کشمیری پنڈتوں کے تہوار ‘ہیرتھ’ کی روایتی تقریبات: ‘وٹک پوجا’ کے بعد ‘ہیرژ خرچ’ کی تقسیم

0
0

یواین آئی
سرینگر؍؍کشمیری پنڈتوں کے محبوب تہوار ‘ہیرتھ’ کی چار روزہ روایتی تقریبات شروع ہوچکی ہیں۔ جہاں اس تہوار کی مناسبت سے گزشتہ شام پنڈت گھرانوں کی جانب سے اپنے گھروں میں خصوصی ‘وٹک پوجا’ کی گئی وہیں جمعہ کو تہوار کے دوسرے دن بچوں اور عورتوں میں نقدی تقسیم کی گئی جس سے سلام کہتے ہیں۔ کنبے کے سربراہوں نے بچوں اور کنبے کے جونیئر اراکین میں جیب خرچی تقسیم کی جس کو کشمیری میں ‘ہیرژ خرچ’ کہتے ہیں۔اس تہوار کو ہندوستان، پڑوسی ممالک بشمول سری لنکا، نیپال، پاکستان میں مقیم ہندو برادری ‘مہا شیوراتری’ کے نام سے مناتی ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق یہ تہوار بھگوان شیو اور دیوی پاروتی کی شادی کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔تاہم کشمیری پنڈت برادری کا اس مذہبی تہوار (مہاشیوراتری یا ہیرتھ) کو منانے کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔ کشمیری پنڈت برادری اس تہوار کی تقریبات کا آغاز خصوصی پوجا جو کشمیری پنڈتوں کے ہاں ‘وٹک پوجا’ کے نام سے جانی جاتی ہے، سے کرتی ہے جس کے لئے مخصوص قسم کے برتنوں اور خشک پھلوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس خصوصی پوجا کا اہتمام کشمیری پنڈت اپنے گھروں میں ہی کرتے ہیں۔سینئر کشمیری صحافی منوہر لالگامی نے یو این آئی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنڈت گھرانوں میں ہیرتھ کی تقریبات کا آغاز خصوصی اور مخصوص ‘وٹک پوجا’ سے ہوا ہے اور آج ‘سلام’ کا دن تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ تہوار جو دراصل 21 دنوں پر محیط ہے کے چوتھے دن یعنی اتوار کو پرشاد کی تقسیم ہوگی۔ کشمیر میں یہ تہوار گھروں میں ہی منایا جاتا ہے اور پوجا پاٹ بھی گھروں میں ہی ہوتی ہے۔ تاہم منوہر لالگامی کے مطابق اس تہوار کی روایتی رونق غائب ہے کیونکہ نوے کی دہائی سے قبل جب کشمیری پنڈت یہ تہوار دیہی علاقوں میں اپنے گھروں میں مناتے تھے تو ہمارے گھروں پر مبارکباد دینے کے لئے پڑوسی مسلمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا: ‘اس تہوار کی ماضی میں ایک الگ رونق تھی۔ دیہی علاقوں میں کاریگروں اور دیگر چھوٹے چھوٹے تاجروں کے کام میں اس تہوار کے موقع پر کئی گنا اضافہ ہوجاتا تھا۔ ہمارے گھروں پر پڑوسی مسلمانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا جو مبارکباد دینے کے لئے آتے تھے۔ اب وہ رونق غائب ہے لیکن اب جو چیز باقی ہے وہ موبائل فون پر مبارکباد دینا ہے’۔ وادی میں سنہ 1989 میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد بیشتر کشمیری پنڈت ملک کے مختلف شہروں بالخصوص جموں ہجرت کرگئے۔ تاہم جو پنڈت گھرانے یہی رہیں وہ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف ہجرت کرگئے اور ان میں سے بیشتر گھرانے آج کل حکومت کی طرف سے بنائی گئی پنڈت کالونیوں میں رہ رہے ہیں۔ آج جب مہاجر کشمیری پنڈت اس تہوار کو مناتے ہیں تو وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کشمیری مسلمان اخروٹ ساتھ لیکر اپنے پنڈت بھائیوں کو سلام کے موقع پر مبارک باد پیش کرنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ جموں میں رہائش اختیار کرچکے ایک کشمیری پنڈت نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ ‘ہیرتھ’ تہوار کی چار دنوں تک جاری رہنے والی تقریبات جمعرات کی شام خصوصی ‘وٹک پوجا’ سے شروع ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوئوں میں صرف کشمیری پنڈت وٹک پوجا کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس خصوصی پوجا کا سلسلہ غروب آفتاب سے شروع ہوکر رات دیر گئے تک جاری رہا۔ وٹک پوجا بھگوان شیو اور دیوی پاروتی کی شادی تقریب کی علامت ہے۔مذکورہ مہاجر پنڈت نے بتایا کہ مجموعی طور پر سارے ہندو مہاشیوراتری یا ہیرتھ کا تہوار مناتے ہیں مگر اْن کا اور ہمارا اس تہوار کو منانے کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔ کشمیری پنڈتوں کو چھوڑ کر دوسرے ہندو اس تہوار کے موقع پر مندروں میں جاکر پوجا کرتے ہیں جبکہ ہم اس تہوار سے متعلق خصوصی وٹک پوجا کا اہتمام اپنے گھروں میں ہی کرتے ہیں۔انہوں نے ‘وٹک پوجا’ کے طریقہ کار کے بارے میں کہا: ‘ہم دولہا دلہن (بھگوان شیو اور دیوی پاروتی) کی علامت کے طور پر دو برتن پوجا کے وقت سامنے رکھتے ہیں۔ انیس سو نوے کی دہائی کے شروع ہونے سے قبل ہم اس پوجا کے لئے مٹی کے برتن (مٹکے) استعمال میں لاتے تھے چونکہ ایسے برتنوں کو اب حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے تو آج المونیم یا سٹیل کے برتن استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ دو بڑے برتنوں کے علاوہ چار یا چھ چھوٹے چھوٹے برتن بھی پوجا کے وقت سامنے رکھے جاتے ہیں جن کو باراتیوں کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی کی رسم انجام دینے کے لئے ایک گرو اور حفاظت کے لئے دو محافظوں کی علامت کے طور پر تین مزید برتن رکھے جاتے ہیں۔ اس پوجا میں زیادہ سے زیادہ گیارہ برتنوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو مختلف لوگوں کی علامت ظاہر کرتے ہیں’۔ وادی میں اس تہوار کے حوالے سے بھیگے ہوئے اخروٹوں کا پرشاد اور مچھلیوں کا سالن بہت ہی مشہور ہے۔ایک کشمیری پنڈت نے بتایا کہ وٹک پوجا کے لئے استعمال ہونے والے برتنوں میں اخروٹ، بادام اور دوسرے خشک پھلوں کی گریاں رکھی جاتی ہیں جو تہوار کے چار دنوں کے بعد پرشاد کے طور پر رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پرشاد میں سے ایک بڑا حصہ بیاہی گئی عورتوں کے وہاں بھیجا جاتا ہے۔ جنوبی ہند میں رہائش اختیار کرچکے ایک کشمیری پنڈت نے بتایا کہ شیوراتری جسے کشمیری میں ہیرتھ کہتے ہیں، کشمیری پنڈتوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اس تہوار کے موقع پر ہمیں اپنے مادر وطن، کشمیری پڑوسیوں اور دوستوں کی بے حد کمی محسوس ہورہی ہے۔ دریں اثنا شیوراتری کے تہوار کے سلسلے میں جمعہ کے روز وادی میں قائم مندروں میں خصوصی پوجاپاٹ کا اہتمام کیا گیا جن میں تجارت کی غرض سے کشمیر آئے ہوئے ہندو مذہب کے پیروکاروں نے شرکت کی۔ سب سے بڑی تقریبات سری نگر کے ہنومان مندر، رام مندر اور شنکر آچاریہ مندر میں منعقد ہوئیں۔مہاشیوراتری کے تہوار کے سلسلے میں جموں بھر کے مندروں کو چراغاں کیا گیا ہے۔ شیو پاروتی مندر، شیو دھام اور دیگر مشہور مندروں کو پھول مالائوں اور رنگا رنگ روشنیوں سے سجایا گیا ہے۔کشمیر انتظامیہ نے مہاشیوراتری یا ‘ہیرتھ’ کے تہوار کے سلسلے میں پنڈت برادری والے علاقوں میں معقول انتظامات کئے تھے۔ محکمہ فشریز کی طرف سے ٹرا?ٹ فش کی خریداری کے لئے سیل مراکز قائم کئے گئے تھے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا