جامعہ پولس ایکشن، میڈیا ٹرائل اور ریڈیو روانڈا

0
0

کیا نفرتوں کی شاخوں پر محبتوں کے پھول کھلیں گے؟
محمد علم اللہ، نئی دہلی
کئی مرتبہ کسی سنجیدہ موضوع پر آپ لکھنا چاہتے ہیں لیکن الفاظ ساتھ نہیں دیتے اوریوں آپ اس موضوع پربھی اظہارِخیال سے قاصر رہ جاتے ہیں اورمستقبل میں کبھی ایسے معاملوں پررائے زنی کی خواہش کے ساتھ قلم روک لیتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر 2019 کی شام کو رونماہونے والے ناخوشگوار سانحہ کے بعد کچھ ایسی ہی کیفیت رہی جس میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہے طلبہ پرپولس کی بر بریت دیکھی گئی۔ لائبریری میں پولس کے داخلے اورلاٹھی چارج کے کوئی دوماہ بعدجب 16 فروری2020 کو جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے ویڈیوجاری کی گئی تو’گودی میڈیا‘نے اس مسئلے پراپنا’ٹرائل‘ شروع کر دیااور ایک ایسے سچ کو جو بالکل واضح ہے، چھپانے کی کوشش شروع ہو گئی۔ اس دن پولس کی بر بریت کا میں بھی شکار ہوا اور سب واردات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اس کربناک حادثہ کے بعد طلبہ کی جانب سے کچھ چیزیں سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئیں مگر میڈیا میں انھیں مطلوب مقام نہیں مل سکا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ دلدوز ہے جس میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے تحقیق کے دوران کمروں اور ہاسٹلوں کی راہداریوں میں کٹی ہوئی انگلیاں اور بستروں پر گولہ باردو جو اس دن پولس کے ذریعے استعمال کیا گیا تھا پائے جانے کا انکشاف کیا۔ یوپی میں انٹرنیٹ بند کر دیے جانے اور میڈیا کے غیر حقیقت پسندانہ نظریے کے سبب بہت سی چیزیں سامنے نہیں آ سکیں جبکہ حقائق کو مسخ کرنے کیلئے پولس نے سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑا اور کئی جگہوں سے کیمروں کے چپ نکال کر لے گئی۔
جامعہ میں پولس کی بربریت کا گواہ بننے والے فوٹیج جب سامنے آگئے توویڈیو کو دیکھنے کے بعد ’گودی میڈیا ‘کی جانب سے جس قسم کا پروپیگنڈہ شروع کیا گیا، ہاتھ میں نظرآنے والے ’پرس‘ کوجس طرح ’پتھر‘ قرار دیا گیا اور رومال سے چہرہ ڈھانکنے والے طالب علم کوجس اندازمیں ’مشکوک فسادی‘ کہا گیا،وہ بجائے خود میڈیاکے اُس طبقہ کی مریض ذہنیت کو اجاگر کرنے کیلئے کافی ہے،جوپروپیگنڈوں کے ذریعہ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔حالانکہ جامعہ کے تعلق سے جاری ہونے والے ویڈیوزکا تجزیہ کئی چھوٹے مگر قابل اعتماد میڈیا اداروں نے کیا ہے اور اس کی تفصیلات بھی منظر عام پر آگئی ہیں۔بطورخاص ’آلٹ نیوز‘،دی کوئنٹ‘ اور ’دی وائر‘(ہندی) وغیرہ نے تحقیق کے ساتھ جو موادجاری کیا ہے، وہ قابل توجہ ہے۔بعض ویب سائٹس نے تو تصویر کو زوم کرکے دکھا دیا کہ وہ’پرس‘ تھا۔اسی طرح چہرہ ڈھانکنے کی بھی اصلیت سامنے آ گئی ہے کہ اس دن پولس نے کیمپس کے اندر اس قدر آنسو گیس کے گولے داغے تھے کہ سانس لینا بھی دشوار تھا، ایسے میں اگر کچھ طالب علم ناک یا چہرہ ڈھکے ہوئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہے وہ فسادی تھے، وہ بھی تب جبکہ جامعہ میں داخل ہونے والے پولس کے بعض کارندوں کے بھی’منہ چھپانے‘ اور رومال سے چہرہ ڈھاکنے کی تصویر دیکھنے میں آرہی ہو۔ بالفرض اگرمنہ کو رومال سے ڈھاکنے والے طلبہ’فسادی‘ تھے تو پولس کو انھیں پکڑنا چاہئے تھا نہ کہ بلا امتیاز معصوم طلبہ پر لاٹھیاں برسانی تھیں۔اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تو شاید اس طرح کا ظلم و تشدد اور حکومتی سر پرستی میں ہونے والی’غنڈہ گردی‘ کے بارے میں دنیا کو پتہ بھی نہ چلتا۔
اس پورے واقعے میں اگر میں صرف جامعہ کی ہی بات کروں تو پولس کی دہشت زدہ کردینے والی کارروائی میں سیکڑوں طلبہ زخمی ہوئے، ایک طالب علم کی آنکھ ضائع ہو گئی اور کتنوں کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ 17 فروری 2020 کو ’ہندوستان ٹائمز‘ کے اداریہ کے مطابق اس ظالمانہ کاروائی میں 100 سے زائد طلبہ زخمی ہوئے لیکن اس کے باوجود اب تک اس پورے واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے۔ پولس کی بربریت کے شواہدجب سی سی ٹی وی فوٹیج کی شکل میں سامنے آ ئے تو پولس جو پہلے یہ کہہ رہی تھی کہ وہ لائبریری میں داخل ہی نہیں ہوئی، اسے الگ رنگ دیتی نظر آئی۔ جامعہ کے طلبہ پر پولس کے مظالم کی جو تصویراب تک سامنے آئی ہے،اس کی بنیادپر یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ جب پولس کا کردار سوالوں کی زد پر ہوتو ایسے میں طلبہ کو انصاف تبھی مل سکے گاجب واقعہ کی اعلیٰ سطحی انکوائری ہوگی،خواہ یہ تفتیش ایس آئی ٹی سے کرائی جائے یا معاملہ کی جوڈیشیل انکوائری ہو،بصورت دیگریہ ممکن ہی نہیں کہ مظلومین کو انصاف مل سکے کیونکہ پولس اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے پر آمادہ ہے اور میڈیا کے کچھ گھرانے اس کی ہر ممکن مدد میں مصروف ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ ا یسے سنگین حالات میں جب حقیقت آشکار ہوتی ہے اور شواہد سامنے آتے ہیں تو سرکار، پولس اور میڈیا سبھی ایک رنگ میں کیسے رنگ جاتے ہیں اور حقائق کو ہر ممکن جھٹلانے کی کوشش کس کس اندازمیں کی جاتی ہے۔ کچھ نیوز چینلوں نے جن میں ’نیوزنیشن، ’آج تک‘اور’ری پبلک‘ٹی وی شامل ہے، صحافتی اخلاقیات کی ساری حدوں کو پار کر دیا، جس میں انھوں نے خود ہی جج کا رول ادا کرتے ہوئے طلبہ کو ظالم دکھانے کی کوشش کی، مجھ جیسے صحافت کے ایک طالب علم کیلئے میڈیا کا یہ رویہ کافی تشویش ناک ہے۔ کئی مرتبہ عدلیہ ازخود ایسے غیرمعمولی معاملوں میں نوٹس لیتی ہے، مگرجامعہ ملیہ میں پولس ایکشن اورعام طلبہ پر پولس کی پر تشددکارروائی کو دو ماہ گذر جا نے کے باوجود سرکارکانظریہ اور عدالت کا موقف کیا ہے،یہ ہر کسی کو پتہ ہے۔ مظلوم طلبہ کی جانب سے عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹایاگیا، مگر عدلیہ کی جانب ایسا کوئی قدم نہیںاٹھایاگیاجس سے جامعہ کے دہشت زدہ نفوس یہ محسوس کرسکیں کہ اُن پر ڈھائے گئے مظالم کی روداد سننے والا کوئی تو ہے،کوئی تو ہے جو نوٹس لے رہاہے، لیکن اس کے برخلاف’تاریخ پہ تاریخ‘والی کیفیت دیکھنے کومل رہی ہے۔
گودی میڈیا گذشتہ دو تین ماہ سے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر معاملے پر جو رویہ اپنائے ہوئے ہے، اسے کسی بھی طرح سے صحافتی اقدار اور اصول و ضوابط پر مبنی قرارنہیں دیا جا سکتا۔ اگر میڈیا کا یہی رویہ رہا تو اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تب میڈیا سے سماج کا اعتبار باقی رہے گا یا نہیں یہ تو ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن ایسے میڈیا گھرانوں سے خود ملک اور اس کے باشندوں کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس کی مثالیں موجود ہیں جس میں میڈیا کے ایسے رویوں کی وجہ سے پوری قوم کو اس کابھیانک خمیازہ بھگتنا پڑااور پوری کی پوری کمیونٹی تباہی کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے۔
اس سلسلے میں روانڈامیں ہونے والی نسل کشی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جس میں 6 اپریل 1994 کو بے نظیر افریقیوں کو ختم کرنے میں میڈیا کی کارستانی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں ایلن تھومپسن کی ایڈٹ کردہ کتاب’دی میڈیا اینڈ دی ریوانڈا جینو سائڈ‘ ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ اس کتاب کے مطابق میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجہ سے صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔روانڈا میں دو قبائل آباد تھے، ایک ’ہوتو‘ جو اکثریت میں تھے اور دوسری’ ٹوٹسی‘ جو اقلیت میں تھے۔ روانڈا کے صدر کے طیارے کو اینٹی ائرکرافٹ میزائل سے اڑا دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ کس نے کیا۔صدر کا تعلق اکثریتی قبیلے سے تھا اور فوجی کمان کا بھی۔ اس قتل کا الزام ٹوٹسی قبیلے پر لگا۔ ان کے درمیان پہلے ہی کشیدگی تھی۔ ان کو میڈیا میں ’کاکروچ‘کہا جاتا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہندوستان میں مسلمانوں کو کچھ لوگ ’کپڑوں‘سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ’پوہا‘ سے۔ تو کچھ لوگ ’غدار‘ کہہ کر گولی مارنے کی دھمکی دیتے تو کچھ ’بابر کی اولادوں کو گولی مارو سالو کو‘جیسے الفاظ دھڑلے سے بولتے ہیں،یہ ساری چیزیں ٹیلی ویژن اور میڈیا پر بھی بلا کسی خوف اور شرم کے دہرائی جاتی ہیں ۔تعصب کیا کچھ کر سکتا ہے؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ہماری میڈیا کی طرح ریڈیو روانڈا کے ذریعے اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف مسلسل زہر افشانی کی گئی اور’ٹوٹسیوں‘کو’کاکرو چ‘ کہہ کرمار ڈالنے کے پیغامات نشر ہوئے۔ روانڈا کی فوج نے ’ہوتو‘میں ڈنڈے تقسیم کئے کہ جہاں مخالف قبیلے کے افراد نظر آئیں، ان کو قتل کر دیا جائے۔جو رحم دکھائے گا، وہ غدار کہلائے گا۔ لوگوں نے اپنے ہمسایوں اور یہاں تک کہ مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والی اپنی بیویوں کو بھی ڈنڈوں اور چاقووٗں سے قتل کیا۔ صلح جو’ہوتو‘ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے، جیسے آج ہمارے ملک میں سیکولر ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ دھڑلے سے ترشول،لاٹھی،ڈنڈا اور بلم تقسیم کر رہے ہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، میڈیا بھی نہیں جن کا کام ہی حقیقت آشکار کرنا اور سوال پوچھنا ہے۔
روانڈا میں اُس وسیع قتلِ عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ کار فرما تھا، جس نے ایک خاص کمیونٹی کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ لوگ متنفر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ انتہائی منظم طریقے سے حکومت کے مخالفین کی فہرست تیار کرکے انتہا پسندوں کو فراہم کیا گیا، جیسے 2002ء میں گجرات فساد ات کے دوران کیا گیا تھا۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو ہلاک کیا بلکہ ایسا بھی ہوا کہ شوہروں نے اپنی بیویوں کو مار دیا کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انتہا پسند انھیں ہلاک کر دیتے۔ اس وقت لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔ انتہا پسندوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کر لی اور’ٹوٹسی‘ افراد کو روک کر خنجروں سے ذبح کیا گیا، ہزاروں’ٹوٹسی‘ لڑکیوں کو جنسی غلام بنا یا گیا۔یہ شیطانی میڈیا آوٹ لیٹس سامعین اور قارئین کے جذبات بھڑکاتے ہوئے ان پر زور دیتے کہ ان ’کیڑے مکوڑوں‘ کو مٹا کر رکھ دو، گویا ٹوٹسی آبادی کو ختم کر دو، حتی کہ ان گرجا گھروں اور پادریوں اور راہباؤں کو بھی تباہ اور ہلاک کر دیا گیا جن میں کسی نے جان بچانے کیلئے پناہ لینے کی کوشش کی۔
اس تناظر میں اپنے ملک کے میڈیا کا جائزہ لیجئے،پورے ملک میں گذشتہ چند سالوں میں ہونے والے ہجومی تشددکی تفصیلات دیکھئے۔ جامعہ اور شاہین باغ میں گولی چلائے جانے کے واقعہ کو یاد کیجئے۔ بنگلور، بھوپال، یوپی،بنگال اور چنئی میں سی سے اے اور این آر سی کے تعلق سے ہورہے پر امن احتجاجات، اس پر میڈیا اور پولس کے رویے کو دیکھئے تو آپ کو روانڈا کے واقعہ سے مشابہت نظر آئے گی۔ سی اے اے کی آمد، اس پر احتجاج اور اس احتجاج کے بعد جامعہ، جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہنگامہ اور اس پورے معاملے پر میڈیا کا جو رویہ رہا، اس پر غور کیجئے۔ ہندوستان میں میڈیا کا معیار شاید اتنا کبھی نہیں گرا ہوگا، اس وقت بھی نہیں جب اندرا گاندھی کے زمانے میں ایمر جنسی نافذ کی گئی تھی، لیکن آج کل تو ایسا لگتا ہے جیسے میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو فراموش ہی کر بیٹھی ہے۔اس کی وجہ سے پورے ملک کی فضا مسموم ہو رہی ہے، بھولے بھالے اور سیدھے سادے لوگ میڈیا کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ایک خاص کمیونٹی کو مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں، گاؤں گاؤں میں جہاں سے کبھی بھی فسادات اور فرقہ پرستی کی خبر نہیں آتی تھی، فضا اس زہر آلود ہو گئی ہے کہ کئی جگہوں سے اقلیتوں کو بھگانے اور ان پر ظلم و تشدد کی ایک روایت چل پڑی ہے،لیکن کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہے، کہیں اکا دکا کچھ میڈیا گھرانوں کے ذریعے اس کی خبریں دکھائی دیتی ہیں، لیکن زیادہ تر اس طرح کی خبروں سے یا تو پردہ پوشی کرتے ہیں یا غلط رپورٹنگ کرکے دانستہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میڈیا کے اس عمل کی وجہ سے افراد اور گروہوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات وبائی امراض کی طرح پھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم ملک میں نت نئے واردات ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری طور پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ ’گو ہتیا‘ کے نام پر لوگوں کی’لنچنگ‘ کی جا رہی ہے۔ نہتے احتجاجیوں پر غنڈے حملہ کر رہے ہیں، پولس جب جس کو چاہتی ہے، اٹھاکر لے جاتی ہے، گولی مار دیتی ہے مگر بجائے اس کے کہ میڈیا اس کی گرفت کرتی،سوالات کھڑے کرتی،ایسا لگتا ہے وہ ظالموں کی حمایت کر رہی ہے، انھیں بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں یہ رجحان اس قدر غالب ہوگیا ہے کہ اب لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں اور اداروں کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے بلکہ بہت سی جانیں بھی داؤ پر لگ رہی ہیں۔جو صورتحال اس وقت ہے،اگر اسے بدلنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو تباہی و بربادی کو گلے لگانے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا، کیوں کہ نفرتوںکی شاخوں پر محبتوں کے پھول کبھی نہیں کھل سکیں گے؟۔(یو این این)

 

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا