زرعی زمین کا تیزی سے سکڑنا کشمیر کے مستقبل کے لئے خطرناک، ماہرین کا انتباہ

0
0

دس سال بعد ہمیں یہاں کہیں بھی زرعی زمین نظر نہیں آئے گی: ناظم زراعت کشمیر
ظہور حسین بٹ

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں زرعی زمین تیزی سے سکڑ رہی ہے جس کے ماہرین کے مطابق انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ زرعی زمین کے سکڑنے کی بنیادی وجوہات میں اس پر رہائشی و کمرشل ڈھانچوں کی تعمیر اور اس کو میوہ باغات میں تبدیل کرنا شامل ہیں۔ محکمہ زراعت کے اعداد وشمار کے مطابق وادی میں گزشتہ چار برسوں کے دوران قریب 79 ہزار ہیکٹر زرعی زمین کو دیگر مقاصد بالخصوص رہائشی و کمرشل دھانچوں کی تعمیر اور میوہ باغات میں بدلنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی، جہاں لوگوں کی بنیادی خوراک چاول ہے، میں زرعی زمین کا تیزی سے سکڑنا اس ہمالیائی خطہ کے مستقبل کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ پابندی کے باوجود زرعی زمین پر رہائشی و کمرشل ڈھانچے تعمیر کرنے کی اجازت دینا بدقسمتی ہے جبکہ زیادہ کمائی کی لالچ میں زرعی زمین کو میوہ باغات میں بدلنا بھی افسوسناک ہے۔ ناظم زراعت کشمیر الطاف اعجاز اندرابی نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ زرعی زمین کا تیزی سے سکڑنے کا رجحان اس خطے کے لئے تباہ کن ہے اور اگر یہ رجحان یوں ہی برقرار رہا تو دس سال بعد ہمیں یہاں کہیں بھی زرعی زمین نظر نہیں آئے گی۔ان کا کہنا تھا: ‘موجودہ رجحان سے لگتا ہے کہ دس سال بعد ہمیں یہاں کہیں بھی زرعی زمین نظر نہیں آئے گی۔ پوری وادی جنگل میں تبدیل ہوگی جس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ یہاں موسمیاتی تبدیلی رونما ہوگی جس سے سیب کی بھی موت ہوسکتی ہے۔ یہاں کے لوگ اس وقت پچھتائیں گے جب بہت دیر ہوچکی ہوگی’۔اندرابی نے بتایا کہ ان کے محکمے نے لوگوں کو زرعی زمین کو دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے گریز کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر مہم چلا رکھی ہے لیکن لوگ ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا: ‘ہم نے بڑے پیمانے کی مہم چلا رکھی ہے۔ ہم لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ زرعی زمین کو دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے آپ مستقبل کی نسل کو ختم کررہے ہیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ نے اللہ کو جواب دینا ہے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘میں خود کسانوں کے درمیان جاتا ہوں اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ وہ زرعی زمین کو دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے گریز کریں۔ ہمارا محکمہ جانکاری کیمپ لگاتا ہے جن کا مقصد کسانوں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ زرعی زمین ہر حال میں بچائیں۔ بدقسمتی سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا، وہ ہم پر ہنستے بھی ہیں لیکن انہیں اس رجحان سے پیدا ہونے والے خطرات کا اندازہ ہی نہیں ہے’۔ایک ماہر زراعت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سن 1960 تک وادی کشمیر چاول کی پیداوار کے معاملے میں خود کفیل تھی لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں چاول کا قریب 75 فیصد حصہ پڑوسی ریاستوں سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا تھا: ‘ہم چاول کھانے والے لوگ ہیں۔ ہماری پیٹ کی بھوک صرف چاول کھانے سے ہی مٹتی ہے۔ سن 1960 تک ہم چاول کی پیداوار کے معاملے میں خود کفیل تھے۔ ہمیں چاول درآمد نہیں کرنا پڑتی تھی۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں چاول کا قریب 75 فیصد حصہ پڑوسی ریاستوں سے درآمد کرنا پڑتا ہے’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘پنجاب جیسی ریاستوں میں زرعی زمین کو دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اس کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوتی۔ وہاں لوگوں کو زرعی زمین پر تعمیراتی ڈھانچے تعمیر کی اجازت ہے نہ وہ اس کو باغبانی کے لئے استعمال میں لاسکتے ہیں’۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا