جموں و کشمیر میں سیاسی جماعتوں کی بے رخی ،حسد اور بغض کی وجہ سے پہاڑی قبائل کا رجحان بھاجپاکی طرف
تجزیہ:بشارت راتھر
جموں ؍؍ جموں و کشمیر کے پہاڑی قبالی روایتی سیاسی اور پہاڑی عوام کے تئیں بے رخی کا مظاہرہ کرنے والی سیاست سے اُکتا کر بھارتیہ جنتا پارٹی کا دامن تھام رہے ہیں وہی مشہور کہاوت ہے ( مرتا کیا نہیں کرتا ) ان سیاسی جماعتوں نے پچھلے 70 سالوں سے زائد اس طبقہ کو یر غمال بنائے رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور انکوچنائو سے چنائو تک صرف اور صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا اور اقتدار ملتے ہی اس غربت اور افلاس کی ماری ہوئی بے بس اور بے کس عوام دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر باہر کیا۔ یہی بات آج 70 سالوں کے بعد انکی کی سمجھ میں آئی اور وہ بھاجپاکا رخ اختیار کر رہے ہیں ۔ان سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ایک جگہ رہنے والے دو ہمسایوں کو مراعت کی تقسیم پر پچھلے تیس سالوں سے ایک دوسرے کے مدمقابل لا کر کھڑا کردیا وہیں ریاست کے سابقہ وزرائے اعلیٰ کی ہٹ دھرمی اور انکے یکجا ہونے کے آڑے آئی جنہوں نے اس با غیرت قوم کی رہی سہی عزت نفس و خاک میں ملا کر رکھ دیا ۔ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کا پیشہ بھیڑ بکریاں اور مال مویشی پالنا ہے اور انکی چراگاہیں فوج اور دیگر طبقہ کے حصارے میں مقید ہو کر رہ گئیں جنکے نزدیک کسی کو بھی مال مویشی اور رہنے کی کو اجازت نہیں ۔وہیں پہاڑی عوام میں کسی مخلص لیڈر کا فقدان ہے جو اس طبقہ کی ایمانداری ،دیانتداری سے مشترکہ طور پر انکے حقوق کی پاسداری کریں ۔وہیں 29 مئی 2016 کو شاہدرہ شریف کے ڈاک بنگلو میں تمام علاقی پہاڑی لیڈران نے مظفر حسین بیگ کو پہاڑی قوم کا لیڈر منتخب کیا اور کچھ عرصہ تک یہ تحریک زوروں پر رہی وہیں تین سال تک حکومت کی اتھل پتھل میں یہ تحریک سردمہری کی شکار ہوگئی۔وہیں خطہ پیر پنجال کے معروف سیاستدان محمد اقبال ملک نے8 جولائی2019 کو بھاجپامیں شمولیت اختیار کرنے کے ساتھ ہی پہاڑی قوم کی دم توڑتی ہوئی تحریک میں جان میں جان آنے لگی وہیں 2019 میں لوک سبھا چنائو کے دوران مارچ 2019 کو ضلع سانبہ کے وجے پور میں خطہ پیرپنجال کے تمام پہاڑی لیڈران نے وزیرا عظم نریند مودی سے بھی ملاقات کی اور یہ ملاقات پہاڑی قوم کے باعث فخر رہی اور 15 اگست 2019 کو وزیر اعظم نے یوم آزادی کی تقریب کے وران لعل قلعہ سے اپنی تقریر میں پہاڑی قوم کا نام لیا وہیں 25 دسمبر 2019 کو پہاڑی لیڈران کا وفد وزیرا داخلہ سے بھی ملاقی ہوا ۔اس بھر پور جدوجہد نے آخر کار پہاڑی قوم کو چار فیصد ریزرویشن دے کر قوم کی کھوئی ہوئی شناخت کو مقام حاصل ہوئے وہیں پہاڑی قوم کے چند لوگوں سے بات کرنے پر یہ محسوس ہوا کہ سابقہ مرکزی سرکار کے ساتھ ساتھ ریاستی سرکاروں نے پہاڑی قوم کو چنائو ختم ہوتے ہی پہاڑی قوم کی گنتی تیسرے نمبر کے شہریوں میں شروع ہو جاتی ہے ۔ان باتوں کا اظہار پہاڑی عوام نے اپنے سیاسی لیڈران سے کیا اور کہا کہ سابقہ تمام سیاسی جماعتوں نے پہاڑی قوم کا استحصال کیا اور کہا کہ واحد ایک ہی ایسی سیاسی جماعت ہے جو مرکز کے ساتھ ریاست میں بھی قائم مقام ہے وہی پہاڑی قوم نے اپنی دلی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آگر پہاڑی قوم قومی معاملات کی نسبت بی جے پی کی طرف رخ کریں گے بھی تو اس میں کونسی قباحت ہے اور امید ہے کہ وہ پہاڑی قبائل کے لیے باقی جماعتوں کے مقابلے بہتر ہوگی