مظاہرین پر مظالم کولے کر قانون کے شکنجہ میں گھر رہی ہے یوگی حکومت

0
0

کانگریس کی شکایت پر حقوق انسانی کمیشن نے طلب کیا جواب الہ باد ہائی کورٹ میں بھی سماعت
ایس پی بی ایس پی کے رویہ سے مسلمان شاکی ،کانگریس کی سرگرمی کا اعتراف
عبید اللہ ناصر

اتر پردیش وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے بدلہ لینے اور سخت ترین کارروائی کرنے کے اشارہ کے بعد انکا ما فی الضمیر سمجھتے ہوئے اتر پردیش کی انتظامیہ انکے خلاف ویسا ہی رویہ اختیار کئے ہوے ہے جیسے سانڈ کو لال کپڑا دکھا دینے سے وہ بھڑک جاتا ہے اور چاروں طرف گھوم گھوم کے سینگ مارنے لگتا ہے -ہر کس و ناکس پر راج دروہ کا مقدمہ درج کیا جا رہا ہے انگریزوں کے زمانہ کے اس قانون کی ویسے بھی آئینی جمہوری ہندستان میں کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن مودی حکومت آنے کے بعد سے اسکا جتنا بیجا استعمال ہوا ہے اس نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئے ہیں -قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق شہریت ترمیمی قانون منظور ہونے کے بعد سے یعنی محض ?? دسمبر سے ?? فروری کے درمیان اس قانون کے تحت ??? مقدمہ درج کئے گئے اور یہ سب کے سب بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں درج ہوئے جن میں اتر پردیش سر فہرست ہے -یہاں کا تو بابا آدم ہی نرالا دکھائی دیتا ہے شاعر عمران پرتاپ گڑھی کو ایک کروڑ روپیہ ہرجانہ ادا کرنے کا نوٹس دیا گیا ہے کیونکہ انکی مرادآباد کی تقریر سے امن عامہ کا خطرہ پیدا ہوا تھا جس کے لئے پولیس بندوبست کرنا پڑا تھا جس پر حکومت کو یہ رقم خرچ کرنا پڑی تھی -ڈاکٹر کفیل کو ایک معاملہ میں ضمانت ملنے کے بعد ان پر فوری ہی قومی سلامتی قانون کے تحت کارروائی کرتے ہوئے جیل سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا گیا مہاتما گاندھی کے یوم شہادت پر مگہر سے وارانسی تک پد یاترا نکلنے والے گاندھی وادیوں کوغازی پور میں گرفتار کرکے ان پر سنگین دفعات کا مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے تادم تحریر وہ لوگ جیل کے اندر بھوک ہڑتال کے ہوئے ہے اور جیل کے باہر سیکڑوں کا نگریسی اور دیگر سماجی و گاندھیائی کارکن دھرنے پر بیٹھے ہیں -ایسے ہزاروں واقعات گنائے جا سکتے ہیں جہاں یوگی جی کے اشارہ پر پولیس اور ضلع انتظامیہ شکاری جانوروں کی طرح ان مظاہرین اور پروٹسٹر پر ٹوٹ پڑی ہے

افسوسناک بات یہ ہے کہ یوگی حکومت کے ان مظالم کے خلاف سول سوسائٹی کمیونسٹ لیڈروں اور کانگریس کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی خاص کر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے کھل کر میدان نہیں پکڑا ہے محض بیان جاری کرنے اور ٹویٹ کرنے پر ہی اکتفا کر رہی ہیں – گھٹاٹوپ اندھیرے میں چھوٹی چھوٹی باتیں امید کی کرن بن جاتی ہیں – اتر پردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس نے ظلم بربریت اور لاقانونیت کا جوننگا ناچ کیا اس کے خلاف کانگریس کی جنرل سیکرٹری پرینکا گاندھی ریاستی صدر اجے کمار للو اور پوری کانگریس جس طرح کھل کر سامنے ای اس نے ریاست کی اپوزیشن کی سیاست میں کانگریس کو لے کر ایک ہلچل پیدا کر دی ہے پرینکا گاندھی جس طرح اس ظلم اور برببریٹ کے خلاف سرگرم ہوئیں متاثرین کے پاس پہنچی پولیس سے ٹکرائیں اس سے عوام خاص کر مسلمانوں کے دلوں میں یہ احساس ضرور پیدا ہو ہے کہ جب سبھی نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے انکی طرف سے آنکھیں بند کر لیں تو اندرا گاندھی کی بہادر پوتی اور راجیو سونیا کی لخت جگر نے انکے دکھ درد کو سمجھا اور انکی لڑائی لڑ رہی ہے -کانگریس نے تمام مظالم کے ویڈیو فوٹو وغیرہ یکجا کر کے قریب ??? صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو پیش کی جس پر کمیشن نے اتر پردیش کے چیف سیکرٹری اور پولیس سربراہ کو نوٹس جاری کر کے ان سے چھ ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے- یہی نہیں پرینکا گاندھی کی ہدایت پر زخمیوں کے علاج کا بھی پارٹی کی طرف سے انتظام کیا جا رہا ہے اور مقدموں کی پیروی کے لئے پارٹی سے وابستہ وکیلوں کا پینل بھی بنا یا گیا ہے -پارٹی کے ریاستی صدر اجے کمر للو نے کہا ہے کہ جن افسروں نے غیر قانونی طریقوں سے عوام پر ظلم کیا ہے حکومت آنے پر انکے خلاف تادیبی کارروائی کی جائیگی اور بیگناہ افراد پر درج کے گئے مقدمہ واپس لئے جاینگے –

دوسری جانب مسلمانوں کے ووٹوں کے بل پر گزشتہ تیس برسوں سے اتر پردیش میں بار حکومت بنانے والی سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی معنی خیز خاموشی سے مسلمانوں کے ذہنوں میں لازمی طور سے کئی سوال اٹھ ر ہے ہیں خاص کر اعظم گڑھ کے بلریہ گنج شہر میں پولیس نے رات چار بجے خواتین پر جو ظلم ڈھایا اس پر وہاں کے ممر پارلیمنٹ اور سماج وادی پارٹی کے قومی صدر و سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کے وہاں تادم تحریر نہ پہنچنے کو لے کر طرح طرح کے سوال اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ کانگریس کے ریاستی صدر اجے کمار للو نے واقعہ کے فوری بعد سخت بیان جاری کیا کانگریس اقلیتی شعب? کے ریاستی صدر شاہنواز عالم نے وہاں کا دورہ کر کے حالات کا جایزہ لیا اور اسکے بعد خود پرینکا گاندھی ریاستی صدر اجے کمار للو کانگریس قانون ساز پارٹی کی لیڈر مونا مشرا کانگریس اقلیتی شعب? کے قومی صدر جاوید ندیم اتر پردیش کے کو ار ڈینیٹر منت رحمانی سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر جتن پرسادسابق ریاستی نائب صدر عمران مسعود پارٹی کی سابق ترجمان اور شعب? دانشوران لکھنؤ یونٹ ک صدر رفعت فاطمہ سمیت کئی لیڈران نے وہاں پہنچ متاثرین سے ملاقات کی اور ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ان لیڈروں کے وہاں پہنچنے سے جیسے عوام خاص کر مسلمانوں کو ایک کندھا مل گیا جس پر سر رکھ کر وہ اپنا غم غلط کر سکیں – –

اقتدار طاقت اور سب سے بڑی بات جھوٹ لفاظی اور نفرت کی طاقت پر کھڑے جابر حکمراں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے ہمیشہ چند مخصوص لوگ ہی ہوتے ہیں . بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں خاص کر اتر پردیش دہلی اور کرناٹک میں میں شہریت ترمیمی بل کے احتجاج کو جس بے رحمی اور لاقانونیت کے ذریعہ کچلا گیا ہے وہ ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے -ذرا تصور کیجئے دسمبر کی شدید سردی میں احتجاج کر خواتین کے کمبل اٹھوا لئے جایں الاؤ میں پانی پھنکوا دیا جائے کھانہ لوٹ لیا جائے اور سر پر شامیانہ فرش پر دریاں بچھانے کی بھی اجازت نہ دی جائے -چار پانچ سال کے بچوں پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج کر لیا جائے اور ان سے پولیس پوچھ گچھ کرے -والدین پر ایسے بچوں کی غلط پرورش کا الزام لگا کر انھیں جیلوں میں بند کر دھیا جائے ہر اٹھنے والی آواز کو بربریت کے ساتھ دبا دیا جائے احتجاج کو ملک سے غداری قرار دیا جائے صبح چار بجے خواتین کے خلاف پولیس ایکشن ہو خواتین کو فحش گالیوں سے نوازا جائے کیا یہ سب کسی مہذب سماج میں ممکن ہے ایک آئینی جمہوریت والے ملک میں یہ سب تو نا قابل تصور ہے لیکن مودی نے جو ہندستان گزشتہ چھ برسوں میں بنا دیا ہے ان میں یہ سب نارمل باتیں ہو گئی ہیں اب یہاں پر مظلوم سے ہمدردی کرنے سے پہلے اسکا مذھب دیکھا اس سے راشٹر پریم کا سبوت ثبوت مانگا جاتا ہے –

پچاس کی دھائی میں الہ آ باد ہائی کورٹ کے جج اور اردو کے ممتاز شاعر پنڈت آنند نرائن ملا نے اپنے ایک فیصلہ میں اتر پردیش پولیس کو جرائم پیشہ عناصر کا منظم گروہ کہا تھا تقریبا چالیس سال بعد اب وہ جرائم پیشہ کے ساتھ ہی ساتھ فرقہ پرست بھی ہو گئی ہے اور اگر جسٹس ملا دوبارہ کوئی فیصلہ لکھتے تو شاید وہ اب اتر پردیش پولیس کو جرائم پیشہ فرقہ پرستوں کا منظم گروہ کہتے –

شہریت ترمیمی قانون کے خاف ?? دسمبر کو لکھنؤ سمیت پورے اتر پردیش میں زبردست احتجاج ہوا اس احتجاج میں سماج کے سبھی طبقوں کے لوگ شامل تھے لیکن یوگی جی نے اسے صرف مسلمانوں کا احتجاج سمجھا ور پولیس و انتظامیہ کو اس احتتجاج ن کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا پھر کیا تھا پولیس اور انتظامیہ کے افسروں کو جیسے کھل کھلنے اور اپنے اندر چھپی ہی مسلم دشمنی نکالنے کا موقعہ مل گیا اور انہونے وہ سب کر ڈالا جو ایک اینی جمہوری نظام میں نا قبل تصور ہے -ایک دن میں بیس نوجوانوں کو موت کے گھٹ اتارا گیا ان سب کے سینے اور اسکے اوپر گولی ماری گئے جبکہ گولی چلانا با لکل آخری حربہ ہوتا ہے اور گولی بھی کمر کے نیچے مارنے کا حکم ہے تاکہ موت کا خطرہ نہ رہے لیکن یہاں جو گولی چلائی گئی تھی وہ سینے کے اوپر ماری گئی تھی جو قتل عمد کے زمرہ میں آتا ہے -جھوٹ مکاری اور دیدہ دلیری کی حد پار کرتے ہوئے پولیس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس نے گولی نہیں چلائی تھی یہ گولی خود احتجاجیوں نے چلائی تھی جس سے ان لوگوں کی موت ہوئی -اگر بر بنائے بحث یہ بودی دلیل ماں بھی لی جائے تو کیا حکومت کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ ان اموات کی جانچ کرائے اور قاتلوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے لیکن دو مہینہ گزر گیا ابھی تک حکومت کی طرف سے کسی جانچ کا حکم نہیں دیا گیا جس سے حکومت کا جھوٹ سامنے آ رہا ہے -الٹا یوگی کے اشارہ پر انتظامیہ لوگوں سے سرکاری املاک کے نقصان کی بھرپائی کے لئے انھیں نوٹسیں جاری کر رہی ہے جو آج تک کبھی نہیں ہوا -بقول کانگریس کے سینئر لیڈر اور اتر پردیش کانگریس کمیٹی شعب? دانشوراں کے صدر سمپورنانند مشرا یوگی حکومت ان احتجاجیوں سے دشمنوں جیسا سلوک کر رہی اور یہ بھول گئی ہے کہ احتجاج عوام کا اینی حق ہے یہ لوگ بھی ہندستانی شہری ہیں ان سے دشمنوں جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا لیکن جب آنکھوں پر نفرت کا چشمہ لگا ہو تو انسان کی عقل ماری جاتی ہے یوگی جی کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے -(یو این این)

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا