرتا ہے۔امیر خسروؔ کی غزلیہ شاعری میں موضوعات کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ انھوں نے حسن و عشق ، محبوب کی سراپانگاری ، تصوف ، عشق حقیقی ، قوم و وطن پرستی وغیرہ غرض ہر ایک موضوع کے حوالے سے اشعار تخلیق کیے ہیں ۔لیکن ان کی شاعری بالخصوص غزلیہ شاعری کا بنیادی اور مرکزی نقطہ ’’عشق ‘‘ رہا ہے جس کے اردگِرد ہی ان کی شعری کائنات محوگردش ہے۔رنگِ تغزل ،معاملہ بندی ، موسیقی کا رچاؤوغیرہ وہ عناصر ہیں جو اُ ن کی غزلیہ شاعری کی معنویت میں اضافہ کرتے ہیں ۔ امیرِ خسروؔ کے ان تمام فکری و فنی پہلوؤں کو مصنف نے بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے لایا ہے نیز مستند و معتبر نقادوں اور محققوں کی امیرخسروؔ کی شاعرانہ انفرادیت سے متعلق خیالات و تصورات کوبھی بطورِ حوالہ پیش کیا ہے جس سے اس مقالے کو مزید تقویت نصیب ہوئی ہے۔’’مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری‘‘ کے زیرِ عنوان دوسرا مقالہ کتاب میں شامل ہے ۔یہ مقالہ دلّی کالج میںمشرقی شعبے کے عربی کے مدرس اور جید عالم ،اردو اور فارسی زبان کے رمز شناس ، تینوں زبانوں کے علم و فن پر مناسب دسترس رکھنے والے ، ایک کامیاب مترجم اور اپنے زمانے کے نامور قلم کار جناب مولانا مملوک العلی کے اُن خطوط کی علمی و ادبی معنویت سے متعلق واقفیت بہم پہنچانے کے سلسلے میں ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے جو انھوں نے اپنے اعلیٰ افسر اور دلّی کالج کے پرنسپل جرمن مستشرق ’’اسپنگر Aloys,Spren Ger‘‘کے نام لکھے تھے ۔تاایں دم یہی خطوط موصوف کا وہ سرمایہ ہے جو ہمیں ان کی اردو زبان و ادب سے قلبی وابستگی کا پتہ دیتے ہیں ۔یہ خطوط ان معنوں میں اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کے مطالعے سے اُس وقت کے رنگا رنگ سیاسی ، سماجی ، معاشی ، علمی اور اقتصادی حالات کی ایک انوکھی تصویر نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے ۔نیز مملوک العلی کی حساس و نرم طبیعت ، دنیاوی غم و پریشانیوں سے بے اعتنا ئی، ان کا متوازن و سنجیدہ رویّہ ، ان کے شاگردوں اور دوست و احباب کا حلقہ ، نامورعلمی و ادبی شخصیات سے ان کے خوشنما تعلقات وغیرہ غرض ان کے عہد اور شخصیت کے متنوع پہلو ایسے ہیں جو ان خطوط کے مطالعے سے عیاں ہوجاتے ہیں ۔مصنفِ کتاب نے ان خطوط سے متعلق حالیہ دور تک سامنے آئے تمام تر تحقیقی و تنقیدی دستاویزات سے استفادہ کرکے ان کے پسِ منظر اور پیشِ منظردونوں کو بڑے مناسب و متوازن انداز میں پیش کیا ہے ۔ یہ مقالہ اردو ادب سے وابستہ تمام قارئین بالخصوص مجھ جیسے اُن تمام قارئین کے لیے ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے جو تاحال مملوک العلی اور ان کی مکتوب نگاری سے نا آشنا ہی تھے۔ یہ مقالہ جہاں ان گنت خوبیوں اور معلومات سے مملو ہے وہیں اس میں بعض چیزوں کی کمی بھی ذہن کو کھٹکتی ہے (یہ میری ذاتی رائے ہے جس سے اختلاف برتننے میں آپ حق بجانب ہوں گے)جن میں سب سے اہم اور بنیادی چیز یہ کہ ایک خط کو جب ہم ادبی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی ٹھان لیتے ہیں تو اُس میں جہاں ہم ان تمام چیزوں کو کرید کرید کر گننے لگتے ہیں جن کی تفصیل اوپر درج کی گئی ہے (یعنی مکتوب نگار کی شخصیت کے متنوع پہلو اور اس کے عہد کے اتار چڑھاؤ وغیرہ)وہیں اس خط کو پیش کرنے کا ڈکشن ، اس میں مستعمل لفظوں اور جملوں کی ساخت ، اشارات ، کنائیات ، محاورے وغیرہ غرض وہ امور جو ایک لسانی ساخت کو ادبی تحریر کے زمرے میں شامل کرنے کے ضامن ہوتے ہیں ، کو سامنا لانا بھی ایک نقاد کے لیے ازحد ضروری ہوتا ہے تاکہ یہ جواز فراہم کیا جائے کہ کوئی خط یقیناً ادبی دستاویز میں گرداننے کا مستحق ہے۔بلکہ اگر ہم یوں کہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ثانی الذکر پہلوؤںکا کردار ہی اس حوالے سے زیادہ قوی ہے ۔لیکن مقالہ نگار یہاں محض یہ کہہ کر ،کہ ’’مولانا مملوک العلی کے مذکورہ خطوط کا اسلوب داستانوی اسلوب سے قطعی الگ نہیں ‘‘ سرسری طور پر گزرے ہیں۔
’’اردو میں مومن شناسی ‘‘ کے عنوان سے شامل کتاب کا تیسرا مضمون اردو ادب کو دو سو برسوں سے اپنی روشنی سے منور کرنے والے ہردلعزیز تخلیق کار ، غزل ، قصیدہ اور مثنوی وغیرہ اصناف میں اپنا انفراد قائم کرنے والے استاد شاعر مومن خان مومنؔ کی حیات ، شخصیت اور بے لوث ادبی کارناموں کے حوالے سے سامنے آئے ہوئے تحقیقی اور تنقیدی نگارشات کی زمانہ وار ترتیب و تنظیم کو محیط ہے ۔مومن کا شماراگرچہ ر اردو ادب کے اُفق پر تابندہ اور صفِ اوّل کے قلم کاروں میں ہوتا ہے اوروہ اپنے منتخب کردہ انداز اسلوب اور طرزپیش کش کی وجہ سے اپنے معاصرین تخلیق کاروں سے ایک الگ اور منفرد مقام کے حامل بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا نام اور کام جس گہرے مطالعے اور قدرشناسی کے مستحق ہیں وہ انھیں ابھی تک نصیب نہیں ہوا۔ہاں البتہ بعض محققین و ناقدینِ ادب نے ان کے مقام و مرتبے کو پہچان کر ان کی خداداد صلاحیتوں اور تخلیقی بصیرتوں سے اردو دان طبقے کو متعارف کرایا ہے ۔ان کے کلام خواہ وہ غزل ہو کہ مثنوی یا قصیدہ نگاری میں پنہاں ادبیت ، ہیئتی و تکنیکی تجربات ، انوکھے اور نادر تشبیہات و استعارات ، مختلف علوم و فنون سے اخذ کی ہوئی اصطلاحات ، محاورے اور ان کے منفرد و مخصوص اندازِ بیان وغیرہ جیسے اہم عناصر کو منصہ شہود پر لاکر ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا ہے۔ان صاحب ِ علم شخصیات میں پروفیسر ضیاء احمد بدایونیؔ ، نیاز فتح پوری ؔ، ضمیر الدین عرش ؔگیاوی ، امیر حسن نورانی ، حامد حسن قادری ، ظہیر احمد صدیقی ، کلب علی خاں، ڈاکٹر عبادت بریلوی ، سید تمکین کاظمی اور محمد منظور احمد کے علاوہ اور بہت سارے نام شامل ہیں ۔مصنفِ کتاب نے متذکرہ بالا تمام ماہر مومنیات کے کارناموں کا الگ الگ سے تفصیلی جائیزہ پیش کیا ہے ۔انھوں نے مومن اور ان کے ادبی کارناموں کے حوالے سے سامنے آئی ہوئی تصانیف کو زمانی اعتبار سے ترتیب میں لاکر یہ ثابت کیا ہے کہ ’’شرح قصائد مومن ‘‘ نامی کتاب کو اس فہرست میں اوّلیت حاصل ہے ۔ یہ کتاب ۱۹۲۵ء ؁ میں شائع ہوئی ہے ۔ اس کے تخلیق کار پروفیسر ضیاء احمد بدایونی ہیں ۔یوں پروفیسر ضیاء کو اردو ادب کے سب سے پہلے مومن شناس ہونے کا شرف حاصل ہے۔اگرچہ پروفیسر ضیاء اس صفت سے متصف ہیں کہ وہ اوّلین مومن شناس ہیں لیکن غلام نبی کمار کا ماننا ہے کہ ’’مومن خان مومن پر سب سے زیادہ اور قابل ِ تعریف کام ضیاء احمد بدایونی کے ہونہار سپوت پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کاہے۔‘‘’’سرسید کے سماجی افکار کی عصری معنویت ‘‘ نامی مقالے میں انیسویں صدی کی ایک معتبر اور بلند قامت علمی ، ادبی ، مذہبی اور سیاسی و سماجی شخصیت کے اپنی قوم و ملک کے تئیں خدمات کا مختصراً جب کہ ان کی سماجی بیداری کی مہم کے حوالے تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے ۔سرسید احمد خان نے ایک ایسے دور میں قومی اصلاح کا بھیرا اُٹھا جب ہندوستان بالخصوص مسلمانانِ ہند بھر پور غفلت شعاری کے شکار تھے۔آپ ایک وسیع النظر اور معاملہ فہم شخصیت کے مالک تھے ۔انھوں نے وقتی تقاضوں اور ضروریاتِ زمانہ کا بخوبی مشاہدہ کیا اور ہندوستانی قوم کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا ہمہ جہت اور ناقابلِ فراموش رول ادا کیا۔سرسید احمد خان کی انہی خدمات کا احاطہ اس مقالے میں کیا گیا ہے ۔ اس مقالے کے مطالعے کے بعد مصنف سے راقم کو یہ شکایت ہے کہ اس مقالے کا عنوان جس عدل و انصاف کا تقاضا کرتا ہے وہ بہرحال اس میں مفقود ہی ہے ۔اس بات سے انکارنہیں ہے کہ مقالے میںسرسید احمد خان اور اُن کی سماجی اصلاح سے متعلق روشنی ڈالی گئی ہے لیکن جہاں تک معاصر دور میں اُن سماجی افکار کی اہمیت و معنویت کا تعلق ہے اس سلسلے میں مصنف نے چپ بھاند لی ہے جو اس مقالے کو ناقص و نامکمل قرار دینے کا جواز فراہم کرتی ہے ۔محض یہ جملہ دہرا کر،کہ ’’ان کے مختلف موضوعات سے متعلق افکار آج بھی اہمیت رکھتے ہیں‘‘ مصنف قطعاً مفر حاصل نہیں کرسکتا ہے۔اگلا مقالہ ’’داغؔ کی مثنوی نگاری :فریاد داغ کی روشنی میں ‘‘ شاملِ کتاب ہے ۔اس مقالے میں مصنف نے داغؔ ؔدہلوی کی واحد مثنوی ’’فریاد داغ ‘‘ سے مختلف اشعار حوالے کے طور پر پیش کرکے اُن کی مثنوی نگاری کے متنوع پہلوؤں کو روشناس کیا ہے ۔اس مثنوی سے متعلق اردو ادب کے مشاہیر ناقدین کے خیالات کو درج کرکے اردو مثنوی کی روایت میں اس کی اہمیت اور فضیلت کا بھر پور احساس دلایا ہے۔اس مثنوی کی تخلیق کے پسِ پشت کون سے واقعات کارفرما رہے ہیں ،اس کا اصل قصہ،اس کی ہیروئن ، اس مثنوی کے کتنے ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ، اُن کی تاریخ ، اس میں شامل اشعار کی تعداد ، اس کے کل ابواب اور اُن کے عنوانات وغیرہ جیسے اہم مقدمات سے متعلق اس مقالے میں تسلی بخش بحث کی گئی ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’فریادِ داغ یہی نہیں کہ سوانحی داغؔ کے بعض پہلوؤں کو واشگاف کرتی ہے بلکہ ان کی طبیعت اور شاعری کے میلان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ مثنوی داغ ؔ اور ایک طوائف منّی بائی حجاب کے عشق کی داستان پر مبنی ہے۔یہ عشق کلکتہ میں بے نظیر کے میلے میں پروان چڑھتا ہے اور کلکتہ سے واپسی پر داغؔ اس مثنوی کو دورانِ ٹرین کے سفر میں دو دن میں قلم بند کردیتے ہیں۔‘‘ (داغؔ کی مثنوی نگاری:فریاد داغ کی روشنی میں ۔از غلام نبی کمار)
اردو زبان و ادب کو فروغ اور اسے صحیح سمت و رفتار عطا کرنے والے جید عالم ، مفکر اور دانشوروں میں ایک اہم اور مقبول نام شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالیؔکا ہے ۔آپ ایک ہمدرد،ہمہ جہت اور حساس شخصیت کے مالک تھے۔آپ بیک وقت کئی زبانوں کے ادب سے مکمل واقفیت رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو فرسودگی اور روایت پرستی کے دائرے سے نکالنے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی نہ صرف وکالت کی بلکہ عملی طور پر بھی اس میں برابر کے شریک رہیں۔اردو میں تنقید نگاری کے موجد قرار پائیں۔ نظم نگاری ، سوانح نگاری ، مقالہ نگاری ، غزل اور رُباعی گوئی وغیرہ غرض ہر ایک صنف ِادب کو پروان چڑھانے میں انھوں نے اپنا خون جگر صرف کیا ہے۔حالیؔ کی ان سنگ میل کارناموں بالخصوص اُن کی رُباعی گوئی کے حوالے سے جو مقالہ زیرِ تجزیہ کتاب میں شامل ہے وہ ’’رُباعیات ِ حالیؔ میں قومی اصلاح ‘‘ کے نام سے معنون ہے۔اس میں حالیؔ کی اُن رُباعیوں کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جن میں انھوں نے قومی اصلاح کے افکار و خیالات کا اظہار کیا ہوا ہے۔حالی ؔ جیسا کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں سرسید تحریک کے ایک فعال اور سرگرمِ عمل رُکن رہیں ہیں اس تحریک کا اوّلین مقصد اصلاح قوم و ملک تھا اس کے لیے انھوں نے تمام تر ترکیبوں کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی بخوبی کام لیا ۔حالی ؔ نے دیگر اصناف ادب کے ساتھ ساتھ صنفِ رُباعی کو بھی اپنے خیالات و جذبات کا وسیلۂ اظہار بنایا۔حالی ؔ کی رُباعیاں جن کی کُل تعداد’’ مصنفِ کتاب کے مطابق ۱۵۳ ہیں ‘‘مختلف موضوعات کو محیط ہیں ۔لیکن مذکورہ مقالے میں مصنف نے اُن رُباعیوں کے حوالے سے حالیؔ کی رُباعی گوئی کی رنگارنگی کو اُجاگر کیا ہے جن میں وہ بحیثیت ایک مصلح ِ قوم ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتے ہیں ۔انھوں نے موقع و مناسبت سے حالی ؔ کی کئی ایک رُباعیوں کو بطورِ سند بھی پیش کیا ہے ۔مثال کے طور پر جہاں وہ یہ مفروضہ ظاہر کرتے ہیں کہ ’’حالیؔ نوجوانوں کو راہِ راست پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں ، عقلِ خداداد ، شعور اور سمجھ سے کام لینے کی ترغیب دیتے ہیںوغیرہ ‘‘ تو اس ضمن میں درج ذیل رُباعی مثال کے بطور پیش کرتے ہیں ؎
ہو بادہ کشی پر نہ جوانو مفتوں
گردن پہ نہ لو عقلِ خداداد کا خوں
خود عہدِ شباب اک جنوں ہے اب تم
کرتے ہوفزوں جنوں پہ اک اور جنوں
’’افسانوی ادب کا ایک گمشدہ فن کار ۔بلونت سنگھ ‘‘ نامی مقالے میں غلام بنی نے اردو افسانے کی روایت کے ایک معروف نام ’’بلونت سنگھ‘‘ کی فکشن نگاری کے حوالے سے کئی مخفی گوشوں پر سے پردہ اُٹھایا ہے۔بلونت سنگھ نے اگرچہ چھ افسانوی مجموعے ، چار ناول ، تین ناولٹ ، ڈرامے اور کئی سارے طنزیہ مضامین اردو ادب کو تفویض کیے ہیں لیکن بدقسمتی اور لمحۂ فکریہ یوں ہے کہ اس کے باوجود بھی انھیں آج تک وہ مقام و معیار عطا نہیں کیاگیا ہے جس کا وہ حق رکھتے ہیں۔مذکورہ مقالے میں مصنف نے بلونت سنگھ کی اردو اور ہندی ادبی خدمات ،ان کے یہاں موضوعاتی تنوع مندی اورئیتی و تکنیکی تجربات جیسے نمایاں عناصر کو منصہ شہود پر لاکر ناقدین و محققینِ ادب کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ ابتدا سے لے کر آج تک ان کے کارناموں کو اُجاگر کر نے کے حوالے سے کس قدر تنگ نظری سے کام لیا گیا ہے ۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایسی صورت میں یہ اندازہ لگانا کوئی قباحت نہیں کہ ادبی دائرے کو مزید وسعت عطا کرنے کی بجائے اسے سمیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مزید برآں اس مقالے میں مصنف نے بلونت سنگھ کے کئی ایک مشہور افسانوں جن میں ’’جگا‘‘ ، ’’دیش بھگت‘‘اور ’’ہندوستان ہمارا‘‘شامل ہیں ، کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرکے بالآخر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
’’بلونت سنگھ نے اپنی کہانیوں کو کسی ایک موضوع تک محدود نہیں رکھا ، بلکہ انھیں تو ہر موضوع کو برتنے میں فنی اختصاص حاصل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے صرف سکھ جاٹ کے لوگوں پر مبنی کہانیوں کو ہی اہمیت دی بلکہ انھوں نے ہر طبقے ، فرقے اور مذہب کی برابر نمائندگی کی ہے۔‘‘ (افسانوی ادب کا ایک گمشدہ فن کار ۔بلونت سنگھ۔از غلام بنی کمار)
مومن خان مومنؔ کو ’’ شاعرِ مکر‘‘ کے لقب سے ملقب کرنے والی صاحب ِ بصیرت شخصیت ، پرو وائس چانسلر ،جامع اردو (علی گڑھ)، نائب صدر انجمن ترقی اردو(ہند) جناب پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کی حیات ، شخصیت اور اُن کے علمی و ادبی کارناموں کے حوالے سے غلام نبی کمار کا تحریر کردہ مقالہ’’پروفیسر ظہیر احمد صدیقی :حیات و خدمات ‘‘ کتاب میں شامل ہے۔یہ مقالہ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے پروفیسر موصوف کی ذات و حیات کے اہم پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔آپ کی پیدائش ، بچپن ، تعلیم و تربیت ، ملازمت ، مختلف عہدوں سے اُن کی وابستگی ، معروف و نامور علمی و ادبی شخصیات سے اُن کے مراسلات ،اردو زبان و ادب کے تئیں اُن کی بے لوث خدمات وغیرہ غرض اُن کی حیات و خدمات سے متعلق ایک ایک انگ کو مقالے میں زیرِ بحث لایا گیا ہے۔مقالے کے آخر پر سات (۷) ذیلی عنوانات (مطبوعاتِ ظہیر احمد صدیقی ۔ ترتیب ۔ترجمہ ۔ اعزازات و انعامات ۔بیرونی ممالک کا سفر ۔ انٹر ویو اور مدیر )کے تحت آپ کی تصانیف و تخلیقات کا مکمل فہرست پیش کیا گیا ہے۔اس طرح ظہیر احمد صدیقی جیسی عبقری شخصیت ،اُن کے عہد کے سیاسی و سماجی اور معاشی و اقتصادی نیز علمی و ادبی ماحول اور سرگرمیوں کا ایک مکمل خاکہ آنکھوں میں جلوہ نما ہوتا ہے۔’’مقالاتِ پروفیسر محمد ابراہیم ڈار: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘، ’’’’شوکت پردیسی :شخصیت اور شاعری‘‘اور ’’زبیر رضوی ؔکی ادبی خدمات‘‘ کے عنوان سے کتاب میں شامل مقالات میں بالترتیب انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، ممبئی کے بانی و سرپرست اعلیٰ ، اردو عربی اور فارسی کے جید عالم اور استاد پروفیسر محمد ابراہیم ڈار کے مقالات ،جواُن کے مخلص شاگرد و دوست ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی نے ’’ پروفیسر محمد ابراہیم ڈار‘‘ کے نام سے شائع کیے ہیں،بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغازمیں ادبی افق پر ابھرنے والے ایک کثیر الجہت اور معتبر شاعر شیخ محمد عرفان المتخلص شوکت پردیسی کی حیات و شعری خدمات اور زبیر رضوری ؔکی شاعری و نثری کارناموں پر تحقیقی و تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے۔یہ تینوں مقالات مصنف کے وسیع مطالعے اور سنجیدہ مشاہدے کا پتہ دیتے ہیں۔

توصیف احمد ڈار
ریسرچ اسکالر،شعبہ اردو،کشمیر یونی ورسٹی

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا