’ شاہین باغ‘ کا ہائی وولٹیج کرنٹ!

0
0

محمد اویس سنبھلی
اروند کیجریوال کی آندھی میں عام آدمی پارٹی دہلی میں تاریخی جیت کے ساتھ تیسری بار اقتدار میں آگئی ہے ۔دارالحکومت دہلی میںبھارتیہ جنتا پارٹی کا ۲۲؍سال کے بعدبھی اقتدار میں واپسی کا خواب چکناچور ہوگیا ۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں 70میں سے 67 سیٹیں جیتنے والی عام آدمی پارٹی نے اس انتخاب میں 63سیٹیں جیت کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ مسلسل دوانتخابات میں60سے زائد سیٹیں جیتنے والی وہ پہلی پارٹی بن گئی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی اس تاریخ ساز جیت پر دارالحکومت دہلی ہی نہیں پورے ملک کے سیکولر حلقوں میں جشن کا سماں ہے۔ دہلی کے عوام نے ’’آپ‘‘ کو وسیع حمات دے کر عام آدمی پارٹی کے نعرے ’’لگے رہو کیجریوال‘‘ پر مہرلگا دی۔انتخابات کے نتائج سے صاف ہوگیا کہ کیجریوال کے آگے وزیر اعظم نریندر مودی ، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی بونی ثابت ہوئی۔نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان بھی ان کے کچھ کام نہ آسکے۔کل ملا کر بی جے پی نے ۱۱؍وزراء اعلی، درجنوں مرکزی کابینی وزراء ، دوسو سے زائد ممبر ان پارلیمنٹ کو انتخابی مہم میں اتارا تھا ، اس کے باوجود پارٹی کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔
دہلی میں’آپ‘ کی جیت دراصل سیکولرزم کی فتح ہے۔یہ محبت کی جیت ہے اس سے نفرت اور اشتعال انگیزی کی سیاست کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے ۔امیت شاہ کو اس بات کا خوب اندازہ تھا کہ دہلی اسمبلی انتخاب میں ان کے لیے جیت کی راہ آسان نہیں ہے، اسی لیے انھوں نے اروندکیجروال نامی ’آندھی‘ کا رُخ بدلنے کے کیلئے دن رات ایک کردیے۔چھوٹے چھوٹے نیتائوں کو اشتعال انگیزی کا خوب موقع فراہم کیا گیا۔کہیں اشاروں اشاروں میں اقلیتی فرقہ کو غدار کہہ کر گولی مارو کا نعرہ دیا جارہا تھاتو کہیں مسجدوں کوتوڑنے کی بات کہی جارہی تھی ۔ ایک لیڈرنے اسے ہندوستان پاکستان کے مابین میچ کا نام دیا ۔ رام مندر اور دفعہ370پر اپنی کمر تھپ تھپائی جارہی تھی۔کپل مشرا ، پرویش ورما ، انوراگ ٹھاکرکی گالیوں، گولیوں اور دھمکیوں کے علاوہ ہندو مسلم، ہندوستان پاکستان کے درمیان عوام کو بانٹنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔اروند کیجروال پر بیہودہ قسم کے الزامات سے جی نہیں بھرا تو انھیں ہندو مخالف اور دہشت گرد تک کہہ دیاگیا۔پارٹی صدرنہ ہوتے ہوئے بھی امیت شاہ انتخابی مہم کے ہیرو بنے رہے اور ایک دن میں کئی کئی سبھائوں کو خطاب کیا۔ لیکن پورے الیکشن میں انھوں نے صرف اور صرف ’شاہین باغ‘ کو ٹارگیٹ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ’’مترو ! کمل کا بٹن اتنی زور سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے‘‘۔ملک کے وزیر داخلہ نے گھر گھر جاکر بی جے پی کے لیے ووٹ مانگے نیز فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دینے کی بہت کوشش کی ۔ دراصل یہ ساری کوشش ’’پولرائزیشن ‘‘ کی تھی۔مگر دہلی کے ووٹروں نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا ۔وہ بی جے پی کے پروپیگنڈہ اور پرچار سے بالکل متاثر نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے جھاڑوں کا بٹن صحیح معنوں میں اتنی زور سے دبایا کہ امیت شاہ کو ’ شاہین باغ‘ کا ہائی وولٹیج کرنٹ لگ گیا۔
دہلی کے عوام نے نفرت کی سیاست کرنے والوں کو منہ توڑجواب ہی نہیں دیا بلکہ یہ ثابت کردیا کہ ان کا ووٹ کام کرنے والے کے لیے ہے ۔اس کے لیے بجا طور پر دہلی کے لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ کانگریس کا منظر سے غائب رہنا بھی بی جے پی کی شکست کا ایک بڑا سبب بنا ہے۔لوک سبھا الیکشن میں جو مسلم ووٹر عام آدمی پارٹی سے ہٹ کر کانگریس کی طرف گئے تھے ، وہ اسمبلی الیکشن میںبی جے پی کے خلاف عام آدمی پارٹی کی حمایت میں پوری طرح ڈٹ گئے ۔ جبکہ اگر دیکھا جائے تو ’آپ‘ شاہین باغ کے ساتھ کانگریس کی طرح کھل کر کھڑی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے بی جے پی کی پولرائزیشن کی کوششیں اسی پر الٹی پڑ گئیں۔
۲۰۱۹؍کا لوک سبھا الیکشن جیتنے کے بعد سے بی جے پی کوہریانہ چھوڑ کر سبھی ریاستی اسمبلی الیکشن میں شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دوسری مرتبہ مرکز میں اقتدار حاصل کرلینے کے بعد سے وزیر اعظم مودی ، وزیر داخلہ امیت شاہ سمیت بی جے پی کے تمام نیتائوں میں ’’راجائوں‘‘ والی رعونت نظر آنے لگی ہے۔ وہ خود کو عوام کا خیرخواہ اور ان کا خادم سمجھنے کے بجائے اپنے آپ کو ’’راجا‘‘ اور بھولی بھالی عوام کو ’’پرجا‘‘ سمجھنے لگے ہیں ۔دہلی انتخابی مہم کے دوران امیت شاہ کے چہرہ پر غرور ، تکبر ، رعونت کوصاف طور پر دیکھا جاسکتا تھالیکن عام آدمی پارٹی کی جیت نے سب پرپر خاک ڈال دی ۔ بقول افتخار عارف ؎
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
آخری میں برادرم الیاس نعمانی کی تازہ ترین فیس بک پوسٹ’’مسلمانانِ ہند کے لیے دہلی کا سبق‘‘سے چند جملے نقل کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔وہ لکھتے ہیں:
گذشتہ کئی دہائیوں سے ہندوستانی مسلمانوں کی پالیسی رفتہ رفتہ یہ ہوگئی تھی کہ وہ اپنے ایشیوز پر بالعموم خاموشی سے کام لیتے تھے، انھیں لگتا تھا کہ اگر انھوں نے اپنے ایشیوز کے لیے کوئی زوردار تحریک چلائی تو اس کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر بی جے پی فائدہ اُٹھا لے گی۔ یہاں تک کہ ملک میں ان (مسلمانانِ ہند)کے خلاف ہر سطح پر یہ فضا بنائی گئی کہ یہ ملک میں’ایک باغی قسم کی کمیونٹی‘ ہیں اور اس کا بھی کوئی زوردار مقابلہ سماجی سطح پر ہم نہیں کیاکہ کہیں ہمارے مقابلہ میں آنے سے ہندوئوں کا پولرائزیشن نہ ہوجائے۔ حالانکہ اس فضا کو تسلیم کرلینا کیسا مہلک تھا اور اس کا اندازہ ہر شخص کرسکتا ہے۔اس پالیسی کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ (مسلمان)ملک میں حاشیہ پر چلے گئے ، سماجی طور پر نہایت بے حیثیت ہوگئے، یہاں تک کہ وہ پارٹیاں بھی جن کی پوری سیاست مسلمانوں کے ہی رحم و کرم پر ہے وہ بھی ان کے لیے انصاف کی آواز اُٹھانے کو تیار نہیں رہیں۔
لیکن دہلی کے حالیہ اسمبلی الیکشن میں انھوں نے یہ بے جا رویہ ترک کیا اور اپنے ایشیوز (CAA-NRC-NPR)کے خلاف بے نظیر قسم کا مظاہرہ و احتجاج شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جاری رکھا۔ کئی دیگر مقامات پر بھی یہ احتجاجی دھرنے قائم رہے، بعض حضرات کو( جنھیںپرانی روش پر اصرار تھا) یہ خیال بھی ہوا کہ کہیں اس کا فائدہ بی جے پی نہ اُٹھا لے لیکن مسلمانان دہلی نے اپنی آواز پست نہ کی۔ احتجاج کی لو میں ہلکا سا بھی فرق نہ آنے دیا، دوسری جانب پوری بی جے پی پولرائزیشن کی ہر ممکن اوربدترین کوششیں کرتی نظر آئی۔۔۔۔۔لیکن جو ہوا اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جس اسمبلی حلقہ میں شاہین باغ ہے وہاں سے ایک مسلم امیدوار 74%فیصد ووٹ لے کر 70ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیتا جبکہ اس کی سیٹ پر تقریباً 50%غیر مسلم ووٹرس ہیں۔
یعنی دہلی کے نتیجے مسلمانوں کے لیے یہ پیغام رکھتے ہیں کہ وہ اندیشہ ہائے دور دراز کا زیادہ خیال نہ کریں ، اپنی سماجی جدوجہد جاری رکھیں اور بدست خود ملک میں سماجی طور پر حاشیہ پر نہ چلے جائیں۔ وہ اپنی آواز اُٹھائیں گے تو ان کی آواز سنی جائے گی اور دوسرے طبقات سے بھی ایک تعداد ان کے ساتھ آئے گی اور اگر انھوں (مسلمانوں)نے اپنے ایشیوز نہ اُٹھانے کی غلطی کی تو وہ بے حیثیت رہ جائیں گے۔
(یو این این)
رابطہ: 9794593055

 

 

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا