منظم پلاننگ کے تحت  دہلی کے مسلمانوں پر وحشیانہ دہشت گردی۔

0
0
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
نسلی تعصب،فرقہ پرستی اور مذہبی جنونیت جب عوام سے اوپر اٹھ کر ملک کے اعلی عہدیداروں کے ذہنوں میں سما جائے تو پھر  عدل ومساوات ،رواداری وانسانیت اور دستور وقانون  کاغذی اوراق یا بے مقصد لفظوں کے دائرے میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔ زمینی اعتبار سے اور حقیقت کے لحاظ سے ان کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔۔۔۔
اس حقیقت کی جگر خراش مثال اور شرمناک ثبوت ملک کی راجدھانی دہلی میں مسلمانوں کے خون سے رونما ہونے والی لہو رنگ تصویریں ہیں، وہی دہلی جہاں لوک تنتر اور جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والے کیجریوال ،ملک کے وزیر اعظم،وزیر اعلی اور بے شمار وزراء ملک کی رہائش گاہیں موجود ہیں، اور سب سے بڑھ کر پوری دنیا کو انصاف ومساوات پر پابند کرنے والا صدر امریکہ موجود ہے’،
لیکن اسی دارالحکومت میں ان تمام سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں دہلی کو آگ کے حوالے کر دیا گیا، مظاہرین پر پتھروں لاٹھیوں سے حملے کئے گئے اور پوری پلاننگ کے ساتھ بے دریغ گولیوں سے پچاسوں افراد کو بھون دیا گیا، پورے علاقے کو محاصرے میں لے کر گھروں میں دہشت گردوں نے گھس کر تشدد کی وارداتیں انجام دیں، کم ازکم تیس پینتیس بے قصور افراد موت کی آغوش میں چلے گئے، سینکڑوں زخمی حالت میں ہیں اورانہیں ہاسپٹل تک بھی پہونچنے کے لئے راستوں کو بھی بند کردیا گیا، بے شمار دکانوں کو تجارتی املاک کو جی بھر کر لوٹا گیا، مسجد جلا دی گئی اس کے مؤذن کو بے دردی سے شہید کردیا گیا،
لیکن اسی نفرت اسی تعصب اور اسی نسلی فرقہ پرستی کا نتیجہ تھا کہ فورس یہ سب کچھ دیکھتی رہی، گولیاں اسی کے سامنے چلائی جاتی رہیں، مسلسل فائرنگ اس کی جانکاری میں ہوتی رہی، مگر وہی پولیس جس نے شرجیل کے لئے دہلی سے بہار اور کفیل کے لئے گورکھپور سے ممبئی کو ایک کردیا یہاں حرکت میں نہ آسکی،
ذہن کیونکر اس بات کو قبول کرے کہ خاکی وردی کے یہ نام نہاد محافظ اس کھلی دہشت گردی میں شریک نہیں تھے کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ شرپسندوں کے حملے میں ان کا تعاون نہیں تھا، بے شمار افراد پولیس کی وردی میں قتل وغارت کا کھیل کھیل رہے تھے اگر وہ  پولیس کے افراد نہیں تھے تو یہ فرضی وردیوں میں شیطانیت کا رقص کرنے والے کون تھے انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا پولیس فورس نے ان کی شرپسندی دہشت گردی،اور فائرنگ پر کارروائی کیوں نہیں کی ،
دو روز سے مسلسل 36گھنٹے تک بے قصور لوگوں پر ظلم وبربریت کا ننگا ناچ کھیلا جاتا رہا مگر پولیس محکمے کے اعلیٰ عہدے داروں کی پیشانیوں پر شکن تک نہ آسکی،
یہ امر واقعہ ہے’کہ پولیس فورس منظم طور پر وحشیانہ حیوانیت اور نسل کشی میں شریک تھی، لاء اینڈ آرڈر کو قائم کرنے والے اس وردی پوش فرقہ پرستوں نے چند نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر ادھ مرا کردیا موت وحیات کی کشمکشِ میں جب وہ مظلوم موت کے قریب تھے ان سے راشٹر گان گانے کے لئے جبرا کہا گیا،ماں بہن کی گالیوں کے ساتھ ان کی آزادی پر طنز کئے گئے، متاثرہ علاقوں میں رہنے والے مظلوموں کی رپورٹ کے مطابق راستوں میں نام پوچھ پوچھ کو پولیس نے مسلمانوں کو مارا ہے’، اس کی یکطرفہ کارروائی اور اس کی مسلمان دشمنی، فرقہ پرستی کھل کر دنیا کے سامنے آچکی ہے،
یہ اگر چاہتے تو اجتماعی طور پر اس طرح کی انسانیت سوز قتل وغارت گری کا بازار گرم نہیں ہوتا،جعفرآباد میں سیاہ قانون کے خلاف مظاہرین کا اجتماع نہ ہی قانون کے خلاف تھا اور نہ ہی جمہوریت سے متصادم ،یہ قوم کا آئینی حق تھا عوام مخالف قانون کے ورودھ میں اپنی آواز بلند کرنا ،مطالبات کرنا، قانون کے عین مطابق ہے، ان مظاہروں کی مخالفت میں اسی روڈ پر بالکل سامنے محض مسلم دشمنی میں سرکار کی حمایت میں پروٹیسٹ  سراسر اصول وقانون اور عقل سے متصادم تھا ، جمہوریت میں صدائے احتجاج کی وجہ تو قوم وملک مخالف اقدامات ہیں لیکن جب وہ اقدامات ایکٹ کی شکل اختیار کر چکے ہیں تب اس کی حمایت میں مظاہرے کا کیا مطلب ہے ، پولیس فورس  مسلمانوں سے اندھی دشمنی کی وجہ سے اتنی موٹی بات سمجھنے کو تیار نہیں تھی، آخر اس کے ظالمانہ اور فرقہ وارانہ کرداروں کی وجہ سے سپریم کورٹ کے ایک جسٹس کو مجبور ہو کر اس کی وضاحت کرنی پڑی، لیکن جب عداوت اور عصبیت وجود میں سرایت کر جاتی ہے’تو کہاں کی عقل،کہاں کی انسانیت ، کہاں کا فرض اور کہاں کا قانون۔
وگرنہ پہلے ہی مرحلے میں اگر پولیس فسادیوں کو مظاہرین کے سامنے بیٹھنے کی راہیں ہموار نہ کرتی تو یہ قتل وخون کا وحشتناک منظر رونما نہ ہوتا،
دوسری طرف ملک کے اعلی عہدیدار کے علاوہ دہلی ریاست کے سی ایم کیجریوال پربھی سوال اٹھتا ہے’کہ  بیس گھنٹوں تک مسلسل  آگ زنی اور فائرنگ کے ذریعے بے دردی سے لاشیں گرائی جارہی تھی اس کو روکنے کے لئے کیا ذریعہ استعمال کیا،یہ سچ ہے کہ ان کے اختیارات محدود ہیں، پولیس محکمہ ان کی دسترس سے باہر ہے’لیکن کیا وہ بیانات نہیں دے سکتے تھے،مذمت اور مطالبہ نہیں کرسکتے تھے، اتنی جلدی وہ کیونکر بھول گئے کہ مسلمانوں نے امن وسلامتی اور ملک کے تحفظ اور اپنی حفاظت ہی کے لیے پوری طاقت سے انہیں ووٹ کرکے کرسی تک پہونچا یا تھا، کیا ان کے تحفظ کی ذمہ داری ان کی نہیں تھی،
لوک تنتر،جمہوریت سیکولرازم اور فرقہ پرستی،مذہبی انتہا پسندی کے چہرے کے طور پر مشہور سی ایم کی خاموشی بھی اس سنگین حالات میں ان کے سیکولر ازم پر سوالیہ نشان کھڑا کررہی ہے’،
وزیر اعظم وزیر داخلہ اور میڈیا کے کرداروں ان کے اذہان،اور ان کے فرائض سے متعلق یہاں گفتگو اس لیے بے معنی ہے’کہ فرقہ پرستی اور انتہا پسندی ان کی شناخت ہے’،مسلم دشمنی سے ان کا پورا وجود داغدار ہے’، یہ ساری وارداتیں اور ساری خونریزیاں انہیں کے اقدامات کا نتیجہ ہیں یہ بات مسلم ہے’کہ اگر فرقہ وارانہ قانون یہ حکومت پاس نہ کرتی اور مذہبی بنیادوں پر قوموں میں تفریق نہ کرتی تو ملک اس طرح کے سنگین حالات سے دوچار بھی نہ ہوتا۔
لیکن قیامت یہ ہے کہ پورے فساد اور قتل ودہشت گردی کے دوران امریکہ کا وہ صدر بھی یہاں موجود تھا جو بزعم خود پوری دنیا میں امن کا اور جمہوریت کا ٹھیکیدار ہے’ ، پوری دنیا میں جہاں کہیں حکومتوں کے داخلی معاملات ہوتے ہیں، ان میں انٹرنیشنل حاکم بن کر مداخلت اپنا حق سمجھتا ہے’،اور طاقت کے زور پر اور نام نہاد جمہوریت کے نام پر اس کی خود مختاری کو سلب بھی کرلیتا ھے، لیکن یہاں اس کے سامنے مذہبی بنیادوں پر فرقہ وارانہ قانون سامنے تھا، اس کے نتیجے میں فادات اور دہشت گردیوں کے انسانیت سوز مناظر تھے، لیکن باوجود اس کے اس کی نگاہیں اس کھلی دہشت گردی اور ایک کمیونٹی کے خلاف منظم انداز میں پولیس کی غنڈہ گردی اس کے مظالم کو  نہ دیکھ سکی، ہاں اب بھی اسے نظر آیا تو دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں کا چہرہ، چنانچہ اس فرقہ پرست اور نسل پرست نے اپنے بیان،،کہ سی اے اے کا معاملہ بھارت کا داخلی ہے اس لیے اس پر کچھ کہا نہیں جاسکتا، اور مسلم دہشت گردی کو دنیا سے ختم کرنے کا ہمارا منصوبہ اور عزم ہے’،،کے ذریعے بدترین نسل پرستی اور انتہا پسندی کا ثبوت پیش کیا ہے’،
ملک اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے’، یہاں کی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی زندگی خطرات میں گھر چکی ہے’، جمہوریت شرمسار اور انسانیت رسوا ہے’، لیکن مسلم قیادتیں اب بھی مہر بہ لب ہیں، اب بھی اگر مضبوط لائحہ عمل اور اپنے تحفظ اور ملک کی سالمیت کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی عمل میں نہیں لائی گئی تو آنے والا لمحہ اس دیش میں مسلم اقلیتوں کے لیے کس قدر خوفناک طوفان لائے گا، ستم رانیوں کے کیسے لرزہ خیز بادل چھاجائیں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
مسجد انوار گوونڈی ممبئی
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا