ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز،حیدرآباد۔ فون:9395381226
دیویندر سنگھ گرفتار ہوا‘ ایک دہشت گرد کے طور پر اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ اسے ملازمت سے برخواست کرنے کی مرکزی حکومت سے سفارش کی گئی ہے۔ ایسا جموں و کشمیر پولیس کے اعلیٰ عہدہ داروں نے اعلان کیا ہے۔ دیویندر سنگھ‘ جموں و کشمیر پولیس کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس جو بہادری‘ اپنے ملک سے وفاداری‘ دیش کے غداروں کو ٹھکانے لگانے کے لئے جانا جاتا رہا۔ جس نے الکٹرانک میڈیا کو دیئے گئے اپنے انٹرویوز میں بار بار فخریہ انداز میں کہا تھا کہ وہ انکائونٹر اسپیشلسٹ ہیں‘ اور اس نے افضل گرو کو پارلیمنٹ پر حملے کی سازش میں ملوث ہونے کے جرم کے اقبال کے لئے ٹارچر کیا اور اس کے جسم کے نازک حصوں پر پٹرول ڈالا اور مرچ لگائی گئی تھی۔ دیویندر سنگھ جو سری نگر ایرپورٹ پر تعینات کیا گیا تھا‘ ایک ایسی اہم ذمہ داری جس پر کسی بھی پولیس عہدیدار کو رشک ہوسکتا ہے۔ اُسے اینٹی ہائی جیکنگ اسکوارڈ اور انسداد سورش اسکواڈ میں شامل کیا گیا تھا۔ افضل گرو کو پھانسی کے تختہ تک پہنچانے کا سہرا بھی وہ اپنے سر باندھ چکا ہے۔ مگر پورے سات برس بعد یہی مایہ ناز، دیش کے وفادار، دیش کے غدار کے طور پر منظر عام پر آیا ہے۔ اُسے جموں و کشمیر پولیس نے تلاشی کے دوران ایک کار سے حزب المجاہدین کے دو مطلوبہ دہشت گردوں اور ایک وکیل کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ ان کے ساتھ ہتھیار بھی دستیاب ہوئے۔ دیویندر سنگھ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ دراصل حزب المجاہدین کے اِن دہشت گردوں کو پولیس کے حوالے کرنے کیلئے لے جارہا تھا مگر جب ان دو دہشت گردوں سے علیحدہ علیحدہ پوچھ تاچھ کی گئی تو ان دونوں نے خودسپردگی کا اظہار نہیں کیا۔ دیویندر سنگھ کے رویے‘ اس کے کردار پر پہلے ہی سے شک و شبہات تھے مگر کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس پر ہاتھ ڈالا جاسکے۔ کیوں کہ یقینا وہ ایک چھوٹا سا مہرہ ہے‘ اور بساط کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ یہ واقعہ بالکل امیتابھ بچن کی فلم ’ڈان‘ کے کلائیمکس کی طرح ہے جس میں پولیس کا سربراہ خود اصل ڈان نکلتا ہے۔ بہرحال! یہ دیویندر سنگھ کے سیاہ کارناموں کا انجام تھا یا افضل گرو کی روح کا انتقام؟ کے جب کئی مقامات پر پولیس نے دھاوے کئے اور دیویندر سنگھ کے گھر پر بھی چھاپہ مارا تو وہاں سے بھی AK47 رائفلیں دستیاب ہوئیں۔ اور پھر ایک ایسے پُراسرار پلاٹ کے تانے بانے میڈیا نے، سیاسی جماعتوں نے ادھڑنے شروع کردیئے کہ جس سے ایسے ایسے سنسنی خیز انکشافات ہوسکتے ہیں کہ کئی سفید پوش اعلیٰ عہدیدار بے نقاب ہوسکتے ہیں بشرطیکہ دیویندر سنگھ تحقیقات تک زندہ رہے۔ جو بھی ہو کم از کم ایک مرتبہ پھر افضل گرو کا مقدمہ عوامی عدالت میں از سر نو تازہ ہوا ہے۔ افضل گرو کا تہاڑ جیل سے اپنے وکیل سشیل کمار کے نام لکھا گیا خط ایک بار پھر موضوع بحث بناہوا ہے۔ اس خط پر جس میں کئی انکشافات افضل گرو نے پھانسی کا پھندا اپنی گردن میں آنے سے پہلے کئے تھے‘ نہ تو عدالت نے اس پر توجہ دی‘ نہ حکومت نے۔ حالانکہ مرحوم نے اس میں کھلے الفاظ میں لکھا تھا کہ کس طرح دیویندر سنگھ نے اِن پر تشدد کیا‘ کس طرح سے انہیں اپنے لئے استعمال کرنے کے لئے ان کے ارکان خاندان کو پھانسنے کی دھمکی دی۔ کس طرح سے دو افراد کو جنہیں وہ نہیں جانتے تھے‘ دہلی میں مکان کرایہ پر دلانے، انہیں موبائل دلانے، سکینڈ ہینڈ کار خریدنے کے لئے ان کا استعمال کیا تھا۔ کس طرح سے انہیں بجلی کے شاک دیئے گئے‘ برف کے پانی میں کھڑاکیا گیا۔ جسم کے نازک حصوں پر ضربات لگائے گئے اور جب مجبوراً انہوں نے دیویندر سنگھ اور اس کے ساتھیوں یا ماتحتوں کے دبائو یاظلم کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے ان کا کام کیا تو انہیں جیل سے چھوڑنے کے لئے ایک لاکھ روپئے کی رشوت بھی لی‘ جس کے لئے بیوی کے زیورات اور اپنی اسکوٹر بھی بیچنی پڑی۔ اس کے بعد بھی باربار انہیں لاکر اذیت دی جاتی رہی۔ پھر جب پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو انہیں بھی اس میں ملوث قرار دے کر قید کرلیا گیا۔ افضل گرو کا اگر یہ خط پڑھا جائے تو ہر آنکھ نم ہوسکتی ہیں کیوں کہ 12سال تک تہاڑ جیل میں قید تنہائی میں رکھنے کے بعد فروری 2013ء کو انہیں پھانسی کی سزا دے دی گئی اور تہاڑ جیل کے احاطہ ہی میں انہیں دفن کردیا گیا۔ ان کی موت کی اطلاع ڈاک کے ذریعہ ان کی بیوی کو بھیجی گئی جو پھانسی دیئے جانے کے دو دن بعد ملی۔ ان کااکلوتا بیٹاغالب گرو جو اپنے باپ کی گرفتاری کے وقت صرف 2سال کا تھا اس کی آخری خواہش تھی کہ وہ ایک مرتبہ اپنے باپ کو دیکھ سکے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ مشہور ادیبہ اروندھتی رائے نے افضل گرو کو پھانسی کی سزا دیئے جانے کے بعد بہت ہی دکھ کے ساتھ لکھا تھا کہ افضل گرو کو پھانسی پر لٹکانا جمہوریت پر ایک داغ ہے۔ پارلیمنٹ پر حملے میں افضل گرو خود ملوث تھے یا نہیں اس کاعدالت کو کوئی ثبوت نہیں ملا جس کا خود جج نے اعتراف کیا مگر عوام کی اکثریت کے جذبات اور خواہشات کے لئے اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ وہ قصوروار تھے یا نہیں اُس وقت تو اس کا جواب نہیں ملا مگر دیویندر سنگھ کی گرفتار کے بعد اگر واقعی تحقیقات پوری دیانت داری کے ساتھ کی جاتی ہے تو بہت ممکن ہے کہ کئی سوالات کے جواب مل جائیںگے۔ کئی سوال تب بھی اٹھے تھے‘ آج ایک بار پھر اٹھ رہے ہیں۔ دیویندر سنگھ کی گرفتار کے بعد سوشیل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر بہت ساری شخصیات نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے‘ کویتاکرشنن نے ٹوئٹ کیاہے کہ دراصل دیویندر سنگھ کو بچانے کے لئے افضل گرو کو پھانسی دی گئی۔ بعض نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ مسٹر اڈوانی بہت سارے حقائق سے واقف تھے انہوں نے دہلی پولیش کمشنر کے عہدہ پر اجئے راج شرما کو مقرر کیا تھا جنہیں وہ اُتر پردیش سے بطور خاص دہلی لائے تھے وہ 1999 سے 2002 تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ایک دلچسپ اور سنسنی خیز انکشاف ٹوئٹر پر کی گئی ہے کہ 2005ء میں بھی حکومت کی ایک اہم ترین ایجنسی کے سربراہ بھی اِسی کار میں چھوٹا راجن کے ساتھی وکی ملہوترا کے ساتھ پکڑے گئے تھے مگر وہ اعلیٰ سیاسی قائدین کی سرپرستی کی بدولت گرفتاری سے بچ گئے اور آج بھی وہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے اور اہم ادارے میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں۔ دیویندر سنگھ ایرپورٹ پر تعینات تھا۔ اور اُسے اس بات کاپتہ رہتا ہے کہ کشمیر میں کون آرہا ہے اور کون جارہا ہے۔ اعلیٰ سیاسی قائدین سے اس کے روابط نے اُسے بہت زیادہ اختیارات عطا کردیئے تھے۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ خود اس کے محکمہ کے بعض ارکان اس کے کردار پر شکوک و شبہات کاا ظہار کرتے رہے اب یکے بعد دیگر کئی انکشافات سامنے آئیںگے جیسا سری نگر کے سب سے مہینگے علاقہ میں کئی کروڑ کی لاگت سے عالی شان کوٹھی کی تعمیر کا پتہ چلاہے۔ یہ سوال بھی کیاجارہا ہے کہ کیا وہ اپنے ملک اور دشمن ملک کے لئے ڈبل ایجنٹ کے طور پر کام کررہا تھا؟ اس نے کشمیر میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر اپنے سیاہ کرتوت کی پردہ پوشی کیلئے اپنے سینے پر تمغات کے اضافہ کے لئے جانے کتنے بے گناہوں کو قربان کردیا۔ کانگریس نے پلوامہ حملے سے متعلق سوال کو دہرایا ہے جس پر حکمران بی جے پی چراغ پاہیں اب اس کا حال کھسیانی بلی کھمبا نوچے جیسا ہے۔دیویندر سنگھ‘ کیا دہشت گردوں کو ملک کے مختلف مقامات تک پہنچنے میں مدد کرتا تھا؟ کیا وہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کیلئے آلہ کار تھا؟ کیا پارلیمنٹ پر حملے کا اصل مجرم وہ بھی ہے؟ کیوں کہ یہ وقت ہے کہ افضل گرو کے اپنے وکیل کو لکھے گئے خط میں جو جو باتیں کہی تھیں‘ جو جو انکشافات کئے گئے‘ ان کی از سر نو تحقیقات کی جائیں۔افضل گرو تو نہیں ہیں‘ بعد از مرگ وہ اُن الزامات سے بَری ہوسکیںگے یا نہیں ان کے ارکان خاندان آج بھی جس داغ کو سینے سے لگائے ہوئے جے رہے ہیں‘ وہ مٹ سکیںگے یانہیں یہ نہیں کہا جاسکتا البتہ اصل مجرمین بھی اب نہیں بچ سکیںگے۔دیویندر سنگھ کے ساتھ ساتھ امکان ہے کہ اُن تمام افراد کے خلاف تحقیقات کا نئے سرے سے آغاز ہوگا جس کا ذکر افضل گرو نے اپنے وکیل کے نام لکھے گئے خط میں کیا ہے‘ ان میں اس وقت کے اسپیشل پولیس اے سی پی راج بیر سنگھ، اس وقت کے ڈی ایس پی ونئے گپتا، ایس ایس پی اشفاق حسین قابل ذکر ہیں۔ دیویندر سنگھ کی گرفتاری اور انکشافات سے کڑوا سچ سامنے آتا ہے کہ کس طرح سے خود قانون کے محافظین اپنے ملک کے ساتھ غداری کرتے ہیں۔ اور اپنے مفاد کی خاطر کس طرح عام آدمی کو قربانی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں‘ کئی فلمیں بنائی جاچکی ہیں‘ گلزار نے فلم ’’ماچس‘‘ پنجاب دہشت گردی سے متعلق بنائی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح پولیس عام نوجوانوں کو ٹارچر کرکے دہشت گرد بناتی ہے۔ اور انہیں موت کے گھاٹ اُتارتی ہے۔ دیویندر سنگھ کی گرفتاری کے بعد کشمیر پولیس سے متعلق جو الزامات منظر عام پر آتے رہے‘ اس پر سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک کشمیری ہی کیا مختلف ریاستوں میں بھی بے قصور نوجوانوں کو سنگین الزامات کے تحت جیلوں میں ٹارچر کیا جاتا ہے‘ اس سے پہلے کہ وہ بے قصور ثابت ہوجائیں ان کا انکائونٹر کردیا جاتا ہے۔ (یو این این)